سدا بہار معاشی نظام

دوسرا اصول سود کی ممانعت ہے جو معاشی ظلم واستحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے


[email protected]

اسلام جو معاشی نظام پیش کرتا ہے، وہ مختصراً مندرجہ ذیل اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان اصولوں کو ہم دو عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(الف)۔ پیداوار کے اصول، حلال وحرام کا فرق ہی دراصل اسلام کے معاشی نظام کا سنگ بنیاد ہے۔ اسلام معاشی ترقی اور پیداوار میں اضافے کی بھرپور حمایت کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی شرط بھی لگاتا ہے کہ آمدنی یا پیداوار جائز ذرایع سے حاصل کی جائے گی۔ اسلام ہر ایسے نفع، پیداوار اورآمدنی کو جو حرام ذرایع سے حاصل ہو اسے دوزخ کی آگ قرار دیتا ہے۔ معاشی زندگی کو حدود اللہ اوراخلاقی ضابطے کا پابند بناتا ہے۔

دوسرا اصول سود کی ممانعت ہے جو معاشی ظلم واستحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اسلام نے سود کو ہر شکل میں حرام قراردیا ہے۔ یہ خدا اور رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ تجارت باہمی رضامندی سے کسی جبر یا مجبوری کے بغیر ہونی چاہیے، تجارت کی وہ تمام شکلیں جن میں دوسرے فریق کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کچھ خاص شرائط کے ساتھ کی جائے ناجائز ہے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ تجارت دیانت کے ساتھ ہو۔ اس میں دھوکا، جھوٹ، وعدہ خلافی اورغلط بیانی نہ ہو اشیا جن کا استعمال حرام کی تعریف میں آتا ہے یعنی شراب، سود وغیرہ ان کی تجارت حرام ہے۔

چھٹا اصول یہ ہے کہ اِحتِکَار یعنی ضروریات زندگی کو روک کر رکھنا تاکہ ان کے دام چڑھ جائیں اور اس طرح منافعے میں اضافہ کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔ ایسا کرنے والے پر رسولؐ خدا نے لعنت بھیجی ہے۔

ساتواں اصول یہ ہے کہ تجارت کی وہ تمام شکلیں ممنوع ہیں، جس سے کسی دوسرے سے ناجائزفائدہ اٹھایا جا رہا ہو یا بغیر مناسب محنت کے دولت ہاتھ آرہی ہو۔ سٹہ، لاٹری اورجوئے کی تمام شکلیں ممنوع ہیں۔

آٹھواں اصول یہ ہے کہ تاجراعلیٰ اخلاقی کردارکا مالک ہو،اسلام کا سچا سفیر ہو، خوش اخلاق ہو، جذبہ خدمت خلق کو جذبہ عبادت سمجھتا ہو۔

مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں فرد اپنی پیداوار، دولت، نفع یا آمدنی میں جس قدراضافہ کرسکتا ہے، اسلام کی طرف سے اسے اجازت ہے۔اس طرح حاصل کی ہوئی دولت کو اسلام اللہ کا فضل اور نعمت قرار دیتا ہے۔

(ب)۔ صَرف کے اصول:حلال دولت، نفع،آمدنی یا پیداوار پر بھی اسلام فرد کے جملہ مالکانہ حقوق قرار نہیں دیتا بلکہ اللہ کی ایک مقدس امانت قراردیتا ہے۔ جس طرح دولت میں اضافہ حدود آشنا ہے اسی طرح دولت کا استعمال بھی حدود آشنا ہے۔ بخل اور اسراف دونوں پر پابندی ہے۔ دولت صرف تعمیری اور پیداواری مقاصد پر خرچ کی جائے گی۔اس کے علاوہ دولت خرچ کرنے کی اسلام میں مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔

پہلا اصول یہ ہے کہ انسان کے نفس کا اس پرحق ہے۔ اسلام آرام دہ اورخوشحال شخصی زندگی بسر کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن تَعَیُّشَانہ زندگی بسر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

دوسرا اُصول یہ ہے کہ فرد اپنی دولت سے زکوۃ کی شکل میں غربا اور مساکین کا حق نکالے۔ یہ ان پر احسان نہیں ادائیگی فرض ہے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی دولت اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کی جائے۔ جو لوگ معاشی بدحالی میں مبتلا ہوں، ان کو معاشی دوڑ میں شریک ہونے کے قابل بنانے کے لیے قرض حسنہ یعنی بلا میعاد اور بلاسود قرض دے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ، صدقات واجبہ اور قرض حسنہ کے علاوہ حکومت وقت نظم ونسق چلانے اورعوام کی فلاح وبہبودکے لیے جو لازمی ٹیکسی عائدکرے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے جو مزید ٹیکس لگائے اس کو بخوشی ادا کرے۔ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اسلامی ریاست کی بقا اور سالمیت کے لیے صدیقؓ اکبرکی طرح دولت خرچ کرے۔

