بچوں کی تربیت اورخوبصورت معاشرہ
بچے نہ صرف اپنے تعلیمی ادارے بلکہ اپنے گھروں میں جس قسم کی تربیت حاصل کرتے ہیں اس سے ان کے اخلاق متاثر ہوتے ہیں
ابھی حال ہی میں ایک اسکول کے متعلق ایک رپورٹ دیکھی جس میں والدین بچوں کے سلیبس میں شامل کتاب میں ایسے مواد کے خلاف احتجاج کررہے تھے، جوہمارے مذہبی وقارکو مجروح کرتا ہے۔اسلامیات کی کتاب ایک انگریز کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھی اور انتہائی حیران کن بات یہ تھی کہ اسے پاکستان کے ایک اعلیٰ اسکول کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یاد آیا کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کے بھائی صاحب نے امریکا میں ایک فرنگی خاتون سے شادی کرلی موصوفہ اسلام سے متاثر تھیں شادی کے بعد انھوں نے امریکا میں ہی کسی اسکول میں اسلامیات کی استانی کے طور پر نوکری اختیار کرلی تھی وہ صاحبہ خاصی متفکر تھیں ان کا کہنا تھا کہ انگریز اور اسلامیات۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے لیکن ہمارا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ اسلامیات کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ یہ تو تمام انسانوں کے لیے ہے ہاں البتہ اس کے مواد کے تحریر کرنے میں کوئی مستند استاد ہی بہتر ہوسکتا ہے کہ جسے اس پر دسترس ہو، میں یا آپ تو اس پر کام کر نہیں سکتے۔ اس پر دسترس حاصل کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو اس کی روح کو جانتا ہو اور اگر کسی فرنگی نے اسے تحریر کر بھی لیا تو اس کتاب کا مقصد اس کے غیر مسلم ہونے کے ساتھ ہی ادھورا رہ گیا چاہے وہ شخص کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو۔
ہم اپنے اسکولوں میں کیا پڑھا رہے ہیں اور اپنے بچوں سے کیا چاہتے ہیں عام طور پر زیادہ تر والدین کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بچوں کو فرفر انگریزی بولنی آنی چاہیے تاکہ انھیں مستقبل میں اس سلسلے میں کوئی شرمندگی نہ ہو۔ اس کے علاوہ بچوں کے اعلیٰ اعلیٰ گریڈ آنے چاہئیں تاکہ ان کے اعلیٰ کالجز میں داخلوں میں دشواری نہ ہو۔
''ہمارے بچے نے اتنے اچھے انگریزی میڈیم اسکول سے میٹرک کیا تھا کیا بتاؤں ایسی اچھی انگریزی بولتا ہے پھر اس نے ضدکرکے ایک پرائیویٹ (پوش علاقے) کالج میں داخلہ لے لیا بس وہیں سے اسے نشے کی لت لگ گئی۔ میرا بچہ تو اتنا اچھا تھا پڑھائی میں، بہت سعادت مند تھا لیکن نشے کی لت نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اتنا علاج کروایا اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن پھرکوئی نہ کوئی ایسا دوست مل جاتا ہے جو اسے کچھ نہ کچھ پکڑا دیتا ہے یوں اس میں پھر نشے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔
یہ کہانی ایک ایسی ہی ماں کی ہے جن کا تعلق اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے لیکن بیٹے کا درد دل میں اس قدر تھا کہ ذرا سی سلام دعا کے بعد ہی انھوں نے اپنے صاحبزادے کی داستان غم بیان کردی خدا ان پر رحم کرے۔
''میں سارا دن یوں اسکول میں گھومتا رہتا ہوں۔ میری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ بچوں میں نظم و ضبط پیدا ہو لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بچوں کا اخلاق خاصا بگڑا ہوا ہے۔ پڑھائی میں بچے کیسے ہیں یہ ایک الگ بات ہے لیکن بچوں کا رویہ، انداز گفتگو،اخلاق کیسا ہے یہ الگ ہے اور جب تک ان کا اخلاق نہیں سنور جاتا وہ پڑھائی میں بھی اپنا معیار بلند نہیں کرسکتے۔''
