اردو زبان میں اردو کی مخالفت
آرٹس کونسل آف پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو گزشتہ دس برسوں سے اردو کانفرنس کا باقاعدگی سے انعقاد کررہی ہے
MUMBAI:
آرٹس کونسل آف پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو گزشتہ دس برسوں سے اردو کانفرنس کا باقاعدگی سے انعقاد کررہی ہے اور نفاذ اردو کے لیے کوشاں ہے۔ کیونکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے علاوہ فاٹا سے ضلع چاغی، دالبندین تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ اس لیے اس کو ہم پاکستان کی زنجیر بھی قرار دے سکتے ہیں۔
1970ء کے انتخابات کے بعد ایک طویل سیاسی کشمکش کے خاتمے کی صورت میں نیشنل عوامی پارٹی نے کے پی کے (سابق فرنٹیئر) اور بلوچستان میں حکومت بنائی اور خصوصاً غوث بخش بزنجو جو بلوچستان کے گورنر تھے، بڑے غور و فکر کے بعد انھوں نے بلوچستان میں اردو زبان کی سرپرستی کی، بلوچستان یونیورسٹی میں خصوصیت کے ساتھ شعبہ اردو قائم کیا اور انھوں نے ایسا کیوں کیا یہ بات میرے سامنے کی ہے۔ جب میر غوث بخش بزنجو بی ایم کٹی کے ہمراہ والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین کے پاس تشریف لائے اور اس شعبے کی سرپرستی اور فروغ کے لیے ان کو عہدہ فراہم کیا۔
اردو زبان کی ترقی اور ترویج میں آج کل آرٹس کونسل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، یہاں ملک اور بیرون ملک کے دانشور، ادیب و شاعر جمع ہوتے ہیں اور ماضی اور عصر حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس بار بھی نئے سال کی آمد سے قبل یہ سیمینار اور پروگرام ہوئے اور انشاء اﷲ ہوتے رہیںگے، کیونکہ صدر آرٹس کونسل کو اردو زبان اور اردو ادب کا پورا ادراک ہے۔ مگر گزشتہ اتوار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی کتاب ''انویزیبل پیپل''(Invisible People) کی رونمائی کی گئی، جس پر سینیٹر حاصل بزنجو، صوبائی وزیر نثار کھوڑو، نثار میمن، مجاہد بریلوی، زاہدہ حنا اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ کتاب بمشکل 150 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 700 روپے کے لگ بھگ ہے، جو انگریزی زبان میں تحریر ہے۔
مجھے مقررین کی گفتگو کو زیر بحث نہیں لانا ہے، کیونکہ وہ تو آئے ہی تھے پذیرائی کی خاطر۔ لہٰذا گفتگو کا محور صاحب کتاب کے ارشادات جو انھوں نے اس بزم میں ادا کیے۔ صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ انھوں نے اردو میں اس لیے کتاب نہ لکھی کیونکہ اردو ان کی کمزور ہے، ورنہ تو گویا وہ ضرور لکھتے۔ مگر اردو پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے بنگالی کا ذکر کیا اور قائداعظمؒ محمد علی جناح کا نام لیے بغیر انھوں نے اس تقریر پر تبصرہ کیا جس میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی، جس پر ایک نوجوان نے احتجاج کیا تھا اس کا نام نہ لیا، اور مزید کہتے ہیں اردو علاقائی زبان پر تھوپی گئی ہے، گویا ایک سامراجی زبان کی طرح لوگوں پر نافذ کردی گئی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس کے متبادل کے طور پر بتائیں کہ کس مقامی زبان کو رائج کریں جو موجودہ پاکستان کے باسیوں کو قبول ہو۔ شاید چیئرمین یہ بھول گئے کہ اردو پہلے بھارت بدر کی کوشش ہوئی چونکہ پاکستان بننے کی جدوجہد میں اردو زبان کو نعرہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
لیکن اردو کوئی سامراجی زبان نہیں جو بندوق کی نوک پر نافذ کی گئی ہے، یہ عوام اور انقلابی گیتوں کی زبان ہے جیسا کہ تلنگانہ (حیدرآباد دکن میں) مخدوم محی الدین نے انقلاب کی آواز دی تھی۔ چند بول اس نظم کے:
یہ جنگ ہے جنگ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
اس دیس کے رہنے والوں کی
مزدوروں کی، دہقانوں کی
سندھ میں حیدر بخش جتوئی کو کوئی زبان کی پریشانی نہ تھی، انھوں نے ہاری حق دار کا نعرہ لگایا۔ زبان اور کلچر کی بات تو اس لیے کی جاتی ہے کہ لسانی تقسیم سے مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور فروعات کی جنگ میں عوام کو مصروف رکھا جاتا ہے، جیساکہ آج پاکستان میں عصبیت کی ہوا چل رہی ہے۔ جب کہ عجیب تضاد ان کی گفتگو میں تھا۔ اردو زبان کے کردار کو مقامی کلچر یا پاکستانی کلچر کے خلاف قرار دینا، تو بھائی کس نے روکا ہے مقامی کلچر کو۔
آپ آرٹس کونسل میں یہ فرماتے رہے کہ فیض یا جالب کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ بھائی فیض اور جالب اردو زبان کے شاعر تھے۔ اردو زبان میں گل خاں نصیر نے شاعری کی، عطا شاد نے کی اور بلوچی زبان میں بھی کی۔ اگر آپ کو اردو زبان سے اتنا ہی دور رکھنا تھا تو آپ اس ابلاغ میں بھی کوئی مقامی زبان استعمال کرتے تاکہ پاکستانی کلچر کا خواب جو آپ نے دیکھا تھا وہ پورا ہوجاتا۔ بعض سیاسی لیڈروں کو اس قسم کے دورے پڑتے ہیں کہ وہ اردو زبان میں گفتگو نہیں کرتے، مگر ابلاغ سے مجبور ہوکر پھر کرنے لگتے ہیں۔ اردو زبان کو زور دستوں کی زبان نہیں قرار دینا چاہیے۔
کئی برس تک بھارتی آر ایس ایس نے اردو دشمنی کی، مگر اب مجبور ہوکر بھارت میں سالانہ اردو اکیڈمی کو کروڑوں روپے کی امداد دی جا رہی ہے اور اب بھارت میں اردو کے شاعر و ادیب مفلوک الحال نہیں۔ بھارت کی فلم انڈسٹری بھارتی سرمائے کا 30 فیصد پیدا کرتی ہے جو اردو زبان کی فلمیں اور گانے کماکر ان کو دیتے ہیں، مگر قانون کو لگام دینے کے لیے اس کو ہندی فلم کا نام دیتے ہیں۔ اب تو جلد یا بدیر گلوبل کلچر وجود میں آنے کو ہے، ہر گاؤں گوٹھ کو عالم دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد مصنف فرماتے ہیں کہ ضیا الحق نے طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین کو اپنے احکامات کے ذریعے پابند کردیا۔ تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ تو سیاست میں کوئی نو وارد نہیں، سینیٹ میں 1992-93 سے کسی نہ کسی مقام پر یا حکومتی اداروں میں آپ کا وجود رہا۔ آپ کوآپریٹو سوسائٹی کے ایک بلند پایہ رکن رہے، حاکم تھے تو آپ نے عوام کے ساتھ کس درجہ رحم کیا۔ کتنے عرصے سے جمہوریت کی چرخی گھوم رہی ہے مگر طلبہ یونین کیونکر آزاد نہ ہوئیں؟ مزدور یونینوں کا کیا حال ہے؟ ہر چیز ٹھیکے پر، کلچر گزشتہ دس برسوں سے زوروں پر ہے۔ کراچی شہر صفائی ستھرائی سے محروم ہوگیا۔
آپ نے معراج محمد خان کو خراج تحسین پیش کیا۔ راقم نے بھی مارشل لا کے خلاف قربانی دی اور عوامی تحریکوں کی حمایت ہمیشہ کی مگر اس روز احتراماً کہ جلسہ گاہ پر برا اثر نہ پڑے خاموش رہا کہ اب آپ کراچی میں ایک مہمان کی طرح آتے ہیں اور آپ کو کم از کم غریبوں کی خستہ حالی پر رحم تو آتا ہے، جب کہ رفتہ رفتہ یہ رجحانات سیاست کی دہلیز سے رخصت ہورہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تو سیاست کی بساط ہی الٹ گئی اور اب تو عوامی تحریکوں کے بجائے زر کثیر کی دوڑ شروع ہے۔
آنے والے وقت کا کسی پارٹی کا نہ کوئی منشور ہے اور نہ کوئی پروگرام۔ عوام کو غیر ضروری مباحثوں میں الجھادیا گیا ہے۔ کم از کم آپ نے، (جو لوگ پرتکلف ایوانوں میں رہائش پذیر ہیں وہ غریبوں کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے،) آپ نے ان لوگوں کے نام لے کر ماضی کے کراچی میں قربانی دینے والوں کو یاد تو کیا۔ ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ رضا ربانی نے کیا وہ کافی ہاؤس یا ٹی ہاؤس کلچر کا، دراصل یہ کلچر کلاشنکوف کلچر کی آمد کی وجہ سے جاتا رہا۔ اس کا ایک اور پہلو جو براہ راست نہیں، وہ بالواسطہ پہلو ہے، طلبہ یونین کا خاتمہ خود مباحثوں کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے پیدا ہوا اور ملک میں گولی کی سیاست نے مباحثوں کو ختم کیا اور اب کافی ہاؤس انٹرنیٹ، فیس بک وغیرہ پر کسی اور شکل میں موجود ہیں۔
اس کلچر کو زندہ کرنے کے لیے مباحثوں، مذاکروں کا انعقاد ضروری ہوگیا ہے۔ گفتگو اور مباحثے کے اختتام پر مجھے صاحب کتاب سے یہ عرض کرنا ہے کہ فیض یا جالب یا مباحثہ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ایسے ذی ہوش اور با عمل افراد کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا کرنا ہوگا اور موجودہ ٹی وی کلچر کو باعمل سیاست کے ترقی پسندانہ رویہ کی افزائش اور ذات کے خول کو توڑ کر دوسروں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کی اجتماعی جدوجہد اور حق دار کو اس کا حق ملنا ضروری ہے، ورنہ فساد کی بنیاد اور اس کی پیداوار کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔ دنیا میں بدلتی تہذیب و ثقافت کے ساتھ سیاست کو بھی چلنا ہوگا، کسی زبان اور کلچر کو استحصال کا ذریعہ قرار دینا حقائق سے فرار کے مترادف ہے۔ اور آخر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات میں اردو زبان کا کوئی نکتہ نہ تھا، آج بھی بنگلہ دیش کے اردو زبان کے ادبا اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے بنگلا دیش سے آتے ہیں۔