ٹی بی۔۔۔۔۔ ایک مہلک مرض 70000 پاکستانی ہر سال جان سے چلے جاتے ہیں

بروقت تشخیص اور مکمل علاج سے بچاؤ ممکن ہے

بروقت تشخیص اور مکمل علاج سے بچاؤ ممکن ہے: فوٹو : فائل

تپ دق یا سل عرف عام میں جسے ٹی بی (Tuberculosis) کہا جاتا ہے، کا شمار دس مہلک ترین امراض میں ہوتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں، دنیا بھر میں ایک کروڑ چار لاکھ افراد کو یہ مرض لاحق ہوا۔ ان میں سے اٹھارہ لاکھ جان کی بازی ہار گئے۔

ٹی بی کے متأثرین اور اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اس مرض کے تمام کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔ ٹی بی کا سب سے زیادہ پھیلاؤ تیسری دنیا ہی میں ہے۔ ٹی بی کے باعث ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں سے نوّے فی صد سے زائد ترقی پذیر دنیا کے پس ماندہ ممالک میں ہوتی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس مرض سے شدید متأثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ بھارت، انڈونیشیا، چین اور نائجیریا کے بعد ٹی بی کے سب سے زیادہ مریض پاکستان میں ہیں۔ ہر سال اوسطاً پانچ لاکھ شہری ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ستّر ہزار خون تھوکتے تھوکتے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں۔

یہ موذی مرض بچوں کی اموات کا بھی ایک اہم سبب ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سے پیوستہ برس دنیا بھر میں دس لاکھ بچے ٹی بی کا شکار ہوئے۔ ان میں سے پونے دو لاکھ والدین کو روتا چھوڑ گئے۔ پاکستان میں سالانہ پندرہ ہزار بچوں کو ٹی بی ہوجاتی ہے اور ان میں سے کم از کم پچیس فی صد موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر ٹی بی پر کنٹرول کے لیے کئی منصوبے جاری ہیں، جن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ٹی بی کے پھیلاؤکی شرح اور اس مرض کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بہت بلند ہے۔

ٹی بی کیا ہے اور کیسے پھیلتی ہے؟
تپ دق ایک متعدی مرض ہے جوMycobacterium tuberculosis نامی بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر پھیپھڑوں کو متأثر کرتا ہے، مگر دیگر اعضا بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ٹی بی کا جرثومہ ہوا میں شامل ہوکر ایک سے دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص جب کھانستا، چھینکتا یا تھوکتا ہے تو اس کے پھیپھڑوں اور لعاب میں موجود جراثیم ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں، اور یہاں سے سانس کے ذریعے دوسرے افراد کے جسم میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ ایک صحت مند شخص کو ٹی بی میں مبتلا کرنے کے لیے چند ہی جراثیم کافی ہوتے ہیں۔

ٹی بی کی ایک صورت ' خاموش یا مخفی ٹی بی ' ( latent TB) ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی اس سے متأثر ہے۔ اسے مخفی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ٹی بی کے جراثیم جسم کے اندر موجود تو ہوتے ہیں مگر غیرفعال ہوتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ جراثیم جسم میں ہونے کے باوجود ایک شخص نہ تو ٹی بی کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس مرض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔


علامات اور تشخیص
بلغمی کھانسی جس میں مرض کی شدت بڑھ جانے پر بعض اوقات خون بھی آتا ہے، سینے میں تکلیف، جسمانی کمزوری، وزن میں مسلسل کمی، بخار، اور حالت نیند میں پسینے کا آنا ٹی بی کی عام علامات ہیں۔

ٹی بی کی تشخیص کے لیے لعاب کی جانچ کا طریقہ سب سے عام ہے۔ اس ٹیسٹ کے دوران خردبین کے ذریعے لعاب میں ٹی بی کے جراثیم کا کھوج لگایا جاتا ہے۔ ان کی موجودگی ٹی بی کی علامت ہوتی ہے۔2010ء میں عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کے لیے Xpert MTB/RIF نامی ٹیسٹ کی سفارش کی تھی۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے ٹی بی کے جراثیم کا پتا چلانے کے ساتھ ساتھ ان میں rifampicin کے خلاف مزاحمت کی بھی جانچ کی جاسکتی ہے جو ٹی بی کے علاج کی سب سے اہم دوا ہے۔ بالغان کی نسبت بچوں میں ٹی بی کی تشخیص ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ بہرحال اس کے لیے بھی عالمی ادارہ صحت کا سفارش کردہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

علاج
ٹی بی قابل علاج مرض ہے۔ اگر بروقت علاج شروع کردیا جائے تو اس موذی مرض سے شفایابی ممکن ہے۔ ٹی بی کے معیاری کورس کا دورانیہ چھے ماہ ہوتا ہے۔ اس دوران اینٹی مائکروبیل ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں۔

احتیاط
اگر کھانسی دو تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہے تو مزید تاخیر کیے بغیر ڈاکٹر سے رجوع کریں کیوں کہ یہ ٹی بی کی علامت ہوسکتی ہے۔ مریض کی تیمارداری یا عیادت کے دوران چہرے پر حفاظتی ماسک لگا کر رکھیں۔ بچوں کو ان سے دور رکھیں۔

خود ٹی بی کے مریض بھی بچوں کو گود میں اٹھانے سے گریز کریں۔ ہمہ وقت چہرے پر ماسک لگا کر رکھیں اور کسی کی موجودگی میں کھانسنے سے گریز کی کوشش کریں۔ مریض کے اہل خانہ کو چاہیے کہ مرض کے آغاز پر مریض کے زیادہ قریب نہ بیٹھیں۔ البتہ علاج کے آغاز کو دو ہفتے گزر جائیں تو پھر قریب بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔

کورس مکمل ہونے تک دواؤں کا استعمال ہرگز ترک نہ کریں۔ علاج شروع ہونے کے کم از کم ابتدائی دو ہفتوں تک مریض کو روشن اور ہوادار کمرے میں رکھا جانا چاہیے۔
Load Next Story