لانگ مارچ اور فرقہ واریت
ایسی کونسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس کے نتیجے میں کوئی بھی کرپٹ فرد ان اداروں کا رکن نہ بن سکے۔
تحریک منہاج القرآن کے سرپرست علامہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ کوئی ابہام نہ رہے کہ لانگ مارچ ہوگا ہو گا اور ضرور ہو گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ دہشتگردی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ انھوں نے کوئٹہ اور سوات میں دہشت گردی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف کوئٹہ میں ایک ہی وقت میں 118 افراد شہید ہو گئے جب کہ سوات میں بائیس شہید ہوئے اور دونوں جگہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو حکومتیں مستعفی ہو جاتیں۔ حکومت اگر دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتی تو فوج کو مدد کے لیے طلب کرنا چاہیے کیونکہ فوج خود نہیں آ سکتی۔ انھوں نے کہا کہ کرپٹ جمہوری عمل دہشت گردی کے فروغ میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی روکنے میں نا اہل ہے یا پھر دہشت گردوں کی محافظ ثابت ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشن لے کر نکلا ہوں۔ علامہ طاہر القادری نے کہا کہ اگر اس الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات نہ کی گئیں تو آیندہ الیکشن کے بعد ایسی انتخابی آمریت مسلط ہو گی جس میں مختلف ترامیم کر کے جائز آئینی احتجاج کرنے والوں کو باغی قرار دیا جائے گا۔
ادھر چوہدری برادران نے حکومتی اتحاد کی طرف سے طاہر القادری سے ملاقات کی مگر انھوں نے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ۔ انھوں نے کہا کہ اب مذاکرات اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے ہوں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو غیر سیاسی نگران حکومت کے قیام اور آئین کے تحت انتخابات کرانے سمیت 7 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈکا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے مذاکرات بند نہیں کیے تاہم لانگ مارچ ہر صورت ہو گا اور فیصلہ کن مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ہوں گے۔ جہاں چارٹر آف ڈیمانڈ کے دیگر 4 نکات بتاؤں گا۔
اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی کہ حکومت مذاکرات کے نام پر ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ رکوانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ایک طرف اگر لانگ مارچ کا چرچا ہے تو دوسری طرف سانحہ کوئٹہ ہے جس میں کم از کم اب تک 118 افراد کی جان جاچکی ہے اور ورثا شدید سردی کے باوجود کھلے آسمان تلے لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ پر ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ پچھلے تیس سال سے خاص طور پر پچھلے چند برسوں سے فرقہ واریت کے نتیجے میں بے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
کالعدم تنظیمیں اس کی بڑی فخر سے ذمے داری قبول کرتی رہتی ہیں۔ یہ تنظیمیں کون ہیں ان کا کردار اور ماضی کیا ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں ،ہر محب وطن پاکستانی کو اس کا ادراک ہے یعنی حالات کے بگاڑ کو اس حد تک لے جانا کہ پاکستان خدانخواستہ ٹوٹ جائے اور اس کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ ہو جائے۔ انھیں پروا نہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ جائے۔ پاکستان ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
آج یہ گروہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کے لیے اس کے ساتھ مسلسل لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر دوست اور دشمن کو پتہ ہے کہ خطے کے موجودہ حالات میں پاکستانی فوج کی کمزوری کا مطلب پاکستان کا خاتمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کے تازہ ترین ڈاکٹرائن میں کہا گیا ہے کہ بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس پس منظر میں پچھلے تیس سال سے مذہب کے نام پر قتل و غارت ایک سوالیہ نشان ہے۔ خاص طور پر اس طویل مدت میں ایک بھی دہشت گرد کو سزا نہیں ملی۔
کیا یہ دہشت گرد آسمان سے نازل ہوتے ہیں یا انھوں نے سلمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے کہ یہ دہشت گرد ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر ہی نہیں آتے۔ قتل ہونے والوں کے ورثا کے شک و شبہات اور بھی ہیں کیوں کہ جب بدگمانی بڑھتی ہے تو اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ان بدگمانیوں میں سے ایک بدگمانی یہ بھی ہے کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے فرقہ واریت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ جس دن پاکستان میں ''تبدیلی'' آ گئی اس کے چند دنوں چند ہفتوں مہینوں میں ٹارگٹ کلنگ بم دھماکے خودکش حملوں میں نمایاں کمی آ جائے گی اور پھر عوام اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں گے کہ ان ''نااہل حکومتوں''سے ان کی جان چھوٹی۔
بات ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ سے شروع ہوئی تھی کہ جن کے مقابلے کے لیے تمام ''جمہوری پارٹیاں'' اکٹھی ہو گئی ہیں یعنی ایک طرف طاہر القادری تو دوسری طرف پاکستان کے تمام ''جمہوری اسٹیک ہولڈرز''۔ حالت ان پارٹیوں کی یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں یہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا سکے بلکہ ہر ممکن کوشش کی کہ یہ انتخابات کسی بھی طرح منعقد ہی نہ ہو سکیں حالانکہ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ جہاں تک ان جمہوری پارٹیوں کا تعلق ہے تو ان کی جمہوریت سے وابستگی کی حقیقت یہ ہے کہ آج تک ان پارٹیوں میں صحیح معنوں میں انتخابات ہی نہیں ہوئے۔
دن رات جمہوریت جمہوریت کا رٹ لگانے والوں کا یہ ہے جمہوری چہرہ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان متوقع انتخابات کے نتیجے میں ان پارٹیوں میں موروثیت اور خاندانی بادشاہتوں کا خاتمہ ہو جائے گا ؟ کیا اس الیکشن میں یا آنے والے الیکشنوں میں عام پاکستانی منتخب اداروں کا رکن بن سکتا ہے؟ الیکشن مہنگا کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ عام پاکستانی پر منتخب اداروں میں داخل ہونے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسی کونسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس کے نتیجے میں کوئی بھی کرپٹ فرد ان اداروں کا رکن نہ بن سکے۔
٭...18 فروری سے 18 مارچ کے درمیان کا عرصہ پاکستان میں موجودہ نظام کا فیصلہ کرے گا جس کا آغاز 16 جنوری سے ہو جائے گا۔