لچک دار سینسر کی تخلیق
تہ کرکے جیب میں رکھے جانے والے اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ حقیقت بننے کے قریب
ٹچ اسکرین موبائل فون اور ٹیبلٹ کمپیوٹر کئی برسوں سے زیراستعمال ہیں۔ ان مفید آلات سے جُڑی ایک خامی ان کی نسبتاً بڑی جسامت ہے جس کے باعث انھیں ساتھ رکھنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ جھنجلا بھی جاتے ہوں گے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ٹیبلٹ آپ کی مختصر سی جیب میں سمانے کے قابل ہوجائے تو کتنی آسانی ہوجائے گی۔ جب ضرورت پڑی باہر نکالا اور استعمال کرنے کے بعد تہ کرکے واپس جیب میں ڈال لیا۔ تہ ہوجانے والے اسمارٹ فون اور ٹیلبٹ کو ہمہ وقت ساتھ رکھنا کتنا آسان ہوجائے گا۔
تہ ہوجانے والے برقیاتی آلات کا تصور چند برس قبل پیش کیا گیا تھا جوحقیقت بننے کے مزید قریب آگیا ہے۔ ایسا سینسر تخلیق کرلیا گیا ہے جو کاغذ کی طرح تہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کارنامہ برٹش کولمبیا یونی ورسٹی کے ماہرین نے انجام دیا ہے۔ یہ سینسر سلیکیون کی دو باریک پرتوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک جیلی نما مادّہ بھرا گیا ہے۔ یہ مادّہ برقی رَو کا بہت اچھا موصل ہے۔ یعنی اس میں سے بجلی بہ آسانی گزر سکتی ہے۔ سینسر انگلیوں کی پوروں کے دباؤ میں کمی بیشی کو محسوس کرسکتا ہے۔ یعنی چُھونے اور انگلی کے گھسیٹے جانے میں فرق کرسکتا ہے، چاہے اسے تہ کیا گیا ہو، موڑا گیا ہو یا عام حالت میں ہو۔ ہر تین صورتوں میں اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس سینسر کی مدد سے بنے ہوئے اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور اسی نوع کے دوسرے آلات کو مذکورہ بالا حالتوں میں رکھتے ہوئے استعمال کیا جاسکے گا۔
دباؤ کو محسوس کرنے والے سینسرز مختلف آلات میں زیراستعمال ہیںجیسے آئی فون کا ' تھری ڈی ٹچ '۔ اسی طرح رگڑ یا گھسیٹے جانے کی حرکت کو محسوس کرلینے والے سینسر کا استعمال بھی کیا جارہا ہے، جیسے سام سنگ کا ' ایئرویو '۔ پھر اس سینسر میں خاص بات کیا ہے؟ اس بارے میں یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم اور تحقیقی ٹیم کے رکن مرزا ثاقب سرور کہتے ہیں کہ ہماری تخلیق کردہ ڈیوائس ( سینسر) میں یہ دونوں خوبیاں یکجا ہوگئی ہیں۔
مرزا ثاقب اور ان کے ساتھیوں کی تیارکردہ ڈیوائس پانچ سینٹی میٹر لمبی اور اتنی ہی چوڑی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سینسر کی تیاری میں کم قیمت میٹریل استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ میٹیریل کتنے ارزاں ہیں؟ اس بارے میں محقق نے ایک عالمی جریدے میں شائع شدہ تحقیق میں لکھا ہے،'' اگر اس سینسر سے ایک کمرہ بنا لیا جائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم چند ڈالر فی مربع میٹر سے زیادہ نہیں ہوگی۔'' یوں اس سینسرز سے بنے آلات کا دہرا فائدہ ہوگا۔ ایک تو انھیں تہ کرکے جیب میں رکھا جاسکے گا، دوسرے یہ موجودہ ڈیوائسز کی نسبت کم قیمت ہوں گے۔
تہ ہوجانے والے برقیاتی آلات کا تصور چند برس قبل پیش کیا گیا تھا جوحقیقت بننے کے مزید قریب آگیا ہے۔ ایسا سینسر تخلیق کرلیا گیا ہے جو کاغذ کی طرح تہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کارنامہ برٹش کولمبیا یونی ورسٹی کے ماہرین نے انجام دیا ہے۔ یہ سینسر سلیکیون کی دو باریک پرتوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک جیلی نما مادّہ بھرا گیا ہے۔ یہ مادّہ برقی رَو کا بہت اچھا موصل ہے۔ یعنی اس میں سے بجلی بہ آسانی گزر سکتی ہے۔ سینسر انگلیوں کی پوروں کے دباؤ میں کمی بیشی کو محسوس کرسکتا ہے۔ یعنی چُھونے اور انگلی کے گھسیٹے جانے میں فرق کرسکتا ہے، چاہے اسے تہ کیا گیا ہو، موڑا گیا ہو یا عام حالت میں ہو۔ ہر تین صورتوں میں اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس سینسر کی مدد سے بنے ہوئے اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور اسی نوع کے دوسرے آلات کو مذکورہ بالا حالتوں میں رکھتے ہوئے استعمال کیا جاسکے گا۔
دباؤ کو محسوس کرنے والے سینسرز مختلف آلات میں زیراستعمال ہیںجیسے آئی فون کا ' تھری ڈی ٹچ '۔ اسی طرح رگڑ یا گھسیٹے جانے کی حرکت کو محسوس کرلینے والے سینسر کا استعمال بھی کیا جارہا ہے، جیسے سام سنگ کا ' ایئرویو '۔ پھر اس سینسر میں خاص بات کیا ہے؟ اس بارے میں یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم اور تحقیقی ٹیم کے رکن مرزا ثاقب سرور کہتے ہیں کہ ہماری تخلیق کردہ ڈیوائس ( سینسر) میں یہ دونوں خوبیاں یکجا ہوگئی ہیں۔
مرزا ثاقب اور ان کے ساتھیوں کی تیارکردہ ڈیوائس پانچ سینٹی میٹر لمبی اور اتنی ہی چوڑی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سینسر کی تیاری میں کم قیمت میٹریل استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ میٹیریل کتنے ارزاں ہیں؟ اس بارے میں محقق نے ایک عالمی جریدے میں شائع شدہ تحقیق میں لکھا ہے،'' اگر اس سینسر سے ایک کمرہ بنا لیا جائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم چند ڈالر فی مربع میٹر سے زیادہ نہیں ہوگی۔'' یوں اس سینسرز سے بنے آلات کا دہرا فائدہ ہوگا۔ ایک تو انھیں تہ کرکے جیب میں رکھا جاسکے گا، دوسرے یہ موجودہ ڈیوائسز کی نسبت کم قیمت ہوں گے۔