ماہرین طب و جراحت
ماہرِ نفسیات کے مطابق جسِ طرح یہ بیماری آتی ہے اسی طرح اچانک پیچھا بھی چھوڑسکتی ہے
1960ء سے 1963ء کے درمیان ابنِ صفی علیل رہے۔''یہ ذکر اُس بیماری کا ہے جسے شیزوفرینیا کہا جاتا ہے۔ ابنِ صفی اِس بیماری کا شکار 1961ء کے اوائل میں ہوئے تھے اور پورے 3 برس بعد اُن کو اِس بیماری سے نجات ملی۔ اِس دوران وہ ایک لفظ بھی نہ لکھ سکے تھے اوربیماری کی نوعیت دیکھتے ہوئے بہ ظاہر یہ لگتا تھا کہ شاید وہ جاسوسی ناول نگاری ترک کرنے پر مجبورہوجائیں لیکن 21 اکتوبر1963ء کو شایع ہونے والے ناول' ڈیڑھ متوالے' سے وہ پوری قوت سے جاسوسی ادب کے میدان میں واپس آئے۔ اِس سلسلے میں (آپ کے صاحبزادے) احمد صفی بیان کرتے ہیں''اِس بیماری میں ڈپریشن اوراختلاج بنیادی اثرات ہوتے ہیں۔
ایک ماہرِ نفسیات نے نیویارک میں اِس موضوع پر دقیق گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے تخلیق کار اِس درجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے ذہن کی کار کردگی اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ بہت تیزی سے بہت عمدہ تخلیقات کے ڈھیرلگا دیتے ہیں۔اِس درجے پر پہنچنے کے بعد ذہن اچانک خود کوبندکرلیتا ہے اور نہ صرف تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں بلکہ ایک مسلسل ڈپریشن اوراختلاجی کیفیت اُس پرطاری ہوجاتی ہے جس کے زیرِاثر وہ کچھ بھی کرگزرسکتا ہے۔ اِس کی ایک مثال فاضل ڈاکٹر صاحب نے مصور'وین گوگ' کی دی ہے، جس نے اِس بیماری کے زیرِ اثر اپنا کان کاٹ کر اپنی محبوبہ کو ارسال کردیا تھا۔
اُن ہی ماہرِ نفسیات کے مطابق جسِ طرح یہ بیماری آتی ہے اسی طرح اچانک پیچھا بھی چھوڑسکتی ہے اور ابنِ صفی کے ساتھ یہ ہی ہوا۔1963ء میں حکیم اقبال حسین کے علاج کے دوران وہ اچانک نارمل ہوگئے۔'' ابنِ صفی نے 1963ء میں حکیم اقبال حسین کے ذریعے اپنی بیماری سے نجات حاصل کی تھی۔ صحت یابی کے بعد لکھے گئے پہلے ناول 'ڈیڑھ متوالے' کے انتساب میں اِبنِ صفی نے لکھا تھا'' جناب حکیم محمد اقبال حسین ایم اے، پروپرائیٹر آئی ساکو (پاکستان)کراچی کے نام جن کے ہاتھوں میں نے3 سالہ طویل علالت سے نجات پائی''۔(اِبنِ صفی شخصیت و فن۔راشد اشرف۔ دوسرا ایڈیشن۔ ص85 اور 86)
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اِبنِ صفی صاحب کو خود ہی ٹھیک ہونا تھا، جیسا کہ احمد صفی کونیویارک کے ماہرِنفسیات نے کہا کہ یہ مرض ازخود بھی چلاجاتا ہے۔بعینہٖ وائرس سے لاحق ہونے والی عفونتوں کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔مریض لاکھ سمجھا کیے کہ فلاں کے معالجے سے افاقہ ہوا ہے لیکن اصلاً تو شفا کا وقت ہونے پر مدافعتی نظام نے وائرس کو شکست دی ہوتی ہے۔یہاں اب یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ حکیم اقبال حسین ماہر نہ تھے۔آپ کے حکیم حاذق ہونے میں کوئی کلام نہیں، کہنا یہ مقصود ہے کہ آج ماہرینِ فن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہ گئے ہیں۔
عطائیوں نے اپنی دکانداری ایسے ہی امراض کے علاج سے چمکا رکھی ہے، مثلاہپاٹائٹس بی، سی وغیرہ۔ان کو پہچاننے اوران سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت نے اپنی روایتی طب یعنی آیورویدک کو دنیا بھر میں متعارف کروا دیا ہے۔ آیورویدک ادویات کی مانگ عالمی مارکیٹ میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔کیا ہماری یونانی ادویات وہاں بارپاسکیں؟کیا ہماری طبی کونسل کچھ ذمے داری محسوس کرتی ہے؟
اب آئیے کچھ اورماہرینِ طب کے تذکرے: حکیم محمد ہادی رضا خاں (ابنِ حکیم محمد حسین رضا خاں) لکھنوی اپنے وقت کے ایک ناموَر معالج اورمصنف تھے،فنِ طب ان کے خاندان میں متوارث تھا۔طاعون کے علاج میں متخصص تھے۔ طاعون پر''القانون فی علاج الطاعون'' کے نام سے اردو میں ایک رسالہ بھی لکھا جس پر1916ء میں آل انڈیا طبی کانفرنس کے اجلاس میں ان کو پسندیدگی کی سند دی گئی تھی، جس پر حکیم اجمل خاں کے دستخط تھے۔حکیم محمد ہادی رضا خاں نے طاعون سے حفظِ ماتقدم کے لیے ڈبیہ ایجادکی تھی جس کو پاس رکھنے سے طاعون کا اثر نہیں ہوتا تھا۔اس ڈبیہ کا نام انھوں نے''الحیات'' رکھا تھا۔ (رموز الاطبا: ص 218، جلداول حصہ دوم، لاہور1911ء)۔
والیِ رام پورنواب کلب علی خاں کے ولیِ عہدنواب مشتاق علی خاں مرضِ سل میں مبتلا تھے، روزے سے تھے اوریہ ضدکررہے تھے کہ میں افطارمیں دہی بڑے کھاؤں گا، حکیم ابراہیم لکھنوی بلوائے گئے اورولیِ عہد نے ان سے اپنی اس خواہش کا ذکرکیا، حکیم صاحب نے اس غذا کواس مرض میں مضر بتایا، ولیِ عہد نے کہا: یہ بات تو سب (چھوٹے موٹے) حکیم کہہ چکے ہیں آپ (جیسے بڑے حکیم) کو بلانے سے کیا فائدہ ہوا؟ حکیم صاحب نے فرمایا اچھا توآج افطار میں دہی بڑے ہی کھایے۔ پھر دروغہ مطبخ کو بلا کر اسے ہدایت کی کہ تخم باقلامقشرکوماش کی دال کی طرح پیس کراس کے بڑے بناؤاورگھی کی بجائے روغن بادام میں تلو اورگائے، بھینس کے دہی کے بجائے گدھی کے دودھ سے دہی جماؤ اوراس میں بڑے ڈالو، ولیِ عہد نے افطار میں یہ طبی دہی بڑے استعمال کیے اور عوارض سے محفوظ رہے۔ (تذکرہ خاندان غریزی: ص 64 ،ا ز حکیم سید ظل الرحمن)
ایک اور قدیم روایت ملاحظہ ہو: سکینہ بنت حسین ؓکی آنکھ کے نچلے حصے میں ایک پھنسی نکلی اور بڑھ گئی،ان کا چہرہ اورآنکھ متورم ہوگئی اورسخت تکلیف ہونے لگی۔درآنس ان کا خاندانی طبیب تھا، سکینہ نے ان سے کہا ''میری اس تکلیف کا کچھ علاج کرو۔'' درآنس نے کہا اس کے آپریشن کی تکلیف اگر برداشت کرسکو تو میں علاج کرسکتا ہوں، وہ تیارہو گئیں۔ درآنس نے انھیں لٹایا، چہرے کی جلدکاٹی اوراس سے متصل گوشت نکال دیا،اتنا کہ اس کے نیچے کی اورآنکھ کی رگیں نظرآنے لگیں،پھنسی کا کچھ خراب حصہ آنکھ کے ڈھیلے کے نیچے تھے، درآنس نے آنکھ کا ڈھیلا ایک طرف کردیا اوراس کے نیچے کا سارا خراب حصہ کاٹ ڈالا اورپھرآنکھ کا ڈھیلا اپنی جگہ لا جمایا، سکینہ اس دوران بے حس وحرکت پڑی رہیں، ذرا بھی نہیں کراہیں کچھ دن کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں،آپریشن کا ایک نشان ان کی آنکھ کے آخر میں نظر آتا تھا اور یہ ان کے چہرے پر بہت بھلالگتا تھا،آپریشن سے ان کی بینائی بھی متاثر نہیں ہوئی۔ (کتاب الاغانی جلد چہاردہم،ص 173، طبع مصر)
غیاث الدین تغلق (1321ء۔ 1325ء) جب ایک جنگ میں خسروخاں پر غالب آیا توخسروخاں کے بہت سے سپاہی اورسردار تغلق کے سامنے پیش کیے گئے اور وہ ان کے ساتھ بہت لطف وکرم سے پیش آیا اور چونکہ وہ زخمی تھے اس لیے اُن کے علاج کی طرف توجہ کی،اُن ہی میں سے ایک سردار تمر تھا، تغلق نے خود اپنے ہاتھ سے اس کے زخموں پر ٹانکے لگائے،دوا لگائی اوربرابرخبرلیتا رہا۔ امیر خسرو نے تغلق نامے میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔
جلال الدین اکبر (1556ء۔1605ء) کا ایک درباری امیرشیخ عبدالرحیم لکھنوی خللِ دماغ میں مبتلا ہوگیا اورایک روزجمدھر (ایک آلہ) اپنے پیٹ میں بھونک لیا۔بادشاہ کوخبر ہوئی تو فوراً آ پہنچا اور اس کے پیٹ کے زخم میں خود اپنے ہاتھ سے ٹانکے لگائے ''بدست مبارک خود شکم اورا دوختند صحت یافت ''۔خود اپنے ہاتھ سے اس کا پیٹ سیا، مریض تن درست ہوگیا ۔( ذخیرۃ الخوانین، شیخ فرید بھکری ، طبع کراچی، ص 237)
1595ء میں اکبر ہرنوں کی لڑائی کا تماشہ دیکھ رہا تھا کہ ایک ہرن بادشاہ کی طرف بھاگا اوراپنے سینگ مار دیے جس سے اس کا خصیہ زخمی ہوگیا اور اتنا ورم آگیا کہ رفع حاجت کے لیے بھی جانا دشوارہوگیا ۔حکیم مصری اورحکیم علی کی نگرانی میں دربارکے نامور جراح شیخ بینا اوران کے بیٹے شیح حسُّو مقرب خان نے اندمال جراحت میںکمال فن کا ثبوت دیا۔ (نزہتہ الخواطر، ص322)
نظام الملک آصف جاہ میر قمرالدین خان کے دادا خواجہ عابد قلیج خان بیدر(دکن) کے صوبے دار (گورنر) تھے۔1687ء میں جب قلعہ گول کنڈہ کا محاصرہ کیا گیا تو قلیج خان اس میں پیش پیش تھے۔ محاصرے کا آغاز تھا کہ قلعے پر سے زنبورک (چھوٹی توپ) کا ایک گولہ آکرقلیج خاں کے شانے پر لگا اورہاتھ الگ ہوگیا، قلیج خاں ایسی سخت چوٹ اورہاتھ کٹ جانے کے باوجودگھوڑے پر ہی بیٹھے رہے اوراس حالت میں فرودگاہ پرآئے، وزیراعظم (حجتہ الملک اسد خاں) کو خبرہوئی ۔آپ ان کی عیادت کو پہنچے، دیکھا کہ جراح ان کے کٹے ہوئے بازوسے ہڈی کی کرچیاں چن رہا ہے اور وہ اطمینان سے بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہے ہیں اوردوسرے ہاتھ سے قہوہ پی رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں جراح خوب ملا ہے۔ (مآثر الامراء، ص 107)