شریعتِ اسلامی میں عبادت کا وسیع مفہوم

اپنی زندگی میں ہر وقت اور ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کا نام عبادت ہے۔


عبادت اس عقیدے پر مشتمل ہوتی ہے کہ تمام مخلوقات ﷲ ہی کی تخلیق ہیں۔ فوٹو: فائل

عبادت روح کی غذا ہے۔ سب سے اچھی غذا وہی ہوتی ہے جو بدن میں جذب ہوجائے یعنی بدن کے لیے صحت مند ثابت ہو، اسی طرح بہترین عبادت وہ ہے جو روح میں جذب ہوجائے یعنی خوشی اور حضور قلب کے ساتھ انجام پائے۔

عبادت ایک جامع اور وسیع مفہوم رکھتا ہے جو ﷲ تعالیٰ کے تمام پسندیدہ و محبوب، ظاہری و باطنی اقوال و افعال کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس تعریف کی رُو سے نماز، زکوۃ، روزہ، حج، سچائی، امانت داری، والدین سے حسن سلوک، رشتے داروں سے نیکی، ایفائے عہد، نیکی کا حکم، برائی سے روکنا، کفار و منافقین سے جہاد، پڑوسیوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور کم زور انسانوں اور جانوروں کے ساتھ بھلائی، نیز دعا، ذکر، قرات وغیرہ سب عبادات ہیں۔

اسی طرح ﷲ و رسولؐ سے محبت، خوف الہی، رجوع الی اﷲ، اخلاص نیت، صرف ﷲ کی عبادت، خدا کے حکم کی پاس داری، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا، اس کی قضا و قدر پر راضی ہونا، اس پر توکل کرنا، اس کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا خوف وغیرہ بھی عبادات ہیں۔

درحقیقت ﷲ تعالیٰ نے انسان کو جس عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور جس کا حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں، ہر وقت، ہرحال میں خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہوجائیں جو قانونِ الٰہی کے خلاف ہو۔ ہماری ہر جنبش اس حد کے اندر ہو جو خدا نے ہمارے لیے مقرر کی ہے۔ ہمارا ہر فعل اس طریقہ کے مطابق ہو جو خدا نے بتادیا ہے۔ اس طرز پر جو زندگی ہم بسر کریں گے، وہ پوری کی پوری عبادت ہوگی۔

شریعت اسلامی میں عبادت کا مفہوم دین و دنیا کی ہر اچھائی پر دلالت کرتا ہے۔ عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے جو ان تمام اقوال و اعمال کی کفالت کرتا ہے جن کو ﷲ پسند کرتا اور ان سے خوش ہوتا ہے۔ مسلمان اس دنیا میں یقینی طور سے یہ چاہتا ہے کہ صحیح معنوں میں ﷲ کا بندہ رہے۔ اس لیے وہ عبودیت کی انجام دہی میں کو شاں رہتا ہے، تاکہ وہ اپنے رب کا واقعی بندہ بن سکے۔ اس کا شرف اور فضل یہی ہے کہ وہ واقعی ﷲ کا بندہ ہو، اپنے دین و دنیا کے جملہ معاملات میں ﷲ کے اوامر کو بجا لائے اور اس کے نواہی سے بچے۔

عبادت اس عقیدے پر مشتمل ہوتی ہے کہ تمام مخلوقات ﷲ ہی کی تخلیق ہیں، اسی کے پاس تصرف ہے اور اس کے سوا کوئی معبود ِبرحق نہیں، صرف وہی ذات اس قابل ہے کہ اس کے لیے محبت، خوف، خشوع ، رجوع، توکل اور اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے، یہی دلی عبادت ہے۔ عبادت ﷲ اور رسولؐ پر ایمان کی گواہی، قرآن کریم کی تلاوت، ہر حال میں ذکر ِ الٰہی، دعا اور راست گوئی وغیرہ پر مبنی ہے، اسے ہی زبانی عبادت کہتے ہیں۔

عملی عبادت : اس میں طہارت، نماز، زکوۃ، روزہ، حج، جہاد فی سبیل ﷲ اور اعضائے جسمانی سے صادر ہونے والے واجب و مباح کام شامل ہیں، یہی بدنی عبادت کہلاتی ہے۔ عبادت کا مرکز ہماری روح ہے، عبادت کا سرچشمہ معرفت ہے، عبادت کی بنیاد توجہ ہے، عبادت کی شروعات تقدس سے ہوتی ہے، آغاز عبادت تعریف و ستائش سے ہے، عبادت دعا ہے، عبادت میں التجا و استعانت ہے، عبادت معبود کے کمالات سے عشق کا نام ہے۔

اہل علم کا کہنا ہے کہ عبادت کے تین بنیادی ارکان ہیں یعنی عبادت کرنے کے تین بنیادی سبب ہونے چاہییں

(1) ﷲ تعالیٰ کی کامل محبت: '' اور ایمان والے ﷲ تعالیٰ سے محبت میں انتہائی سخت ہیں۔'' (البقرۃ)

(2) ﷲ تعالیٰ سے کامل اُمید: '' اور وہ اہل ایمان اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔''

(3) ﷲ تعالیٰ کا کامل خوف: '' اور وہ اہل ایمان اس کے عذاب سے خائف رہتے ہیں۔''

ﷲ تعالیٰ نے ان تینوں ارکان کو سورۃ الفاتحہ میں یوں جمع فرمایا ہے :

ہر قسم کی تعریف اس ﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ جزا کے دن کا مالک ہے۔

پہلی آیت میں محبت کا ذکر ہے کیوں کہ اس میں جہانوں کے پروردگار کا ذکر ہے جو بندوں پر انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور بلاشبہ جو انعام کرے اس سے محبت کی جاتی ہے۔ دوسری آیت میں امید کا ذکر ہے کیوں کہ جو بھی رحمت و شفقت کے ساتھ متصف ہو اس سے امید کی جاتی ہے۔ تیسری آیت میں خوف کا ذکر ہے جو روزِ قیامت جزا و حساب کا مالک ہے اس کے عذاب سے ڈرا جاتا ہے۔ اس لیے ہم پکارتے ہیں کہ اے میرے رب! میں خاص تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔

عبادت ظاہراً ایک آسان کام ہے لیکن عبادت میں اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ ہوں تو انسان سے عبادت نہیں ہوسکتی۔ عبادت یعنی مادّیت سے رغبت کو ختم کرلینا اور اپنی روح کو پرواز عطا کرنا۔ عبادت انسان کے عشق کی تکمیل کرتی ہے، جس میں کبھی حمد و تعریف کے ذریعے، کبھی تسبیح و تقدیس کے ذریعے اور کبھی اپنے قیمتی اوقات میں شکر و اظہار تسلیم کے ساتھ ، پروردگار عالم کے تئیں اپنے ادب و احترام کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔''

اس آیت میں جس عبادت کو انسان کی غایت تخلیق کہا گیا ہے وہ دل کی کامل رضا و رغبت کے ساتھ خدا کی فرماں برداری ہے۔ اسلام میں ایک عبادت گزار سے جہاں یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اعضا و جوارح سے خدا کے سامنے عجز کا اظہار کرے، جسے عرف عام میں پرستش سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہاں اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ معاملات زندگی میں دل کی مکمل رضا کے ساتھ حتّی المقدور خدا کی فرماں برداری بھی کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔ بندے کے اس عابدانہ رویے کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے۔ عبادت اور تقویٰ میں گہرا رشتہ ہے۔

عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔ گو یا کہ لفظ '' عبادت'' اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی، انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ '' تکبر'' استعمال ہوا ہے۔ '' جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے۔'' (المومن)

'' اور جسے ﷲ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو ﷲ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔'' (النساء)

سعادت اور دینی و دنیوی امور میں ہدایت صرف اسلام پر عمل کرنے سے ہی مل سکتی ہے، جو کتاب ﷲ و سنّت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اس بارے میں ہمارے دلوں میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ بل کہ ہمیں پورا یقین ہے اور ہمارا ٹھوس عقیدہ بھی ہے۔ ﷲ تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصدِ حیات محض اپنی عبادت اور اطاعت بنایا ہے۔

کچھ لوگ عبادت کے بارے میں یہ غلط تصوّر رکھتے ہیں کہ عبادت صرف نماز، روزہ، زکوۃ اور حج و عمرہ میں محصور ہے۔ چناں چہ وہ ان عبادتوں کے علاوہ آپس کے لین دین، تجارت اور معاملات میں شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، بلاجھجک سود اور رشوت میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں ہر کام میں شریعت کی پابندی کرنی چاہیے۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں دین و دنیا کے ہر کام میں اپنی ہدایت اور اپنے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیں اور آپ کو اپنی اطاعت پر ثابت قدم رکھے اور صحیح معنوں میں عبادت کرنے توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں