اصغر خان کیس اور نگران سیٹ اپ

یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مہران بینک اسکینڈل کے تین کردار ہیں، جنرل اسلم بیگ ‘جنرل اسد درانی اور اسلامی جمہوری اتحاد


Asghar Abdullah January 13, 2013
[email protected]

اطلاع یہ ہے کہ اب اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت، اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں کوئی قانونی پیشرفت کرے گی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایف آئی اے نے ان سیاستدانوں کے خلاف، جن پر آئی ایس آئی سے رقوم وصول کرنے کے الزامات ہیں، ابتدائی کارروائی شروع کر دی تھی۔ ایف آئی اے کی درخواست پر، اس کو سپریم کورٹ کی طرف سے اصغر خان کیس کا مکمل ریکارڈ فراہم کر دیا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی نے ن لیگ پر فائر کھول دیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کے خلاف باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ان کو ایف آئی اے پر اعتماد نہیں اور یہ کہ ایف آئی اے کی تحقیقات کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن پھر یکلخت جیسے سیز فائر ہو گیا۔ اور اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اصغر خان کیس پر شاید سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آیا ہی نہیں۔ اصغر خان کیس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جو گاڑھی چھن رہی ہے، ذرا غور کریں تو اس کے ڈانڈے نگران سیٹ اپ پر مفاہمت سے ملتے نظر آجاتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اصغر خان کیس المعروف مہران بینک اسکینڈل کے خطرناک مضمرات ہیں کیا۔

مہران بینک اسکینڈل، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین اسکینڈل ہے؛ کیونکہ، اس اسکینڈل میں ملک کے بڑے بڑے سیاستدان ہی نہیں، بڑے بڑے جرنیل بھی ملوث پائے گئے۔ اسکینڈل کا لبِ لباب یہ ہے کہ 1990ء کے عام انتخابات سے پہلے، اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی کے ذریعے ایک خطیر رقم سیاستدانوں میں تقسیم کی۔ اس امر کا اعتراف جنرل اسد درانی نے باقاعدہ اپنے بیان حلفی میں کیا ہے۔ مہران بینک اسکینڈل کا انکشاف پہلی بار 11 جنوری 1996ء کو اس وقت کے وزیر ِداخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے قومی اسمبلی کے فلور پر کیا۔

16 جون 1996ء کو ایئر مارشل اصغر خان نے ایک خط کے ذریعے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے ثبوت چونکہ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ کا از خود نوٹس لے تا کہ حقیقت ِ حال واضح ہو۔ 28 اکتوبر 1996ء کو سپریم کورٹ نے اصغر خان کو تحریری طور پر مطلع کر دیا کہ ان کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کر کے سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا ہے، اور یہ کہ پہلی سماعت 3 نومبر 1996ء کو ہو گی۔ مقدمہ کی سماعت ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھی کہ نوازشریف دوبارہ وزیر ِاعظم بن گے۔ نواز شریف دور میں، اس سے پہلے کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ مقدمہ کی سماعت کو آگے بڑھاتے، سپریم کورٹ کے اندر ہی ان کے خلاف '' بغاوت'' ہو گئی، یا کروا دی گئی۔

بعد ازاں چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کچھ پیش رفت کی، تاہم فیصلہ ''محفوظ'' کر لیا گیا۔ اس مقدمہ کی آخری سماعت 11 اکتوبر 1999ء کو ہوئی تھی، اس طرح یہ فیصلہ ''محفوط'' ہی رہا اور جنرل پرویز مشرف نے ٹیک اوور کر لیا۔ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کے بعد چیف جسٹس ارشاد حسن خاں، چیف جسٹس شیخ ریاض احمد، چیف جسٹس ناظم حسن صدیقی، حتیٰ کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پہلے دور میں بھی یہ مقدمہ زیرِ التوا ہی رہا۔ جسٹس افتخار چوہدری چیف جسٹس کے طور پر بحال کیے گئے، تو یہ مقدمہ چیلنج بن کر ان کے سامنے آ گیا۔ وجوہات کُچھ بھی ہوں، بہر حال چیف جسٹس نے اس بار یہ چیلنج قبول کیا اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ نہ صرف رقوم تقسیم کرنے والے سابق جرنیلوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے، بلکہ مبینہ طور پر رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات شروع کی جائیں۔

یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مہران بینک اسکینڈل کے تین کردار ہیں، جنرل مرزا اسلم بیگ ' جنرل اسد درانی اور اسلامی جمہوری اتحاد۔ کیونکہ، جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کا مقصد تو ظاہر تھا کہ سب کچھ اسلامی جمہوری اتحاد کو برسر ِاقتدار لانے کے لیے تھا۔

عام مغالطہ یہ ہے کہ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدواروں کو اس طرح نوازا جا رہا تھا، تو نوازشریف اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر نہیں تھے۔ تعجب ہے کہ ن لیگ کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان بھی ٹی وی چینلز پر یہ اصرار کرتے پائے گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نوازشریف ہی اس عرصے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر تھے۔ یہ تمام تفصیلات اسلامی جمہوری اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد مرحوم کی کتاب ''وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو، نامزدگی سے برطرفی تک '' ایڈیشن 1997ء میں موجود ہیں۔ صرف یہ دو اقتباسات ملاحظ ہوں: ''11 فروری 1989ء کو اسلامی جمہوری اتحاد کی جنرل کونسل کا اجلاس غلام مصطفیٰ جتوئی کی زیرِ صدارت، نواز شریف کی رہایش گاہ پر ہوا۔

غلام مصطفیٰ جتوئی نے کہا کہ نومبر 1988ء میں اُن کو اسلامی جمہوری اتحاد کا صدر چُنا گیا تھا۔ یہ مدت فروری 1989ء میں مکمل ہو گئی ہے۔ سابقہ فیصلہ کے مطابق، اب مولانا سمیع الحق آیندہ تین ماہ کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر ہوں گے۔ مولانا سمیع الحق نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا، لیکن پھر اپنی تقریر میں وزیر ِاعلیٰ نوازشریف کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان بھی کر دیا، اور شرکاء سے درخواست کی کہ وہ نواز شریف کو صدر منتخب کر لیں۔ اس پر نوازشریف نہ صرف اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر چُن لیے گئے، بلکہ صدر کی معیاد تین ماہ سے بڑھا کر ایک سال بھی کر دی گئی'' (صفحہ ( 224۔ '' 11 فروری1989ء کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کا اگلا اجلاس 18مارچ 1990ء کو ہوا۔

نوازشریف کی مدتِ صدارت 11فروری 1990ء کو ختم ہو چکی تھی۔ صدر سمیت تمام نئے عہدیداروں کا دوبارہ انتخاب ضروری تھا۔ تاہم ایس ایم ظفر کی اس تجویز پر کہ صدر سمیت تمام عہدیداروں کی معیاد ایک سال سے بڑھا کر تین سال کر دی جائے، اور اس کا اطلاق 11 فروری 1989ء کے انتخاب سے ہو، یہ طے پایا کہ نواز شریف سمیت اسلامی جمہوری اتحاد کے تمام عہدیدار مزید دو سال تک اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے ( صفحہ 500 )'' اس طرح، ستمبر 1990ء میں جب جنرل اسلم بیگ کی طرف سے، اسلامی جمہوری اتحاد اور اس کے حلیفوں میں پیسہ تقسیم ہو رہا تھا، تو نوازشریف ہی اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ تھے۔ اس تناظر میں اصغر خاں کیس ن لیگ کے لیے بھی مسائل کا سبب بن سکتا تھا۔

اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ لگ بھگ 17سال بعد آیا۔ اس عرصہ میں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اس پر فیصلہ صادر کرے۔ لیکن، اب جب کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کر دیا ہے، پیپلز پارٹی یہ ہمت نہیں کر پا رہی کہ ایف آئی اے کو اپنے طور پر ہی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تحقیقات کرنے کی اجازت دیدے۔ اس پسِ منظر میں یہ اطلاع مصدقہ معلوم ہوتی ہے کہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اس مرحلہ پر طاہر القادری کا یہ مطالبہ کہ نگران سیٹ اپ مکمل طور پر غیر جانب دار ہو، با اختیار ہو اور آئین کی دفعہ 62-63 پر عمل درآمد کرانے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہو ، معنی خیز ہے۔ کیونکہ نگران حکومت، اگر عدالتی احکامات اور عوامی مطالبے پر، اصغر خان کیس کو ٹیک اپ کر لیتی ہے، تو سیاست کا سارا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں