اقلیتوں کے مساوی حقوق

ہولی کی تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کے چرچے خوب ہوئے اور کئی حوالوں سے یہ قابل قدر اوراہمیت کا حامل بھی ہے


[email protected]

ہولی کی تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کے چرچے خوب ہوئے اور کئی حوالوں سے یہ قابل قدر اوراہمیت کا حامل بھی ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے مذہبی اختلاف کو پاکستان کی کمزوری بنانا چاہا۔ ہمارا کام لوگوں کی جنت و دوزخ کا فیصلہ کرنا نہیں ہے بلکہ سب کے لیے اس دنیاکو جنت بنانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ میرے اور میں آپ کا ہو گیا ہوں اورآج ہولی کی تقریب میں شرکت کر کے ہمارے رشتے اور مضبوط ہو گئے ہیں، ہولی رنگوں کا تہوار ہے۔ یہ رنگ محبت اورامن کا پیغام ہیں۔

انھوں نے اقلیتی برادری کے ترقیاتی کاموں کے لیے 50 کروڑ روپے دینے اورکراچی سمیت صوبے بھر میں ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔ جن خیالات کا اظہار انھوں نے کیا، بلاشبہ وہ اقلیتوں کے لیے ایک اسلامی ریاست میں مساوی حقوق کے آئینی تحفظ کی ضمانت ہے اور یہ ان اسلامی تعلیمات کی جانب واضح اشارہ ہے جو اسلام نے مسلم ریاست میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے رواداری کے سلسلے میں دی ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ بہتر تعلقات،ان کے مسائل کے حل کی کوششیں اوران کی خوشیوں میں شریک ہونا، وزیراعظم کی حیثیٰت سے ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہی قراردیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کردیا ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ اورانھیں مذہبی آزادی عین اسلام کے مطابق ہے۔اس صورت حال میں واضح ہوجانا چاہیے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں مذہبی تصادم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انھوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ پاکستان تو بنا ہی مذہبی تصادم روکنے کے لیے تھا۔اس سلسلے میں قائداعظم کے 11 اگست کے خطاب کا حوالہ بھی دیا۔ راقم الحروف کی رائے میں وزیراعظم نے اقلیتوں کی جس طرح داد رسی کی ہے اور ان کے دل جیتے ہیں اسی طرح بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو تحفظ اور عبادت کرنے کی آزادی دینی چاہیے۔ جان ومال کا تحفظ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ وطن عزیز میں بنیادی طور پر کہیں بھی کوئی مذہبی جھگڑا نہیں ہے۔اصل جھگڑا ان لوگوں سے ہے جو ملک میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔امن اورفسادکی قوتوں میں لڑائی ہے اور فساد پھیلانے والوں کو قوم پہلے ہی مستردکرچکی ہے۔ یقینا پاکستان کئی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہے۔

مقامی اورغیر ملکی دشمنوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کی ہے۔ دہشتگردی کی اس لہر میں ہزاروں شہری اور سیکیورٹی اہلکارجام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ جگہ جگہ بم دھماکے، خود کش حملے اورفائرنگ کے واقعات معمول بن گئے تھے۔ ملک کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا لیکن مقام شکر ہے کہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد دہشتگردوں اورفساد پھیلانے والے کے خلاف بھرپورکارروائی کی گئی اور یہ نکتہ مسلم لیگ (ن) کے منشورکا حصہ بھی تھا۔آپریشن ضرب عضب اورآپریشن رد الفساد اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

وزیر اعظم نے دوران خطاب کراچی آپریشن کا بھی تذکرہ کیا۔ قارئین! آپ کو یاد ہوگا کراچی کے شہری کس بری طرح دہشتگردی کا شکار ہوئے تھے روازنہ درجنوں افراد جاں بحق ہوجاتے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ایک خواب بن گیا تھا۔ جب بچے اور شوہرگھر سے جاتے تھے تو مائیں اوربیویاں ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دعائیں کرتی تھیں،لوگ خوفزدہ تھے۔گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے تھے۔ لاقانونیت عروج پر تھی۔کراچی پاکستان کے شہ رگ ہے۔ حکومت نے کراچی آپریشن شروع کرکے امن کا تحفہ دیا۔آج لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔خوف کی فضا ختم ہوئی ہے۔کاروباری سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی کراچی آرہے ہیں۔

