بُک شیلف

’’رات کی رانی‘‘ لاہور سے تعلق رکھنے والی نوجوان افسانہ نگار، رابعہ الربا کا پہلا مجموعہ ہے۔

فوٹو: فائل

روشنائی (ادبی جریدہ)

ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی

مدیر: احمد زین الدین

صفحات:240

قیمت:125

نفسانفسی کے اِس دور میں، جب ادب گھاٹے کا سودا تصور کیا جانے لگا ہے، کسی ادبی جریدے کے 51 ویں شمارے کی اشاعت ایک قابل تحسین امر ہے۔ اور اِس کا کریڈٹ پرچے کے مدیر، احمد زین الدین کو جاتا ہے، جو مشکلات کے باوجود اِس سلسلے جو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اپنے اداریے میں مدیر نے پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ اور ایک بینک کے اشتراک سے شروع ہونے والے ادبی ایوارڈز کے سلسلے کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے، جہاں انعام یافتگان کو مبارک باد پیش کی ہے، وہیں اِس ضمن میں چند خدشات کا بھی ذکر کیا ہے، جو اِس احسن اقدام کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔

ادیبوں اور شاعروں کے گوشے ''روشنائی'' کی انفرادیت ہیں۔ اِس بار معروف شاعر، نقاد اور دانش وَر، پروفیسر آل احمد سرور کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرتے ہوئے اُنھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ''گوشہ نما'' میں غزل کے معروف شاعر، سہیل غازی پوری کے فن و خدمات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

سلسلہ ''کتھا کہانی'' چھے افسانوں پر مشتمل ہے۔ نظموں اور غزلوں پر مشتمل سلسلے شعری ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے خاصا مواد مہیا کرتے ہیں۔ ایک حصہ کتابوں پر تبصروں کے لیے مخصوص ہے۔ ''باب ادب'' میں بنگلادیش کا ادبی گوشہ اِس رسالے کا وقیع ترین حصہ ہے۔ ''زندہ تحریریں'' میں اس بار سجاد ظہیر کے افسانے ''دلاری'' کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ''بیادرفتگان'' مرحوم پروفیسر وہاب اشرفی کے فن و شخصیت سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر زیرتبصرہ شمارے میں قارئین ادب کے لیے خاصا مواد ہے۔

اجرا (ادبی جریدہ)

مدیر: احسن سلیم

قیمت: 400 ،صفحات:576

ملنے کا پتا: 1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی

''کیا وجہ ہے کہ ہماری اقدار مغرب نے اختیار کر لی ہیں، اور جو اُن کے اصل وارث ہیں، وہ اُن سے مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں؟'' اجرا کے سرپرست اعلیٰ، شاہین نیازی نے ''گفتگو'' کے زیرعنوان اپنے مضمون میں یہی سوال اٹھایا ہے، اور تقاضا کیا ہے کہ ادیب آگے آئیں، اور اسلامی تہذیب کی عظمت دنیا کے سامنے پیش کریں۔

اپنے اداریے میں پرچے کے مدیر، احسن سلیم نے تین نئے ادبی جراید مہرنامہ، کوئٹہ، کولاژ، کراچی اور تناظر، گجرات کی آمد کو قارئین ادب کے لیے فرحت بخش خبر قرار دیا ہے۔ ادبی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے چند اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ساتھ ہی اقلیم ادب کے تمام باسیوں میں بلاتفریق، وسیع تر ہم آہنگی پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پرچے پر نظر ڈالی جائے، تو سلسلے ''نشاط باریانی'' میں شامل حمد اور نعتوں کی تعداد آٹھ ہے۔ ''فلک آثار'' تیس نظموں پر مشتمل ہے۔ ''سخن سخن'' میں شامل غزلوں کی تعداد بھی تیس ہی ہے۔ سلسلہ ''داستان سرا'' بارہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ بین الاقوامی اور علاقائی ادب کے تراجم پر مشتمل سلسلے ''مشرق و مغرب'' کا آغاز شام سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، علی احمد سید السبر کے فن اور خدمات کا احاطہ کرتے مضمون سے ہوتا ہے، جو اقتدار جاوید کے قلم سے نکلا ہے۔ اُن کے منتخب کلام کا ترجمہ اس حصے میں شامل ہے۔ انجم جاوید نے پشتو لوک گیتوں کی قدیم اور مقبول ترین صنف، ٹپوں کا ترجمہ کیا ہے۔ پری یمود کی طویل کہانی کو خان احمد فاروق نے، اور سمرسیٹ ماہم کی تخلیق کو نجیب عمر نے ''بارش'' کے زیر اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔


سلسلے ''نافۂ نایاب'' میں پرتو روہیلہ، ناصر عباس نیر اور دانیال طریر نے غالب کے فن کو موضوع بنایا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی، مہدی حسن اور ہاجرہ مسرور کے تعلق سے بھی مضامین شامل ہیں۔ سلسلہ ''خرد افروزیاں'' تنقید، تحقیق اور مطالعاتی تجزیوں پر مشتمل ہے۔

یوں تو اجرا کے اِس گیارہویں شمارے میں پڑھنے لائق خاصا مواد ہے، مگر ''موضوع سخن'' میں شامل مضمون ''شہاب نامہ کی حقیقت'' خصوصی توجہ کا حامل ہے، جو ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے قلم سے نکلا ہے۔ قدرت اﷲ شہاب کی بابت لکھے جانے والے اِس تنقیدی مضمون نے نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ایسی بحث، جو تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

''اجرا''، ''ادب برائے تبدیلی'' کے نعرے کے ساتھ میدان میں آیا تھا۔ گذشتہ تین برس میں اِس پرچے نے پاک و ہند کے ادبی حلقوں میں شناخت بنالی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اب اِس تحریک کے منشور کو منصۂ شہود پر لایا جائے، اور عملی اقدامات کی جانب قدم بڑھایا جائے۔

رات کی رانی (افسانے، کہانیاں)

ناشر: فکشن ہائوس، لاہور

افسانہ نگار: رابعہ الربا

صفحات:192،قیمت:250

''رات کی رانی'' لاہور سے تعلق رکھنے والی نوجوان افسانہ نگار، رابعہ الربا کا پہلا مجموعہ ہے۔ اُن کی تخلیقات گذشتہ چند برس میں مختلف اخبارات و رسائل میں تواتر سے چھپتی رہی ہیں۔ شاعری بھی کرتی ہیں۔

زیرتبصرہ مجموعہ 25 افسانہ پر مشتمل ہے۔ رابعہ کے زیرتکمیل ناول ''آئینۂ حیات'' کا ایک حصہ ''وہ'' کے عنوان سے مجموعے میں شامل ہے۔ رابعہ الربا کے افسانوں میں نیاپن ہے، تازگی ہے۔ اُن کا قلم فرسودہ روایات پر سنگ باری کرتا ہے، جمود پرستی کی مخالفت کرتا ہے۔ اجالے کا حامی ہے۔ تیکنیک کی بات ہو، تو کہیں مربوط بیانیے میں اظہار کیا گیا ہے، کہیں مکالمے کو وسیلہ بنا گیا ہے، تجریدی اور علامتی رنگ بھی نظر آتا ہے۔ افسانے ''نظریۂ ضرورت''، ''گرہیں''، ''چپ کا پہاڑ'' اور ''راج مہر'' قارئین کے لیے دل چسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ اُن کی تخلیقات کا تجزیہ قارئین و ناقدین کا کام ہے، مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن قلم اچھا ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مجموعے میں رابعہ کے فن و شخصیت سے متعلق کوئی باقاعدہ مضمون تو موجود نہیں، البتہ آخری صفحات میں مختلف ادیبوں کی جانب سے اِس تعلق سے دی جانے والی آرا درج ہیں، جو اِس کمی کو کچھ حد تک پورا کر دیتی ہیں۔ سرورق مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ چھپائی اور کاغذ کے معیار میں بہتری کا امکان تھا۔

برزخ

مصنف: محمد بیگ بیگل

ناشر: بلوچی اکیڈمی، کوئٹہ

صفحات: 752،قیمت: 480 روپے

محمد بیگ بیگل بلوچی زبان کے بلند پایہ ادیب، شاعر، مترجم اور نام ور طنز نگار ہیں۔ انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ حسن کارکردگی بھی ملا ہے۔ پی ٹی وی کے علاقائی چینلز اور کوئٹہ ٹی وی پر ان کے متعدد ڈرامے اور سیریل آن ایئر جاچکے ہیں ۔ وہ بلوچی کے علاوہ اردو، فارسی اور انگریزی پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اور بلوچی زبان میں طنز و مزاح کے ایک نئے اسلوب کے بانی شمار کیے جاتے ہیں۔ زیرِنظر کتاب ''برزخ'' ان کے لکھے ہوئے فکاہیہ کالموں، مضامین اور انشائیوں کا کثیر جہتی گلدستہ اور ان کے دل چسپ، شگفتہ، سحرانگیز طرز نگارش کا مرقع ہے۔ ان مضامین اور کالموں میں وہ اپنے قریب ترین دوسروں، دانشوروں اور ہم عصر ادیبوں، سیاسی و سماجی کارکنوں، اہل صحافت و ادب سے وابستہ مختلف الخیال نقادوں، شاعروں اور اسکالروں کے حوالے سے مزاح کے نت نئے پہلو نکالتے ہیں، جب کہ پہلو بہ پہلو انتہائی سلیس بلوچی زبان میں زندگی کے تضادات، تجربات اور حوادث کے سیل رواں میں ایسی گہری باتیں کہہ جاتے ہیں جو مصنف کی ژرف نگاہی اور زندگی کے گہرے سماجی، سیاسی، تاریخی اور علمی شعور کا پتا دیتی ہیں۔ ان کی حس مزاح اور طنز کی تخلیقی اور فکری سطح قاری کے لیے تکلیف دہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ انسانی تضادات میں بھی پیار بھرا پیغام دینے میں کام یاب نظر آتے ہیں۔

ان کی تحریر کی بنیاد انسان دوستی ہے۔ کتاب کے ابتدائیہ میں انھوں نے خود کو چراغ سحری کہا ہے۔ چناںچہ جانے سے قبل برزخ کے تھیم پر مضامین میں اپنے رفقائے حیات کی زبانی کمال کا ظریفانہ ادب تخلیق کرلیا ہے۔ پروفیسر صبا دشتیاری کی باطنیت اور بلوچی ادب سے وابستگی اور عطا شاد و علامہ اقبال کے حوالے سے ان کی تحریریں سنجیدہ اور وقیع مقالے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یوں ان کے مضامین بقول میرانیس،''لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار'' کی یاد دلاتے ہیں۔ محمد بیگ بیگل کا حس مزاح اور ذوق ظرافت کا خمیر ان کے وسیع مطالعہ سے عبارت ہے۔ ''برزخ'' بلوچی مزاحیہ، فکاہیہ اور ظریفانہ ادب کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ بیگل زندگی سے مایوس نہیں ہوتے، یہ بات وہ اپنی اس کتاب میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب کو بیگل کی زندگی کا ماحصل سمجھنا غلط نہیں ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، ''کسی کا باطن روشن ہو تبھی وہ دوسرے کے باطن کا صحیح مشاہدہ کرسکتا ہے۔ بیگ صاحب کا اسلوب مزاح و طنز کی بے ساختگی، چشم کشائی اور خود شعوری کے تکون سے جُڑا ہوا ہوا ہے۔ وہ بین السطور میں جو پیغام دیتے ہیں وہ دل نشیں ہوتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی تعاون کیا ہے۔ بلوچی زبان سے شغف رکھنے والے اس کتاب کو بہترین دوست پائیں گے۔
Load Next Story