یہ کہنا تھا شہر کے ایک اعلیٰ درجے کے اسکول کے پرنسپل کا کہ جس اسکول میں داخلے کے لیے والدین بے قرار رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کے بچے کا اس اسکول میں داخلہ ہوجائے، ہمارے یہاں اخلاقی انحطاط کا عمل جاری ہے اس کی وجہ وہ گھریلو ماحول ہے جو بچوں میں جذب ہوتا ہے اسی کے عکس کو دوسرا بچہ جلدی سے قبول کرلیتا ہے کیونکہ اچھائیوں کے مقابلے میں برائیوں میں زیادہ کشش نظر آتی ہے مثلاً ویلنٹائن ڈے پر چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک کے بچوں کے پاس ڈھیروں مہنگی چاکلیٹس اور مختلف تحائف تھے جو انھیں اس دن کی مناسبت سے اپنی فرینڈزکو دینا تھا۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل مقامی اسکول کے دو بچوں نے اسکول میں خودکشی کرلی تھی اورکچھ اسی طرح کا عمل اسلام آباد کے ایک اسکول میں بھی ہوچکا ہے۔ اس کے ذمے دار بہت حد تک انٹرنیٹ کو بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے جس نے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں اخلاقی برائیوں کو فروغ دیا ہے گھروں میں کھلے عام بچے چھوٹے سے موبائل فون کے ذریعے دو سے تین منٹ تک کی بے ہودہ ویڈیوز میں وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کو دیکھنے کی ہمت ایک نرم دل رکھنے والا کبھی نہ کرسکے۔
دراصل بچے نہ صرف اپنے تعلیمی ادارے بلکہ اپنے گھروں میں جس قسم کی تربیت حاصل کرتے ہیں اس سے ان کے اخلاق متاثر ہوتے ہیں لیکن اپنی اپنی ذمے داریوں کو جب اچھی طرح سے انجام نہیں دیا جاتا تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً جب ہم بچے تھے تو ہمارے اساتذہ پورا سلیبس ختم کرانے کے بعد ہمیں امتحانات کے لیے تیاری کرواتے تھے اور بہت محنت کرتے تھے جب ہم کام کرکے انھیں دکھاتے تھے تو وہ اس میں ہماری غلطیوں کی اصلاح کرکے ہمیں دیتے تھے کہ اب اسے اچھی طرح اپنی کاپی پر اتار لیں تاکہ امتحان میں ہمیں یاد کرنے میں دقت نہ ہو اور ہم اسی طرح صاف ستھرا کام امتحانی کاپیوں پر بھی کریں بلکہ ہمارے ایک استاد تو اس طرح کرتے تھے کہ ہمیں حل کرنے کے لیے کام دیا اور گھڑی سامنے رکھ دی کہ یہ کام آپ سب کو تیس منٹ میں کرنا ہے اور جب ہم اسے مکمل کرلیتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ کل آپ کو اسی کام کو مزید دس منٹ کم وقت میں کرنا ہے۔ اس طرح بچوں کی مقررہ ٹائم میں کام کو مکمل کرنے کی عادت پڑتی تھی۔
بچوں کے مشہور شاعر اسمٰعیل میرٹھی کے نواسے پروفیسر سحر انصاری نے بچوں کی تربیت اور امتحانات کی تیاری کے حوالے سے کچھ اس طرح سے اظہار کیا تھا، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں امتحانی طریقہ کار میں جس طرح تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اس سے نقل کے رجحان میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ نقل جو ہر عہد میں کسی نہ کسی طرح ہوجاتی تھی لیکن ان دنوں یہ ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے جس کا شکار پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک بھی ہیں۔
ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ابھی ہمارے معاشرے میں رشتوں کی اہمیت اورتقدس ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت میں ان رشتوں کی سہولت بھی حاصل رہتی ہے لیکن خدارا اپنے بچوں کے نصاب کو بھی پڑھ کر دیکھ لیا کریں کہ آپ کے بچے ترقی کی شاہراہ پر چلنے کا راستہ سیکھ رہے ہیں یا معاشرتی برائیوں کی دلدل میں گر رہے ہیں کیونکہ اوپر چڑھنے میں جس قدر دقت ہوتی ہے نیچے گرنے میں ذرا دیر نہیں لگتی اور ہم جس خوبصورت اسلامی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں خوبصورتیوں کے وہ تمام منبر روشن ہیں جن سے ایک مکمل معاشرہ سامنے آتا ہے خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے۔( آمین)