پانچواں اصول یہ ہے کہ دولت ورثا میں ایک مناسب ترتیب کے ساتھ منصفانہ طورپر تقسیم کردی جائے ، مختصراً یہ ہیں اسلام کے معاشی نظام میں پیداواردولت اورصرف دولت کے اصول۔

اسلام کے مقابلے میں اکثر دو انسانی نظام میدان عمل میں رہے ہیں، ایک سرمایہ داری دوسری اشتراکیت۔ دونوں خدا کی ہدایت و رہنمائی کی صلاحیت، حکمت، علمیت، بصیرت اور قدرت کے معاشی میدان میں منکر ہیں۔ اسلام کا معاشی نظام، سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے اپنے مقصد، اپنے مزاج اور اپنے اصولوں کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے۔ یہ جڑ سے لے کر شاخوں، پھلوں، پھولوں، پتیوں اور رنگ وبو میں دونوں سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ اسلام وہ اذان حق ہے جو 610ء (عیسوی) سے پہلے تاریخ انسانی کے کسی دور میں سنائی نہیں دیتی۔ جس کے لیے یہ الزام لگایا جاسکے کہ اسلام نے فلاں دور تاریخ کی آواز کو دہرایا ہے۔ سرمایہ داری اوراشتراکیت 18 ویں صدی کے آخر اور 19 ویں صدی کی ابتدا کی انسانی ذہن کی پیداوار ہیں جب کہ اسلام چھٹی صدی کی آسمانی ہدایت ہے۔ ماضی حال کا شاگرد نہیں ہوسکتا، حال ماضی کا شاگرد ہوسکتا ہے۔

اسلام معاشی ہدایت میں دنیا کا پیشرو ہے۔ سرمایہ داری اوراشتراکیت میں جوخوبیاں پائی جاتی ہیں وہ اسلام ہی کی آواز بازگشت ہے۔ سرمایہ داری کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش میں ترقی، پیداوار میں اضافہ، صرف دولت،انفرادی حق ملکیت اورشخصی آزادی وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً وسائل پیداوارکی کم سے کم تقسیم، نفع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ، سرمایہ کا کثیرمعاوضہ، محنت کا حقیرمعاوضہ، لعنت سود، صرف طاقتورکو جینے کا حق، ظلم واستحصال، درندگی تنگ نظری دوسروں کی حق تلفی، مفاد پرستی، ٹیکس کی چوری، ارتکاز دولت اورمعاشی بحران وغیرہ کی برائیوں سے اسلام کا دامن پاک وصاف ہے۔

اسی طرح اشتراکیت کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش کی ترقی، معاشرتی انصاف، معاشی استحکام، دولت کی منصفانہ تقسیم، محنت کی عظمت، سود کی ممانعت، غیرترقیاتی اخراجات کی حوصلہ شکنی، تعیشانہ زندگی کی ممانعت، بنیادی ضروریات زندگی کی لازمی فراہمی، دولت کی گردش وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً فردکی اہمیت کا انکار، ریاست کا فرد اور ملکیت پر مکمل کنٹرول حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید اورمخالفت پر پابندی، مستقل اخلاقی اقدار اورروحانی قوت کا انکار وغیرہ کی برائیوں سے اسلام کا دامن پاک وصاف ہے۔ دونوں نظام افراط و تفریط کا شکار ہیں انتہا پسندی دونوں کا خاصہ ہے۔ دونوں میں توازن کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔

اسلام کا مرکزی تصور انسان اور اس کی معاشی اوراخلاقی فلاح ہے۔ وہ معاشی ترقی کو امکانی حد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی انصاف، شخصی آزادی اوراخلاقی ترقی کو اولین اہمیت دیتا ہے۔اس طرح یہ انسانی فلاح و بہبودکا قابل یقین ضامن ہے۔ دور حاضر کے معاشی چیلنج یہ ہیں۔ معاشی ترقی، معاشی تعاون، معاشی توازن، معاشرتی انصاف، منصفانہ تقسیم دولت اور روحانی قوت پر یقین محکم وغیرہ اسلام دنیا کا واحد نظام ہے جو دورحاضرکے ان معاشی چیلنجز کا جواب دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں