دماغی چوٹ بڑی عمرمیں ڈیمنشیا کا خطرہ نہیں بڑھاتی

دماغی چوٹ کا لگنا بڑی عمر میں ڈیمنشیا (یادداشت کھونا، دماغی امراض) کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کو نہیں بڑھاتا.


Hassaan Khalid January 13, 2013
دماغی چوٹ کا لگنا بڑی عمر میں ڈیمنشیا (یادداشت کھونا، دماغی امراض) کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کو نہیں بڑھاتا. فوٹو: فائل

ایک نئی اسٹڈی سے پتا چلا ہے کہ عمر کے دوران کسی حصے میں کسی دماغی چوٹ کا لگنا بڑی عمر میں ڈیمنشیا (یادداشت کھونا، دماغی امراض) کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کو نہیں بڑھاتا، تاہم اس بات کا امکان رہتا ہے کہ زخم پھر سے تازہ ہو جائے۔

محقق ڈیمز کونر کا کہنا ہے ''ایسے لوگ جنہوں نے عمر کے کسی حصے میں کسی ایسی دماغی چوٹ کو سہا ہو، ان میں یہ خوف موجود رہتا ہے کہ بڑی عمر میں انہیں اس کے خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوتا لیکن زخم کے دوبارہ سے ظاہر ہونے کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔''

4000 بڑی عمر کے لوگوں کے اعداد و شمار پر مبنی 16 سالہ اسٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ زخم کے دوبارہ ظاہر ہونے کا خطرہ ان افراد میں زیادہ ہوتا ہے جنہیں 55 سال کی عمر کے بعد دماغی چوٹ لگی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زخم کے دوبارہ ظاہر ہونے میں عمر کے حوالے سے کچھ عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ ڈیمز کونر کہتی ہیں کہ دماغی چوٹ کے شکار افراد کے علاج معالجے میں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں مریضوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ بے احتیاطی یا کسی حادثے کی وجہ سے زخم دوبارہ ظاہر نہ ہو۔

دماغی چوٹ کا شکار لوگوں کی صحت پر بڑی عمر میں مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق کی گئی تحقیق میں 1994ء سے 2010ء تک ایسے مریضوں کے اعداد و شمار (ڈیٹا) کا مطالعہ کیا گیا جن کی اوسط عمر 75 سال تھی۔ اسٹڈی کے آغاز میں کوئی بھی مریض ڈیمنشیا میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔ سولہ سالہ مطالعہ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے لوگوں میں دوسرے دماغی امراض یا ڈیمنشیا کے خطرے کا اضافہ نہیں ہوا۔ تاہم اگر یہ دماغی چوٹ 25 سال کی عمر سے پہلے یا 55 سال کی عمر کے بعد پہنچی ہو تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ یہ زخم کچھ عرصے بعد دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں۔

ایک ماہر نیورو سرجن ڈاکٹر ڈینی لیانگ کا اس اسٹڈی سے متعلق کہنا ہے کہ یہ تحقیق چند محدود لوگوں کے گروپ پر استوار کی گئی ہے۔ اس لیے اس کا عام لوگوں پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اور آبادی اور عمر کے لوگوں کے اعداد و شمار اس سے مختلف ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں