مردم شماری اور ہمارا نظام

آج پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹا بڑا ملک ہے


[email protected]

جس ملک کی ساری جماعتیں Status Quo پر خوش ہوں، وہاں مردم شماری کا شروع ہو نا واقعی حیرت سے کم نہیں اور پھر سوئے ہوئے محکمہ شماریات کا ملک بھر میں ''شارٹ ٹائم'' میں مردم شماری کرانے کا دعویٰ واقعی قابل تعریف ہے۔ لیکن حالیہ مردم شماری جس پرُانے اور پھٹیچر انداز میں کی جارہی ہے وہ ''مضحکہ خیز '' ثابت ہو رہی ہے۔

ویسے میں سوچ رہا تھا کہ جس ملک میں گردے خراب کرنے والے ملاوٹ خوروں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہو، حکمران فوٹو شوٹ کرا رہے ہوں تو وہاں مردم شماری کی شفافیت کا کیا عالم ہوگا؟ ویسے بھی اس بے ضرر اور جائز کام کے لیے فوج کی مدد طلب کی گئی ہے لیکن ماہرین کے نزدیک جب ملک میں نادرا جیسا ادارہ موجود ہو، جس کے پاس ہر فرد اور ہر گھرانے کا ڈیٹا موجود ہے اُس سے خدمات نہ لینا ایسے ہی ہے جیسے ''بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا''۔

میرے خیال میں یہ ہمارے اداروں کی نااہلی کا ثبوت ہے کہ ہمارے پاس ''خانہ شماری'' تک کا ریکارڈ نہیں ہے، ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے ملک میں سویلین ادارے بے کار بیٹھے ہیں، اگر دیکھا جائے تو پولیو قطرے پلانے والوں کے پاس بھی ریکارڈ موجود ہے ، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام والوں کے پاس ہر گھر کی تفصیل موجود ہے۔

میں نے اس حوالے سے محکمہ شماریات کے ایک افسر سے بات کی تو موصوف کہنے لگے کہ ہمار ا سوالنامہ زیادہ تفصیلی ہو گا، میں نے اُن سے مزید پوچھا کہ محکمہ شماریات والے 19سال تک کیا کرتے رہے؟ جب کہ دنیا بھر میں 19سالوں میں تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو چکے ہیں، کیا یہ انھی کا کام نہیں کہ پورے ملک سے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں۔

اب ذرا غور کیا جائے کہ حالیہ مردم شماری کے لیے 25ارب روپے سے زائد کا بجٹ رکھا گیا ہے اور خدانخواستہ اگر یہ عمل تاخیر کا شکار ہوگیا تو لاگت لامحدود انداز میں نیلم پاور پراجیکٹ کی طرح 1000فیصد تک بڑھائی جا سکتی ہے اور ویسے بھی حالیہ مردم شماری کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ہو رہی ہے جو پہلے ہی ''اعداد وشمار '' کے ماہر سمجھے جاتے ہیں،صوبوں کے خدشات اس قدر ہیں کہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

سندھ میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز فاروق ستار اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس مردم شماری سے خوش نہیں ہیں، کے پی کے میں افغان مہاجرین کی موجودگی اور ان میں سے اکثر کے پاس قومی شناختی کارڈز کی موجودگی نے مردم شماری کی بنیاد کے لیے نازک سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ بلوچستان میں یہ مسائل مزید گھمبیر ہیں۔ بلوچ رہنماؤں کے تحفظات ہیں کہ لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی اور ان میں سے اکثر کے پاس جعلی شناختی کارڈز کی موجودگی میں ہونے والی اس مردم شماری میں بلوچ آبادی کا تناسب اقلیت کی طرف جانے کا امکان ہے۔

آج پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹا بڑا ملک ہے، موجودہ مردم شماری کے بعد دوبارہ عالمی رینکنگ ہوگی، تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً 70 زبانوں میں سے صرف 9 زبانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی کو شامل کیا گیا ہے ۔ ایک اور بات یہ کہ اندازاً 60 لاکھ پاکستانی جو بیرون ملک ملازم ہیں وہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔

اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی جائیں گی، معذور افراد کو مردم شماری کا حصہ ہی نہیں بنایا جارہا صرف سندھ میں اس وقت 50لاکھ اورملک بھرمیں 2 کروڑ سے زائد معذورافراد ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ مردم شماری کے لیے تعینات کیے جار ہے ہیں وہ ٹھیک کام بھی کر رہے ہیں یا نہیں جن سے معلومات لی جا رہی ہے وہ صحیح بھی بتا رہے ہیں یا نہیں؟ اور آج تو پاکستان کا ہر فرد ''حالت سفر'' میں ہے تو شفاف اعداد و شمار کی کیا گارنٹی ہوگی؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے جن لوگوں کو مردم شماری کرنے بھیجیں وہ ایک اونچی پہاڑی پر بیٹھ کر اندازے ہی لگائیں کہ کس کے کتنے بچے ہیں یا ہو سکتے ہیں لکھ کر پیچھے بھیج دیں۔

میں نے اس حوالے سے ہلکی پھلکی تحقیق کی تو علم ہوا کہ ہمارے گردو نواح میں بھی ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے ، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ جیسے ملکوں میں بھی محکمہ شماریات موجود ہیں ، جو ہر دس سال بعد مردم شماری کرانے کے ساتھ ساتھ پورا سال اپنے ملک کی آبادی کے حوالے سے مختلف سروے کراتے رہتے ہیں، جن کی مدد سے نہ صرف الیکشن اور حلقہ بندیوں میں مدد ملتی ہے بلکہ اُن ممالک کی معیشت اور معاشرت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتاہے۔

روس کا مردم شماری کا نظام سب سے بہتر تصور کیا جاتا ہے، وہاں کے شہری (لڑکا/ لڑکی) کا 16 سال کی عمر میں''پاسپورٹ'' بنا دیا جاتا ہے۔ پاسپورٹ پر اُس شخص کا نام، ولدیت، خاندانی نام، تاریخ پیدائش، مقامِ پیدائش اور پتہ درج ہوتا ہے اور تصدیق شدہ تصویر بھی۔ 25سال کی عمر میں ہر شخص کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر نئی تصویر چسپاں کردی جاتی ہے، اگراُس کا پتہ تبدیل ہوگیا ہو تو نیا پتہ، اگر اُس نے شادی کرلی ہو تو بیوی/ خاوند کا نام اُس کے والد کا نام، خاندانی نام، تاریخ پیدائش، مقامِ پیدائش، اُس شخص کے پاسپورٹ پر اُس کی بیوی/ خاوند کے پاسپورٹ کی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں، جب کوئی شہری 45 سال کا ہو جاتا/ جاتی ہے تو اُس کے اگلے صفحات پر اُس کی تصویر لگا دی جاتی ہے۔

25 سے 45 سال تک کی عمر کے دوران اُس کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر طلاق، نئی شادی، بچوں کی پیدائش یا پتے کی تبدیلی ہو چکی ہو تو اُس کی تفصیلات بھی درج کر دی جاتی ہیں۔ 45 سال کی عمر کے شخص کی اُس کے پاسپورٹ پر نئی تصویر نہیں لگائی جاتی اوراگر کسی شخص کا پاسپورٹ گم جائے اُس کی سخت سر زنش کی جاتی ہے اور جرمانہ کر کے نیا پاسپورٹ بنا دِیا جاتا ہے۔

آسڑیلیا میں ہر بچے کی پیدائش پراُس کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ ورنہ اُسے اسکول میں داخلہ نہیں ملتا۔ جوان ہو جائے تو اُسے شادی کی اجازت نہیں مِل سکتی اور اگر وہ مر جائے توتدفین وتکفین میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں یونائٹڈ اسٹیٹ سینسس بیورو (USCB) موجود ہے۔

یہ ایجنسی امریکا کے اندر آبادی اور معیشت کے بارے میں تمام تر معلومات جمع کرنے کی ذمے دار ہے، یہ ایجنسی ہر دس برس بعد ملک میں مردم و خانہ شماری کرنے کی پابندہے۔ اسی ایجنسی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ملک کی تمام ریاستوں کو ایوان نمایندگان میں نشستیں فراہم کی جاتی ہیں جن کا تعین آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ برطانیہ کے مختلف حصوں میں 1801 سے مکمل مردم اور خانہ شماری کا سلسلہ جاری ہے جو ہر دس برس بعد ہوتی ہے۔

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، چین میں مردم و خانہ شماری کا کام بہت بڑے چیلینج سے کم نہیں ہوتا لیکن وہاں منظم طریقے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بآسانی اور شفاف اعدادو شمار مرتب کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں مردم شماری کا محکمہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ بھارت میں مردم شماری کے لیے مستقل قانون موجود ہے۔ جو بھارت مردم شماری ایکٹ 1948ء کہلاتا ہے۔اس ایکٹ سے تحت مردم شماری کے لیے ضروری سوالات کا غلط جواب دینے یا جواب دینے سے انکار پر سزا دی جاسکتی ہے۔

افسوس آج ہمارے حکمران اپنے ملک میں موجود عوام کی صحیح تعداد ہی نہیں جانتے۔ انھیں جمہور کا علم ہی نہیں ہوگا تو وہ اپنا ایجنڈا کیا پیش کریں گے؟ انھیں ہر عمر کے بچوں اور مختلف امراض میں مبتلا شہریوں کی تعداد کے بارے میں مکمل معلومات ہونا چاہیں لیکن ''مطالعہ جمہور'' سے واقفیت کے بغیر یہ کیسے ممکن ہوگا؟میرے خیال میں اگر نظام بہتر ہو، ادارے مضبوط ہوں اور ہر ادارہ اپنے تئیں عوامی خدمت کو شیوہ بنا لے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوں گی کہ یہاں کوئی ایسا نظام وضع ہو جائے جس سے پاکستان کا ہر شہری حکومت کی نظر میں رہے اور اُس کو حکومت پاکستان تمام سہولیات اُس کی دہلیز پر پہنچانے کی پابند ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں