سلام کیجیے سلامتی پھیلائیے
ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے ﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے.
دنیا کی ہر مہذب قوم میں رواج چلا آرہا ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لیے ایک دوسرے سے کہیں۔ چناں چہ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کے لیے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو '' سلام'' کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے سلام کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
قرآن مجید میں ہے: '' اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم اس سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو۔''
قرآن مجید میں لفظ سلام کے لیے تحیہ کا لفظ مذکور ہے، جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ''حیاک اﷲ'' کہنا (یعنی ﷲ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے)۔ چوں کہ زمانہ قبل از اسلام عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو ''حیاک اﷲ'' یا '' انعم ﷲ بک عینا'' یا '' انعم صباحا'' وغیرہ الفاظ سے سلام کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس کو بدل کر '' السلام علیکم '' کہنے کا کلمہ جاری کیا۔ جس کے معنی ہیں: تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامتی میں رہو۔''
علامہ ابن العربی ؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ''احکام القرآن'' میں لکھا ہے کہ لفظِ سلام، ﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور '' السلام علیکم'' کے معنی ہیں، ﷲ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہہ بان ہو۔
اسلامی سلام کا اگر دیگر مہذب قوموں کے سلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا سلام اتنا جامع نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ اسلامی سلام میں صرف موانست و اظہارِ محبت ہی نہیں، بل کہ اس کے ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اس میں ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے ﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ '' ﷲ تعالیٰ آپ کو تمام آفات و بلیات سے سلامتی میں رکھے۔'' پھر دعا بھی عرب لوگوں کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بل کہ حیاتِ طیبہ یعنی تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہنے کی دعا ہوتی ہے۔
اسی کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ میں اور آپ ہم دونوں ﷲ تعالیٰ کے محتاج ہیں، اور ہم دونوں ایک دوسرے کو نفع اور ضرر ﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچا سکتے۔ اس معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ سلام ایک عبادت بھی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو ﷲ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔
اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص ﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ میرے ساتھی کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہیں اور میں تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
حضور نبی کریمؐ نے مسلمانوں کے باہمی سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے، اس عمل کو افضل قرار دیا ہے اور اس کے فضائل و برکات اور اس کا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا : '' تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تم مومن نہ ہو، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔'' (صحیح مسلم)
حضرت عبدﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں : '' ایک شخص نے رسول ﷲ ﷺ سے دریافت کیا: اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ آپؐ نے فرمایا : تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو، چاہے تم کسی کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔'' ( بخاری و مسلم)
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' ﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔''
( ترمذی، ابو داؤد، مسند احمد)
حضرت عبدﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' سلام، ﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے، اس لیے تم آپس میں سلام کو عام کرو، کیوں کہ مسلمان جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور اہل مجلس کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو ﷲ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس نے سب کو سلام (یعنی ﷲ تعالیٰ کی یاد دلائی) اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کے سلام جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں۔ (یعنی فرشتے)'' (مسند بزار ، معجم کبیر )
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔'' ( طبرانی، معجم کبیر)
آنحضرتؐ کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر جو اثر ہوا، اس کا اندازہ صرف ا س ایک روایت سے ہوجاتا ہے جو طفیل بن ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عبدﷲ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لیے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کرکے عبادت کا ثواب حاصل کیا جائے، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا۔ ( مؤطا امام مالک)
سب سے افضل تو یہ کہ سلام کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دیا جائے، اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم ویسے ہی الفاظ اس کے جواب میں کہہ دینے چاہییں جیسے کہ سلام کرنے والے نے کہے ہوں ۔ چناں چہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ﷺ۔ آپؐ نے اس کے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا : وعلیکم السلام ورحمۃ ﷲ ۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ورحمۃ اﷲ۔ آپؐ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : وعلیکم السلام ورحمۃ ﷲ و برکاتہ۔ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ورحمۃ ﷲ و برکاتہ۔ آپؐ نے جواب میں صرف ایک کلمہ، وعلیک ارشاد فرمایا۔
ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا: یا رسول ﷲ ﷺ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! پہلے جو حضرات آئے آپؐ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعا کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپؐ نے وعلیک پر اکتفا فرمایا ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا : تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے ہی کلمات اپنے سلام میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفا کرلیا۔ ( بہ حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم)
اس سے معلوم ہوا کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ مزید الفاظ بڑھا کر جواب دیا جائے اور الفاظ کا یہ بڑھانا بھی صرف تین کلمات تک ہی مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے والے شخص کو صرف ایک کلمہ کہہ دینے سے بھی اس کے سلام کا برابر جواب ہوجاتا ہے۔
جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمے جواب دینا واجب ہوجاتا ہے۔ اگر بغیر کسی شرعی عذر کے وہ جواب نہ دے تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ جواب دینے میں اسے دو باتوں کا اختیار ضرور ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دے اور دوسرے یہ کہ بعینہٖ انہیں الفاظ میں جواب دیدے۔
ویسے تو جمہور علماء کے نزدیک سلام میں پہل کرنا سنت غیر مؤکدہ ہے، لیکن بعض علماء اسے سنت مؤکدہ کا درجہ دیتے ہیں، جو واجب کے قریب ہوتا ہے۔ تاہم اس کا جواب دینا بہ ہر حال واجب ہے، بل کہ حضرت حسن بصریؒ سے تو یہاں تک مروی ہے کہ سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ ( بہ حوالہ: تفسیر بحر محیط)
سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے سلام کرنے والے کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی۔ (ترمذی)
حدیث میں آتا ہے : '' جب ایک ہی مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ اسے سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا مسنون ہے۔'' ( ابو داؤد)
یاد رہے کہ چند صورتوں میں سلام کرنا اور اس کا جواب دینا سخت منع ہیں، نماز پڑھتے ہوئے، خطبہ دیتے ہوئے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے، اذان دیتے ہوئے، اقامت کہتے ہوئے، درس دیتے ہوئے اور وضو استنجا کرتے ہوئے۔ ان تمام صورتوں میں سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا، دونوں سخت منع ہیں۔
قرآن مجید میں ہے: '' اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم اس سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو۔''
قرآن مجید میں لفظ سلام کے لیے تحیہ کا لفظ مذکور ہے، جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ''حیاک اﷲ'' کہنا (یعنی ﷲ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے)۔ چوں کہ زمانہ قبل از اسلام عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو ''حیاک اﷲ'' یا '' انعم ﷲ بک عینا'' یا '' انعم صباحا'' وغیرہ الفاظ سے سلام کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس کو بدل کر '' السلام علیکم '' کہنے کا کلمہ جاری کیا۔ جس کے معنی ہیں: تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامتی میں رہو۔''
علامہ ابن العربی ؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ''احکام القرآن'' میں لکھا ہے کہ لفظِ سلام، ﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور '' السلام علیکم'' کے معنی ہیں، ﷲ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہہ بان ہو۔
اسلامی سلام کا اگر دیگر مہذب قوموں کے سلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا سلام اتنا جامع نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ اسلامی سلام میں صرف موانست و اظہارِ محبت ہی نہیں، بل کہ اس کے ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اس میں ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے ﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ '' ﷲ تعالیٰ آپ کو تمام آفات و بلیات سے سلامتی میں رکھے۔'' پھر دعا بھی عرب لوگوں کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بل کہ حیاتِ طیبہ یعنی تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہنے کی دعا ہوتی ہے۔
اسی کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ میں اور آپ ہم دونوں ﷲ تعالیٰ کے محتاج ہیں، اور ہم دونوں ایک دوسرے کو نفع اور ضرر ﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچا سکتے۔ اس معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ سلام ایک عبادت بھی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو ﷲ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔
اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص ﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ میرے ساتھی کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہیں اور میں تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
حضور نبی کریمؐ نے مسلمانوں کے باہمی سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے، اس عمل کو افضل قرار دیا ہے اور اس کے فضائل و برکات اور اس کا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا : '' تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تم مومن نہ ہو، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔'' (صحیح مسلم)
حضرت عبدﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں : '' ایک شخص نے رسول ﷲ ﷺ سے دریافت کیا: اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ آپؐ نے فرمایا : تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو، چاہے تم کسی کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔'' ( بخاری و مسلم)
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' ﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔''
( ترمذی، ابو داؤد، مسند احمد)
حضرت عبدﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' سلام، ﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے، اس لیے تم آپس میں سلام کو عام کرو، کیوں کہ مسلمان جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور اہل مجلس کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو ﷲ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس نے سب کو سلام (یعنی ﷲ تعالیٰ کی یاد دلائی) اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کے سلام جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں۔ (یعنی فرشتے)'' (مسند بزار ، معجم کبیر )
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔'' ( طبرانی، معجم کبیر)
آنحضرتؐ کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر جو اثر ہوا، اس کا اندازہ صرف ا س ایک روایت سے ہوجاتا ہے جو طفیل بن ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عبدﷲ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لیے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کرکے عبادت کا ثواب حاصل کیا جائے، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا۔ ( مؤطا امام مالک)
سب سے افضل تو یہ کہ سلام کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دیا جائے، اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم ویسے ہی الفاظ اس کے جواب میں کہہ دینے چاہییں جیسے کہ سلام کرنے والے نے کہے ہوں ۔ چناں چہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ﷺ۔ آپؐ نے اس کے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا : وعلیکم السلام ورحمۃ ﷲ ۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ورحمۃ اﷲ۔ آپؐ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : وعلیکم السلام ورحمۃ ﷲ و برکاتہ۔ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا: السلام علیک یا رسول ﷲ ورحمۃ ﷲ و برکاتہ۔ آپؐ نے جواب میں صرف ایک کلمہ، وعلیک ارشاد فرمایا۔
ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا: یا رسول ﷲ ﷺ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! پہلے جو حضرات آئے آپؐ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعا کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپؐ نے وعلیک پر اکتفا فرمایا ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا : تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے ہی کلمات اپنے سلام میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفا کرلیا۔ ( بہ حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم)
اس سے معلوم ہوا کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ مزید الفاظ بڑھا کر جواب دیا جائے اور الفاظ کا یہ بڑھانا بھی صرف تین کلمات تک ہی مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے والے شخص کو صرف ایک کلمہ کہہ دینے سے بھی اس کے سلام کا برابر جواب ہوجاتا ہے۔
جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمے جواب دینا واجب ہوجاتا ہے۔ اگر بغیر کسی شرعی عذر کے وہ جواب نہ دے تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ جواب دینے میں اسے دو باتوں کا اختیار ضرور ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دے اور دوسرے یہ کہ بعینہٖ انہیں الفاظ میں جواب دیدے۔
ویسے تو جمہور علماء کے نزدیک سلام میں پہل کرنا سنت غیر مؤکدہ ہے، لیکن بعض علماء اسے سنت مؤکدہ کا درجہ دیتے ہیں، جو واجب کے قریب ہوتا ہے۔ تاہم اس کا جواب دینا بہ ہر حال واجب ہے، بل کہ حضرت حسن بصریؒ سے تو یہاں تک مروی ہے کہ سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ ( بہ حوالہ: تفسیر بحر محیط)
سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے سلام کرنے والے کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی۔ (ترمذی)
حدیث میں آتا ہے : '' جب ایک ہی مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ اسے سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا مسنون ہے۔'' ( ابو داؤد)
یاد رہے کہ چند صورتوں میں سلام کرنا اور اس کا جواب دینا سخت منع ہیں، نماز پڑھتے ہوئے، خطبہ دیتے ہوئے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے، اذان دیتے ہوئے، اقامت کہتے ہوئے، درس دیتے ہوئے اور وضو استنجا کرتے ہوئے۔ ان تمام صورتوں میں سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا، دونوں سخت منع ہیں۔