’’پاکستانی دولت‘‘ کے سراغ لگانے کا معاہدہ

سوئس بینک اکاؤنٹس کو یہاں وہاں سے لوٹی گئی رقم ’’چھپانے‘‘ کے لیے سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے


Editorial March 22, 2017
۔ فوٹو؛ فائ

KARACHI: کیا ہی خوش آیند خبر ملی ہے کہ سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کی دولت کا سراغ لگانے کے لیے پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان دہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کا نظرثانی شدہ معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کے تحت پاکستانی ٹیکس اتھارٹیز سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی دولت کے بارے میں سوئس ٹیکس اتھارٹیز سے معلومات حاصل کرسکیں گی، تاہم معلومات کا تبادلہ اگلے سال یکم جولائی سے شروع ہوگا۔ ملک میں جاری کرپشن اور لوٹی گئی دولت کو بیرون ممالک چھپانے اور ہنڈی کے ذریعے باہر بھجوا کر ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس تناظر میں یہ خبر خوش کن ہے کہ شاید اب ملکی سرمایہ کا وہ حصہ جو سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس میں ''محفوظ'' ہے اس کی حقیقی پڑتال ہوسکے گی۔

سوئس بینک اکاؤنٹس کو یہاں وہاں سے لوٹی گئی رقم ''چھپانے'' کے لیے سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے، یعنی سوئس بینک کرپٹ افراد کی جنت قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اب تک کی غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی ''مسروقہ دولت'' کا یہ حجم 81کھرب یا 80 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ذرا سوچئے اگر یہ رقم پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اب تک حاصل کیے گئے ملکی قرضوں کی نہ صرف یکمشت ادائیگی ہوسکتی ہے بلکہ قرضوں کے حصول کے بعد عالمی اداروں کی ناروا شرائط اور بارِ احسان سے بھی نکلا جاسکتا ہے، نیز پھر بھی پاکستان کے پاس اس قدر رقم بچ جائے گی کہ تمام تر جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ملکی معیشت کو ایک نئی ڈگر پر ڈالا جاسکے گا۔

یہ کوئی سہانا خواب نہیں ایک حقیقت ہے، اور مذکورہ معاہدہ کو اس جانب پہلی پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ نظرثانی شدہ معاہدہ سے ٹیکس مقاصد کے لیے بینک معلومات تک رسائی ملے گی اور ایسی معلومات سے محض اس بنا پر انکار نہیںکیا جاسکے گا کہ یہ معلومات بینک یا کسی دوسرے مالیاتی ادارہ کی طرف سے روکی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سرمایہ کی اہمیت اس تناظر میں بھی بڑھ جاتی ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام کے لیے بیرونی قرضہ لینا لازم امر بن جاتا ہے لیکن اپنے ملک کے سرمایہ کی 'وطن واپسی' کے بعد پاکستان ان تمام جھنجھٹوں سے بھی آزاد ہوجائے گا جو ملکی ترقی میں مزاحم ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