پھر وہیں جہاں سے چلے تھے

بھارت کے چیف جسٹس نے ماورائے عدالت مصالحت کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے


کلدیپ نئیر March 24, 2017

ہم واپس وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو دوبارہ بنانے اور مقابلے میں وہاں رام مندر کی تعمیر کا دعویٰ کرنے والے دونوں فریقین کو اپنے فیصلے میں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس نصیحت کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ بھارت کے چیف جسٹس نے ماورائے عدالت مصالحت کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔

انھوں نے کہا فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت مصالحت کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ جذبات کا مسئلہ ہے اور وہ درمیان میں سے ہٹ کر اپنے ساتھی جج حضرات کو اس کے حل کے لیے پیش کر سکتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی 'جج حضرات' سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی متنازعہ مسئلے میں ملوث نہیں ہونگے۔ ایسی صورت میں بھلا وہ مصالحتی کردار کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟ یوگی ادتیاناتھ جو کہ کٹر ہندوؤں میں ایک بہت نمایاں مقام رکھتا ہے اور جسے اترپردیش کی قانون ساز پارٹی کا بھاری اکثریت سے رکن منتخب ہونے کے بعد صوبے کا وزیراعلیٰ بنانے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

اس یوگی کی کامیابی میں وزیراعظم نریندر مودی کا کتنا ہاتھ ہے اور کتنی کامیابی یوگی نے خود اپنے طور پر سمیٹی ہے لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ہندوتوا کی پالیسی پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس بھی اس کے پیچھے ہے۔ ماضی میں آر ایس ایس ہمیشہ ایسے حالات میں منظرعام سے دور رہا کرتی تھی لیکن اب وہ ہندو اکثریت کے حوالے سے اسقدر پراعتماد ہو گئی ہے کہ بآسانی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ عملی طور پر بی جے پی نے یوپی کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے ہیں اور اب یہ جماعت 2019ء میں ہونیوالے لوک سبھا کے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔ بی جے پی کے سربراہ موہن بھگوت نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ لوک سبھا کے آیندہ انتخابات کی بھرپور تیاری کریں۔حال ہی میں اسمبلی کے انتخابات میں آر ایس ایس کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیوں نے مقابلے کے لیے اتحاد کر لیا تھا لہٰذا اگر پھر ویسے ہی ہوا تو ان کی کامیابی مشکل ہو جائے گی۔

اس حوالے سے آر ایس ایس جانتی ہے کہ اگر بی جے پی یو پی میں 42 فیصد ووٹ حاصل کر سکتی ہے تو ان کے خلاف اتحاد کرنے والی پارٹیاں 55 فیصد ووٹ حاصل کر سکیں گی۔ اگر ان کو گیروے لباس والوں سے زیادہ خوف محسوس ہوا تو وہ اپنے اختلافات ختم کر کے اور زیادہ مضبوط اتحاد بنا لیں گی۔ جیسا کہ ممتاز قانون دان نانی پلکھی والا نے کہا کہ جب گھر کو آگ لگ جائے تو آپ یہ نہیں سوچتے کہ ڈرائنگ روم کو بچایا جائے یا ڈائننگ روم کو۔ آپ پورا گھر بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کا اشارہ جن سنگھ کی طرف سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے خطرے کی طرف تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنتا پارٹی جس میں کہ زیادہ تر لوگ جن سنگھ کے ہی شامل ہیں وہ 1977ء میں مرکز میں اقتدار میں آ گئی لیکن اس موقع پر جو متنازعہ نکتہ تھا وہ یہ تھا کہ آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم کر لیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔ بہرحال جن سنگھ کے عناصر جو اب حکمران جماعت میں شامل ہیں انھوں نے آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات قطع کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ایل کے ایڈوانی نے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایک الگ پارٹی کی بنیاد رکھ دی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی۔ پارٹی کے آزاد خیال عناصر نے جن میں اٹل بہاری واجپائی نمایاں ہیں، جنتا پارٹی چھوڑ دی۔

یہ ایک حساب سے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی میں کٹر' متعصب عناصر شامل نہیں تھے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سیکولر ازم نے ملک میں گہری جڑیں نہیں پکڑیں۔ حالانکہ سیکولر ازم کا نظریہ ملک کے آئین کے دیباچے میں شامل کیا گیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ فی زمانہ اس کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ ہندوتوا کا پرچار کرنے والے عناصر نے جیسے بتدریج پورے ملک میں غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ ہندوتوا کیرالہ میں بھی پھیل رہا ہے جہاں بی جے پی کو پہلی کامیابی ملی ہے۔اس نے درجن بھر سے زیادہ ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی جو کہ سیکولر نظریے کی حامی ہے اب ان ریاستوں میں اس کی حیثیت ختم ہو رہی ہے جہاں پر کہ پہلے اس کا اقتدار تھا۔ حتیٰ کہ علاقائی پارٹیاں بھی اپنی حیثیت کھو رہی ہیں جیسا کہ یو پی میں ہوا ہے ظاہر ہے کہ بی جے پی نے زیادہ تر لوگوں کے ذہن کو متاثر کر دیا ہے۔

راجیہ سبھا کے انتخابات میں کامیابی نے بی جے پی کی پوزیشن اور زیادہ مستحکم کر دی ہے۔ گجرات اور ہماچل پردیش کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے صاف پتہ چل جائے گا کہ لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہو گئی ہے یا نہیں۔ بہرحال مستقبل کا نقشہ ابھی پوری طرح واضح نہیں ہے۔ رام مندر کا مسئلہ مستقبل کی منظر کشی واضح کرے گا اور ملک میں تقسیم در تقسیم پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ یوگی ادتیاناتھ نے مودی کے ان الفاظ کا اعادہ کیا ہے ''سب کا ساتھ سب کا ویکاس'' یہ جملہ اجتماعیت کی نشاندہی کرتا ہے لیکن پارٹی کا بنیادی ایجنڈا راتوں رات نہیں بدل سکتا۔ ایودھیا میں رام مندر کا مسئلہ جلد یا بدیر کھڑا ہونے کو ہے۔ اگر ہر لحاظ سے طاقتور یوگی کو بی جے پی کی ہائی کمان نے فی الواقعی ریاست کا وزیراعلیٰ بنانے کی منظوری دیدی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی نیت ہندوتوا کی ترویج کے حوالے سے واضح ہے۔

جہاں تک بابری مسجد اور رام مندر کے تنازعے کا تعلق ہے تو اس میں عدالت کوئی واضح فیصلہ نہیں دے سکتی کیونکہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے ماورائے عدالت مصالحت کرانے کی پیش کش کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1986ء کے بعد سے کئی حکومتوں نے یہ مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی لیکن دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں چنانچہ ان حالات میں چیف جسٹس کی کوشش بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں تک چیف جسٹس کی پیش کش کا تعلق ہے بی جے پی کے علاوہ کسی اور سیاسی پارٹی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ایسے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی اس مسئلے کے حل کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ طویل عرصے سے پیدا ہونے والا یہ مسئلہ کسی فوری حل کا متقاضی ہے جس سے دونوں فریق مطمئن ہو سکیں لیکن مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں