پاکستان کا شعبۂ بجلی گردشی قرضوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے
یہ دونوں مفروضے ملک کے معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے
''آپ ماضی کے لیے جواب دہ نہیں ہیں لیکن اگر آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو آپ اس ماضی کی وجہ سے وجود میں آنے والے حالات کے ذمہ داران میں ضرور شامل ہیں۔'' (جوناتھن آر۔ مِلر)
جب ہم بجلی کے شعبے میں مثبت تبدیلیوں کی بات کریں اور اس کی تائید میں وصولیوں اور نقصانات کے حوالے سے اعداد و شمار بھی پیش کریں اور انھیں ایک تاریخی کامیابی سے تعبیر بھی کریں اور جب ان دعوؤں کا اثبات لوڈشیڈنگ سے مبرا کارخانوں کے چلنے سے بھی ہوتا ہو جو سالہا سال سے بجلی کی قلت سے پیداواری صلاحیت کھو رہے تھے اور گھریلو صارفین کے لیے لوڈشیڈنگ میں 75 فیصد کمی، جو کہ 12 سے 15 گھنٹوں سے کم ہو کر 3 سے 4 گھنٹوں تک آ گئی ہے، بھی ہمارے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہو، ایسے میں گردشی قرضوں میں اضافے کی خبر فوری طور پر ان سوالات کو جنم دیتی ہے:۔ (1) اس شعبے میں ہماری کارکردگی واقعی تسلی بخش ہے؟ (2) کیا اب تک حاصل کی جانے والی کامیابیاں برقرار رہ سکیں گی۔
گردشی قرضہ کی اصطلاح کی تعریف سرکاری طور پر کابینہ کی کمیٹی برائے اقتصادی امور نے 2014ء میں ان الفاظ میں کی ہے: ''گردشی قرضہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے پاس زرنقد میں کمی کو کہتے ہیں جو یہ بجلی مہیا کرنیوالی کمپنیوں کو ادا نہیں کر سکتی۔ یہ کمی مندرجہ ذیل عوامل سے جنم لیتی ہے:۔ (الف) بجلی کی اصل پیداواری لاگت اور نیپرا کے تعین کردہ نرخوں میں فرق۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز نیپرا کے تعین کردہ لائن لاسز سے زیادہ اور وصولیاں، نیپرا کی تعین کردہ وصولیوں سے کم ہوتی ہیں۔ (ب) حکومت کی طرف سے سبسڈی کی عدم ادائیگی یا ادائیگی میں تاخیر۔ (ج) نرخوں کے تعین اور اجراء میں تاخیر۔
اس ضمن میں حکومت کی پالیسی یہ ہے کے گردشی قرضوں میں تخفیف کی جائے۔بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کو روکا جائے اور ان میں بتدریج کمی لائے جائے اور ان کی وجوہات کا سدباب کیا جائے۔(نیشنل پاور ٹیرف اور سبسڈی پالیسی کے رہنما اصول 2014ء)
آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ گردشی قرضوں کا تعلق بجلی کے شعبے میں زرنقد کی دستیابی سے ہے جس کا انحصار تقسیم کا رکمپنیوں کی کارکردگی (کہ ان کی وصولیوں اور لائن لاسز کی شرح کیا ہے) نیپرا کے نرخوں میں متعلقہ فیصلوں اور حکومت کی سبسڈی سے متعلق پالیسیوں پر ہے ۔
بجلی کی پیداوار کے لیے جو زر نقد درکار ہوتی ہے وہ صارفین سے وصول کی جاتی ہے لیکن صارفین سے نیپرا کے متعین کردہ نرخوں کے مطابق ہی وصولی کی جاسکتی ہے ۔ نیپرا گیارہ تقسیم کارکمپنیوں میں سے ہر ایک کے لیے اس کمپنی کی صورتحال کے مطابق ایک مختلف نرخ متعین کرتاہے ۔ حکومت ان مقرر کردہ نرخوں کو دوطریقوں سے تبدیل کرتی ہے ۔
اول یہ کہ تقسیم کارکمپنیوں کو پالیسی دی جاتی ہے کہ ان گیارہ نرخوں میں سب سے کم کایکساں طورپر پورے ملک میں اطلاق کیا جائے۔ مثال کے طورپر حکومتی ملکیت میں موجود تمام تقسیم کارکمپنیوں کے لیے متعین کردہ نرخوں کی اوسط 12 روپے فی یونٹ ہے اور کسی کمپنی کے لیے 10 روپے فی یونٹ مقرر کیے گئے ہیں ۔ جوکہ باقی تمام کمپنیوں سے کم ہیں حکومت 2 روپے فی یونٹ کوسبسڈی (TDS)کے طورپر ادا کرے گی ۔
دوم یہ کہ اپنے معاشرتی و معاشی اہداف کے حصول کے لیے وفاقی حکومت (اور زرعی صارفین کی صورت میں بعض صوبائی حکومتیں بھی) بعض صارفین کے لیے بجلی کے نرخ کو مزید کم کر دیتی ہے (جیسے زرعی، صنعتی، فاٹا، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے صارفین)
اس صورت میں وفاقی (یا صوبائی) حکومت مقررشدہ نرخوں سے فرق کی ادائیگی اپنے بجٹ سے تقسیم کار کمپنیوں کو کرتی ہے۔ لہٰذا نیپرا کا صحیح نرخ متعین کرنا، حکومت کا بجٹ میں سبسڈی مختص کرنا اور تقسیم کار کمپنیوں کا وصولیوں کی شرح میں اضافہ اور لائن لاسز میں کمی لانا یہ سب عوامل ہیں جوکہ زرنقد کی دستیابی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل شدہ رقم اس قدر ہونی چاہئے کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی لاگت پوری کی جا سکے۔
نیپرا حکومت کی ملکیتی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے نرخ (دیگر مفروضوں کے علاوہ) ان دو مفروضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
(1) سو فیصد وصولیاں
(2 اوسطاً 15.3 فیصد لائن لاسنز
یہ دونوں مفروضے ملک کے معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 2007ء سے 2014ء تک ملک بھر میں اوسطاً وصولیوں کی شرح 88.89 فیصد جب کہ لائن لاسز 19 فیصد کے لگ بھگ رہے۔
بلاشبہ پاکستان میں امن و امان اور معاشرتی و معاشی صورتحال کے پیش نظر سو فیصد وصولی کا حصول ناممکن ہے تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تقسیم کار کمپنیوں کو حتی الوسع وصولیوں اور لائن لاسز کے اہداف پورے کرنے کے لیے کارکردگی بہتر کرنے سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے۔
آیئے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں کس طرح صورتحال تبدیل ہوئی (یا یکساں رہی) جوکہ گردشی قرضوں میں حالیہ اضافے کا باعث بنی۔
2014ء میں نیپرا کی فرض کردہ اور اصل وصولیوں اور لائن لاسز میں 15 فیصد کا فرق تھا (نیپرا کی فرض کردہ 100 فیصد وصولی کے مقابلے میں 88.6 فیصد اور 5.3 فیصد لائن لاسز کے مقابلے میں 19.1 فیصد) ایک فیصد کی قیمت تقریباً 9 سے 10 ارب روپے بنتی ہے۔ 15 فیصد کے فرق سے گردشی قرضوں میں اضافے کا تخمینہ لگ بھگ 140 ارب روپے بنتا ہے۔ جس سے دسمبر 2014ء سے دسمبر 2016ء تک گردشی قرضے 298 ارب روپے سے بڑھ کر 572 ارب روپے پر پہنچ جاتے۔ لیکن درحقیقت 31 دسمبر 2016ء تک انھیں 393 ارب روپے تک روک کر رکھا گیا۔
ناکافی نرخوں کے باعث گردشی قرضے میں اضافہ ناگزیر تھا تاہم مندرجہ ذیل تین بڑے عوامل تھے جن کی مدد سے اضافے کی شرح میں واضح کمی لائی گئی۔
(الف) 2015-16ء میں حکومت کی ملکیتی تقسیم کار کمپنیوں کی بہتر کارکردگی، وصولیوں کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 93 فیصد رہی اور لائن لاسز تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 17.9 فیصد رہے اس سے نیپرا کا 2014ء میں فرض کردہ اور اصل لائن لاسز اور وصولیوں کا فرق 15 فیصد سے کم ہو کر 2016ء میں 9.2 فیصد رہ گیا اس کارکردگی کی وجہ سے محض دو سالوں میں بجلی کے شعبے میں دستیاب زرنقد میں 116 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس بہتر کارکردگی کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ (ب) تیل کی قیمتوں میں کمی، جس کا بڑا حصہ صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے تاہم اس کا کم و بیش 25 فیصد حصہ سبسڈی حاصل کرنے والے صارفین کے حوالے سے رکھ لیا جاتا ہے۔ (ج) وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کچھ بقایا جات کی ادائیگی۔
2013-14ء میں بجلی کے شعبے کے لیے مختلف شدہ رقم 430 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 1.7 فیصد تھی۔ 2014-15ء میں 221 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.7 فیصد جب کہ 2015-16ء میں یہی رقم 118 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.4 فیصد رہ گئی۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی رسد اور 2013ء سے لے کر اب تک 12-15 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے محض 3-4 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبسڈی کی مد میں بجٹ کے صحیح تعین کی بھی ضرورت ہو گی۔
مذکورہ بالا گفتگو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بجلی کے شعبے میں زرنقد کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے اس پر اثرانداز ہونے والے تینوں عوامل پر کام کرنا ہو گا اسی سے یہ شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تقسیم کارکمپنیوں کو نہ صرف اپنی گزشتہ دو سال کی کارکردگی کو برقرار رکھنا ہو گا بلکہ اس میں مزید استحکام لانا ہو گا۔ نیپرا کو نرخوں کا تعین مفروضوں کے بجائے زمینی حقائق کی بنا پر کرنا ہو گا اور سبسڈی کے لیے بجٹ میں اسی تناسب سے رقم مختص کرنی پڑے گی جتنا کہ تقسیم کارکمپنیاں حکومتی پالیسیوں کے تحت صارفین کو مہیا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو گردشی قرضہ کو ختم کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکے گی۔
جب ہم بجلی کے شعبے میں مثبت تبدیلیوں کی بات کریں اور اس کی تائید میں وصولیوں اور نقصانات کے حوالے سے اعداد و شمار بھی پیش کریں اور انھیں ایک تاریخی کامیابی سے تعبیر بھی کریں اور جب ان دعوؤں کا اثبات لوڈشیڈنگ سے مبرا کارخانوں کے چلنے سے بھی ہوتا ہو جو سالہا سال سے بجلی کی قلت سے پیداواری صلاحیت کھو رہے تھے اور گھریلو صارفین کے لیے لوڈشیڈنگ میں 75 فیصد کمی، جو کہ 12 سے 15 گھنٹوں سے کم ہو کر 3 سے 4 گھنٹوں تک آ گئی ہے، بھی ہمارے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہو، ایسے میں گردشی قرضوں میں اضافے کی خبر فوری طور پر ان سوالات کو جنم دیتی ہے:۔ (1) اس شعبے میں ہماری کارکردگی واقعی تسلی بخش ہے؟ (2) کیا اب تک حاصل کی جانے والی کامیابیاں برقرار رہ سکیں گی۔
گردشی قرضہ کی اصطلاح کی تعریف سرکاری طور پر کابینہ کی کمیٹی برائے اقتصادی امور نے 2014ء میں ان الفاظ میں کی ہے: ''گردشی قرضہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے پاس زرنقد میں کمی کو کہتے ہیں جو یہ بجلی مہیا کرنیوالی کمپنیوں کو ادا نہیں کر سکتی۔ یہ کمی مندرجہ ذیل عوامل سے جنم لیتی ہے:۔ (الف) بجلی کی اصل پیداواری لاگت اور نیپرا کے تعین کردہ نرخوں میں فرق۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز نیپرا کے تعین کردہ لائن لاسز سے زیادہ اور وصولیاں، نیپرا کی تعین کردہ وصولیوں سے کم ہوتی ہیں۔ (ب) حکومت کی طرف سے سبسڈی کی عدم ادائیگی یا ادائیگی میں تاخیر۔ (ج) نرخوں کے تعین اور اجراء میں تاخیر۔
اس ضمن میں حکومت کی پالیسی یہ ہے کے گردشی قرضوں میں تخفیف کی جائے۔بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کو روکا جائے اور ان میں بتدریج کمی لائے جائے اور ان کی وجوہات کا سدباب کیا جائے۔(نیشنل پاور ٹیرف اور سبسڈی پالیسی کے رہنما اصول 2014ء)
آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ گردشی قرضوں کا تعلق بجلی کے شعبے میں زرنقد کی دستیابی سے ہے جس کا انحصار تقسیم کا رکمپنیوں کی کارکردگی (کہ ان کی وصولیوں اور لائن لاسز کی شرح کیا ہے) نیپرا کے نرخوں میں متعلقہ فیصلوں اور حکومت کی سبسڈی سے متعلق پالیسیوں پر ہے ۔
بجلی کی پیداوار کے لیے جو زر نقد درکار ہوتی ہے وہ صارفین سے وصول کی جاتی ہے لیکن صارفین سے نیپرا کے متعین کردہ نرخوں کے مطابق ہی وصولی کی جاسکتی ہے ۔ نیپرا گیارہ تقسیم کارکمپنیوں میں سے ہر ایک کے لیے اس کمپنی کی صورتحال کے مطابق ایک مختلف نرخ متعین کرتاہے ۔ حکومت ان مقرر کردہ نرخوں کو دوطریقوں سے تبدیل کرتی ہے ۔
اول یہ کہ تقسیم کارکمپنیوں کو پالیسی دی جاتی ہے کہ ان گیارہ نرخوں میں سب سے کم کایکساں طورپر پورے ملک میں اطلاق کیا جائے۔ مثال کے طورپر حکومتی ملکیت میں موجود تمام تقسیم کارکمپنیوں کے لیے متعین کردہ نرخوں کی اوسط 12 روپے فی یونٹ ہے اور کسی کمپنی کے لیے 10 روپے فی یونٹ مقرر کیے گئے ہیں ۔ جوکہ باقی تمام کمپنیوں سے کم ہیں حکومت 2 روپے فی یونٹ کوسبسڈی (TDS)کے طورپر ادا کرے گی ۔
دوم یہ کہ اپنے معاشرتی و معاشی اہداف کے حصول کے لیے وفاقی حکومت (اور زرعی صارفین کی صورت میں بعض صوبائی حکومتیں بھی) بعض صارفین کے لیے بجلی کے نرخ کو مزید کم کر دیتی ہے (جیسے زرعی، صنعتی، فاٹا، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے صارفین)
اس صورت میں وفاقی (یا صوبائی) حکومت مقررشدہ نرخوں سے فرق کی ادائیگی اپنے بجٹ سے تقسیم کار کمپنیوں کو کرتی ہے۔ لہٰذا نیپرا کا صحیح نرخ متعین کرنا، حکومت کا بجٹ میں سبسڈی مختص کرنا اور تقسیم کار کمپنیوں کا وصولیوں کی شرح میں اضافہ اور لائن لاسز میں کمی لانا یہ سب عوامل ہیں جوکہ زرنقد کی دستیابی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل شدہ رقم اس قدر ہونی چاہئے کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی لاگت پوری کی جا سکے۔
نیپرا حکومت کی ملکیتی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے نرخ (دیگر مفروضوں کے علاوہ) ان دو مفروضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
(1) سو فیصد وصولیاں
(2 اوسطاً 15.3 فیصد لائن لاسنز
یہ دونوں مفروضے ملک کے معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 2007ء سے 2014ء تک ملک بھر میں اوسطاً وصولیوں کی شرح 88.89 فیصد جب کہ لائن لاسز 19 فیصد کے لگ بھگ رہے۔
بلاشبہ پاکستان میں امن و امان اور معاشرتی و معاشی صورتحال کے پیش نظر سو فیصد وصولی کا حصول ناممکن ہے تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تقسیم کار کمپنیوں کو حتی الوسع وصولیوں اور لائن لاسز کے اہداف پورے کرنے کے لیے کارکردگی بہتر کرنے سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے۔
آیئے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں کس طرح صورتحال تبدیل ہوئی (یا یکساں رہی) جوکہ گردشی قرضوں میں حالیہ اضافے کا باعث بنی۔
2014ء میں نیپرا کی فرض کردہ اور اصل وصولیوں اور لائن لاسز میں 15 فیصد کا فرق تھا (نیپرا کی فرض کردہ 100 فیصد وصولی کے مقابلے میں 88.6 فیصد اور 5.3 فیصد لائن لاسز کے مقابلے میں 19.1 فیصد) ایک فیصد کی قیمت تقریباً 9 سے 10 ارب روپے بنتی ہے۔ 15 فیصد کے فرق سے گردشی قرضوں میں اضافے کا تخمینہ لگ بھگ 140 ارب روپے بنتا ہے۔ جس سے دسمبر 2014ء سے دسمبر 2016ء تک گردشی قرضے 298 ارب روپے سے بڑھ کر 572 ارب روپے پر پہنچ جاتے۔ لیکن درحقیقت 31 دسمبر 2016ء تک انھیں 393 ارب روپے تک روک کر رکھا گیا۔
ناکافی نرخوں کے باعث گردشی قرضے میں اضافہ ناگزیر تھا تاہم مندرجہ ذیل تین بڑے عوامل تھے جن کی مدد سے اضافے کی شرح میں واضح کمی لائی گئی۔
(الف) 2015-16ء میں حکومت کی ملکیتی تقسیم کار کمپنیوں کی بہتر کارکردگی، وصولیوں کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 93 فیصد رہی اور لائن لاسز تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 17.9 فیصد رہے اس سے نیپرا کا 2014ء میں فرض کردہ اور اصل لائن لاسز اور وصولیوں کا فرق 15 فیصد سے کم ہو کر 2016ء میں 9.2 فیصد رہ گیا اس کارکردگی کی وجہ سے محض دو سالوں میں بجلی کے شعبے میں دستیاب زرنقد میں 116 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس بہتر کارکردگی کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ (ب) تیل کی قیمتوں میں کمی، جس کا بڑا حصہ صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے تاہم اس کا کم و بیش 25 فیصد حصہ سبسڈی حاصل کرنے والے صارفین کے حوالے سے رکھ لیا جاتا ہے۔ (ج) وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کچھ بقایا جات کی ادائیگی۔
2013-14ء میں بجلی کے شعبے کے لیے مختلف شدہ رقم 430 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 1.7 فیصد تھی۔ 2014-15ء میں 221 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.7 فیصد جب کہ 2015-16ء میں یہی رقم 118 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.4 فیصد رہ گئی۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی رسد اور 2013ء سے لے کر اب تک 12-15 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے محض 3-4 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبسڈی کی مد میں بجٹ کے صحیح تعین کی بھی ضرورت ہو گی۔
مذکورہ بالا گفتگو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بجلی کے شعبے میں زرنقد کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے اس پر اثرانداز ہونے والے تینوں عوامل پر کام کرنا ہو گا اسی سے یہ شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تقسیم کارکمپنیوں کو نہ صرف اپنی گزشتہ دو سال کی کارکردگی کو برقرار رکھنا ہو گا بلکہ اس میں مزید استحکام لانا ہو گا۔ نیپرا کو نرخوں کا تعین مفروضوں کے بجائے زمینی حقائق کی بنا پر کرنا ہو گا اور سبسڈی کے لیے بجٹ میں اسی تناسب سے رقم مختص کرنی پڑے گی جتنا کہ تقسیم کارکمپنیاں حکومتی پالیسیوں کے تحت صارفین کو مہیا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو گردشی قرضہ کو ختم کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکے گی۔