اب ایک بار پھرکراچی کی راتیں جاگنے لگی ہیں۔ بلاشبہ یہ بڑی کامیابی ہے مگر کراچی میں مستقبل بنیادوں پر قیام امن کے لیے ابھی کئی سنگ میل عبورکرنے ہوں گے، لیکن وفاقی حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں ہے۔ اس موقعے پر اقلیتی رہنماؤں اور خاص طور پر راقم نے کئی مطالبات پیش کیے اوریہ بات نہایت خوشی ہے کہ وزیراعظم نے بعض مطالبات فوری تسلیم کرلیے جن میں مندروں کی مرمت وتزئین وآرائش،اسپتال کی تعمیر اورخاص طور پرہیلتھ کارڈ کے مطالبات شامل ہیں۔اقلیتی برادری کو ترقیاتی کاموں کے لیے وزیراعظم نے فوری طور پر 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا جب کہ اس ضمن میں مزید پیکیج بھی دیے جائیں اور خوش آیند بات یہ ہے کہ خاکسار سمیت اقلیتی رہنماؤں کی مشاورت سے یہ فنڈز استعمال کیے جائیں گے جب کہ ضلع جامشورو میں ہیلتھ کارڈ اسکیم شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعظم نے سندھ بھر میں ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کرکے سندھ کے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ بھر میں کرائے جانے والے ترقیاتی کاموں کا بھی ذکرکیا۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی، حیدرآباد موٹر وے رواں برس مکمل ہوجائے گی اورکراچی سے لاہور تک موٹر وے کی تکمیل کے بعد لوگ ہوائی جہازکی بجائے اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کرچندگھنٹوں میں لاہور پہنچ جائیں گے۔ موٹر وے کی تعمیر سے فاصلے کم ہوں گے اورلوگوں کے دل جڑیں گے، جب کہ لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہوگی۔ اس طرح وفاقی حکومت کراچی میں گرین بس پروجیکٹ بنارہی ہے، جس سے لوگوں کو سفرکی سہولتیں میسر آجائیں گی۔ کراچی کے عوام کے لیے پینے کا صاف پانی بھی اہم مسئلہ ہے۔ ایک قابل ذکر آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم رہتی ہے اور عموماً شہری اس سلسلے میں احتجاج بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کے فور منصوبے پر کام جاری ہے جس سے کافی حد تک کراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔ وفاقی حکومت اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 50 فیصد گرانٹ دے رہی ہے۔

ان حقائق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے سندھ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ جس طرح پنجاب میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں، اسی طرح سندھ میں بھی وفاقی حکومت کے زیرانتظام متعدد منصوبوں پرکام جاری ہے۔ حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ سندھ میں وفاقی حکومت اب تک اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتی رہی ہے اوریہ ترقیاتی منصوبے آج شروع نہیں ہوئے ہیں بلکہ کئی برس سے جاری ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کیا کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کو کھنڈربنادیا ہے۔

ایک عام سندھی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے۔ علاج ومعالجہ خواب بن گیا ہے اورصوبے کے حوالے سے بدترین کرپشن کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم اس سے قبل مسلم لیگ (ن) اقلیتی ونگ سندھ اور ڈاکٹر درشن لال، ڈاکٹر شام سندر اور راقم الحروف کی دعوت پر پہلے بھی کراچی آئے تھے اور اس تقریب میں انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہولی میں بھی اقلیتی برادری کی خوشیوں میں شریک ہوں گے۔ اس طرح وزیر اعظم نوازشریف نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور 14 مارچ کو مقامی ہوٹل میں ہولی کی تقریب میں شرکت کرکے اقلیتی برادری کے دل جیت لیے ہیں۔

ایک اور بہترین اقدام جو حکومت نے اٹھایا ہے وہ ہے ہندومیرج بل۔ وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرپاکستان ممنون حسین نے اس پر دستخط کردیے ہیں۔اب ہندوکمیٹی کی شادیاں باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں گی جب کہ اس قانون سے زبردستی تبدیلی مذہب کا تدارک ہوگا۔ نئے قانون کے تحت خواتین کو شوہر کی وفات کی صورت میں چھ ماہ بعد دوسری شادی کرنے کا حق حاصل ہو گا اور شادی کے لیے کم از کم عمر اٹھارہ سال مقررکی گئی ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں اس قانون میں ہندو برادری کی رسم وروایات کو تحفظ دیا گیا ہے جوکہ خوش آیندامر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں