فاروق ستار کیخلاف مقدمہ پولیس عدالت کو اصل حقائق بتانے میں ناکام

پولیس نے حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے رپورٹ میں سیاسی رہنماؤں کو ضابطہ فوجداری ایکٹ 512 کے تحت مفرور قرار دیا


Staff Reporter March 22, 2017
تفتیشی افسر نے عدالت کو ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستارکے متحدہ قائد سے اظہار لاتعلقی کے بیان سے لاعلم رکھا۔ فوٹو : فائل

انویسٹی گیشن پولیس 22 اگست 2016 کو آرٹلری میدان تھانے میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار و دیگر کے خلاف درج مقدمات میں شفاف اور باریک بینی سے تحقیقات کرنے میں ناکام رہی۔

پریس کلب کے باہر گزشتہ سال 22 اگست کو بانی ایم کیو ایم نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب کیا تھا جس میں انھوں نے ملک کی سالمیت سے متعلق تقریر کی تھی جس پر آرٹلری میدان پولیس نے سہولت فراہم کرنے، بانی ایم کیو ایم کی تائید کرنے اور ملک سے غداری سے متعلق مقدمات درج کیے تھے جس میں پولیس نے ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عامر لیاقت، عامر خان، خالد مقبول، قمرمنصور اوراشرف نور سمیت سیکڑوں کارکنان کیخلاف سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے مقدمات درج کیے تھے جن کی تفتیش انسپکٹر حمید خان کے سپرد کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ بانی ایم کیو ایم کی متنازع تقریر کے بعد اسی روز رات کو ڈاکٹر فاروق ستار جب ایم کیو ایم لندن اور تقریر سے لاتعلقی کرنے کا اعلان کرنے کیلیے پریس کلب پہنچے تھے تو انھیں حراست میں لے لیا گیا تھا، اس حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وہ 22 اگست کی متنازع تقریرسے لاتعلقی کرنے گئے تھے مگر لاتعلقی کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا گیاتھا، فاروق ستار کے اس بیان پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یقین کیا اور انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا اور اگلے روز ہی ڈاکٹر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم کی تقریر اور تنظیم سے لاتعلقی کا اعلان کیا جبکہ ہزاروں کارکنان نے بھی ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اور ساتھ دینے کااعلان کیا۔

22 اگست کے واقعے کے بعد جب ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران جو بیان سامنے آیا اس بیان کی رپورٹ انویسٹی گیشن پولیس کے انسپکٹر حمید خان نے عدالت میں جمع نہیں کرائی اور نہ ہی تفتیشی افسر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پوچھنے کی زحمت گوارہ کی کہ انھوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کو حراست میں لے کر کیوں رہا کیا؟، انھوں نے ایسا کیا بیان دیا کہ ان کی چند گھنٹوں کے بعد ہی رہائی عمل میں آئی، تفتیشی افسر نے عدالت کو ڈاکٹر فاروق ستار کے بیان سے لاعلم رکھا۔

پولیس نے حقائق کو بالائے طاق رکھا اور اصل حقائق کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مذکورہ رہنماؤں کو ضابطہ فوجداری ایکٹ 512 کے تحت مفرور قرار دیدیا جس کے باعث ان رہنماؤں کو وارنٹ گرفتاری اور اشتہاری قرار دینے سے متعلق عدالتی کارروائی جاری ہے۔

اس سلسلے میں جب تفتیشی افسر انسپکٹر حمید خان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ میں نے اور میرے ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ زون فیض اﷲ کوریجو نے متعدد بار ڈاکٹر فاروق ستار و مقدمے میں دیگر نامزد افراد کو طلب کیا کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں تاکہ وہ بیانات عدالت میں جمع کرائے جا سکیں لیکن انھوں نے ایک بار بھی تھانے میں آکر اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا اور نہ ہی ان کے وکلا نے پولیس سے رابطہ کیا کہ ایم کیو ایم لندن کے بانی اور 22 اگست کی تقریر سے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم پاکستان کے کسی بھی رہنما کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے،اگر وہ پولیس کو اپنا بیان قلمبند کرا دیتے تو پولیس لازمی طور پر عدالت میں ان کا دفعہ 161 کے تحت لیا جانے والا بیان عدالت میں جمع کراتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں