بھارت میں طالبہ کا قتل اور احتجاج

پاکستان مذہبی دیوانگی میں اس جگہ پہنچ گیا ہے جہاں قتل و غارت کے لیے ہندومسلم کی تعریف بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

بھارت میں پچھلے دنوں ایک 23 سالہ طالبہ کے ساتھ اس وقت اجتماعی آبروریزی کی گئی جب یہ لڑکی اپنے منگیتر کے ساتھ فلم دیکھ کر دہلی میں چلنے والی ایک بس میں گھر جارہی تھی۔ دہلی کے اوباشوں نے اس لڑکی کے ساتھ اس کے منگیتر کے سامنے ہی آبروریزی کی اور آبرو ریزی کے بعد لڑکی اوراس کے منگیتر پر بہیمانہ تشدد کرکے انھیں بس سے باہر پھینک دیا۔ لڑکی کی حالت اس حد تک خراب تھی کہ اس کی زندگی بچانا مشکل لگ رہا تھا۔ دہلی میں ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے اسے سنگاپور علاج کے لیے بھجوایا گیا۔ سنگاپور کے اسپتال میں لڑکی کی جان بچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی لیکن لڑکی کو نہ بچایا جاسکا۔ لڑکی کی لاش دہلی لائی گئی اور اسے سپردخاک کردیا گیا۔

اس لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر جب باہر آئی تو دہلی سمیت بھارت کے درجنوں شہروں میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ بھارت میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے انسانیت سوز جرائم روز مرہ کا معمول ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت میں روزانہ آبرو ریزی کے اوسطاً 60 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 1971 میں آبرو ریزی اور قتل کے 2043 واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور 2011 میں آبرو ریزی اور قتل کی وارداتوں میں 873 فیصد اضافہ ہوا اور متاثرہ خواتین کی تعداد 1971 کی 2043 تعداد سے بڑھ کر 24206 ہوگئی۔ ان جرائم میں مدھیہ پردیش سرفہرست اور مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے۔ شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث کل مجرموں میں سے صرف 26 فیصد کو سزا دی گئی باقی مجرم مختلف بہانوں یا ناقص عدالتی نظام کی وجہ سے سزاؤں سے بچ گئے۔

دہلی کی اس طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کے خلاف جو شدید مظاہرے ہورہے ہیں ان میں بھارت کے فنکاروں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ بھارت کی فلمی صنعت کے معروف ہدایت کار مہیش بھٹ نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک انتہائی دلچسپ اور معنی خیز مطالبہ کیا ہے کہ ''ان تمام مندروں کو بند کردو جہاں تم عورت کو بھگوان کا درجہ دے کر پوجتے ہو''بھارت کے معروف اداکار شاہ رخ خان نے کہا کہ ''مجھے اس معاشرے کا حصہ ہونے پر افسوس ہے۔''

بھارت میں ہونے والے ان مظاہروں میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ شامل ہیں کہ یہ جرم مذہب و ملت سے بالاتر ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کے خلاف بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اس ظلم کے خلاف کوئی بڑے احتجاج کی خبر ہماری نظروں سے نہیں گزری، اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ بھارتی حکومت نے احتجاج کو فرقہ وارانہ ہونے سے بچانے کے لیے اس بدقسمت لڑکی کی مذہبی شناخت کو پوشیدہ رکھا۔ یہ احتیاط اس حوالے سے ضروری محسوس ہوتی ہے کہ دونوں ملکوں میں مذہبی انتہاپسندی جس مقام پر پہنچ گئی ہے دہلی کی اس طالبہ کی مذہبی شناخت ظاہر ہونے سے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتی اور اس ایک بہیمانہ قتل کے جواب میں سیکڑوں فرقہ وارانہ قتل ہوجاتے۔

دہلی میں ہونے والی اس آبرو ریزی ہی کے دوران پاکستان میں نہ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کے ساتھ یہ ظلم ہوا۔ اس ظلم کی تازہ شکار رحیم یار خان کی ایک 9 سالہ طالبہ ہوئی ہے جس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اسے بھی بہیمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔ جرم خواہ کسی شکل میں ہو وہ جرم ہی رہتا ہے، جرم نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی، نہ یہودی۔لیکن انسانوں کی مذہبی تقسیم کی وجہ جرم ہندو بن جاتا ہے، مسلمان سکھ اور عیسائی بن جاتا ہے۔ اس پس منظر میں بھارت میں ہونے والا احتجاج اس لیے حوصلہ افزا اور قابل تعریف ہے کہ یہ احتجاج ہندو ہے نہ مسلمان بلکہ انسانی احتجاج ہے اور احتجاج کی اس انسانی شناخت سے اس خطے میں انسانی رشتوں کے فروغ اور احترام کی امید میں حوصلہ افزا اضافہ ہوتا ہے، جہاں مذہبی رشتوں کو ہوا دینے والے اور ان رشتوں کے حوالوں سے انسانوں کو تقسیم کرکے ان کے خون کو پانی کی طرح بہانے والے دیوانے موجود ہی نہیں بلکہ تیزی سے طاقت پکڑ رہے ہیں۔


پاکستان مذہبی دیوانگی کی ساری سرحدوں کو پھلانگ کر اب اس جگہ پہنچ گیا ہے جہاں قتل و غارت کے لیے ہندومسلم کی تعریف بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اب یہاں واجب القتل ہونے کے لیے صرف فقہی اور صوبائی اختلافات ہی کافی ہیں۔ خیبر سے کراچی تک جو لوگ ہر روز مارے جارہے ہیں وہ مذہباً مسلمان ہی ہیں اور انھیں مارنے والے بھی اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں بلکہ سپر مسلمان یا ماڈل مسلمان کہتے ہیں اور ساری دنیا میں اس سپر کلچر کا فروغ چاہتے ہیں۔

جنسی تعلقات نسل انسانی کی بقاء کا ایک لازمی اور ناگزیر حصہ ہیں لیکن یہ تعلقات جب جنسی ہوس میں تبدیل ہوجاتے ہیں تو یہ ایک سنگین معاشرتی جرم میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جنسی ہوس اپنی ساخت اور اصل میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی ہوس سے مختلف نہیں۔ اگر انسانی معاشرے آج دولت حاصل کرنے کی ہوس کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیںتو ان معاشروں کو جنسی ہوس کے خلاف بھی بلاتخصیص مذہب و ملت احتجاج کرنا چاہیے۔ لیکن جس طرح ارتکاز دولت یعنی دولت حاصل کرنے اور اسے نجی ملکیت کے نام پر اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے قانون اور آئین میں گنجائش نکال لی گئی ہے۔

اسی طرح جنسی بوالہوسی کو قانونی اور حلال بنانے کے لیے بھی گنجائشیں نکال لی گئی ہیں۔ دہلی کی طالبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی یقینا ایک معاشرتی جرم ہے لیکن برصغیر سمیت دنیا کے بے شمار شہروں کے بازار حسن یا چکلوں میں جو زیادتیاں ہورہی ہیں کیا یہ زیادتیاں دہلی میں ہونے والی زیادتی سے کم سنگین ہیں؟ کیا شاہوں کے حرموں اور 5 اسٹار ہوٹلوں میں ہونے والی زیادتیاں قابل شرم اور قابل احتجاج نہیں؟ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنا اور ایک معصوم اور کمزور عورت کی آبرو لوٹنا برابر کے سنگین جرم ہیں، ان جرائم کو ہندو مسلم، سکھ، عیسائی میں تقسیم کرنا بذات خود ایک سنگین جرم ہے۔ یہ بات میں اس خوف کو دیکھ کر کہہ رہا ہوں جس کی وجہ بھارت کی حکومت کو دلی کی 23 سالہ مظلوم لڑکی کی شناخت کو چھپانا پڑ رہا ہے ۔

دنیا کے ملک اور دنیا کے عوام اب ماضی کی مواصلاتی لاتعلقی سے نکل کر مواصلاتی انقلاب کے ذریعے ایک دوسرے کے اس قدر قریب آگئے ہیں کہ ان کا گھر آنگن ایک ہورہا ہے۔ دنیا کو قریب لانے اور ایک گاؤں میں بدلنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک امن سے رہنے کی خواہش دوسری اقتصادی ناانصافیوں سے نکلنے کی آرزو۔ یہ دونوں خواہشیں رنگ، نسل، زبان، مذہب و ملت سے بالاتر ہیں۔میں نے ان خواہشوں کو ایک تو عراق پر امریکی حملے سے پہلے ساری دنیا میں کروڑوں ''انسانوں'' کے مظاہروں کی شکل میں دیکھا جن میں خود امریکی عوام شامل تھے دوسرے وال اسٹریٹ قبضہ مہم کی شکل میں جو 82 ملکوں کے 800 شہروں تک پھیل گئی تھی۔

اس تحریک کو اب میں دہلی کی 23 سالہ شناخت سے محروم لڑکی کی آبرو ریزی اور قتل کے خلاف سارے بھارت میں ہونے والے مظاہروں کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ دونوں احتجاج سیکولر ہیں اور دنیا میں پھیلتے اور مستحکم ہوتے ہوئے سیکولر کلچر کی کامیابی کی علامات بھی ہیں۔ شاہ رخ خان کو اس آبرو باختہ معاشرے کا حصہ ہونے پر افسوس ہے اور مجھے دہلی کی 23 سالہ لڑکی پر ہونے والے ظلم کو خاموشی اور لاتعلقی سے دیکھنے والے معاشرے کا حصہ ہونے پر افسوس ہے۔ مجھے اس بات پر بھی افسوس ہے کہ ہمارا میڈیا اندھی قوم پرستی کے راستے پر چل رہا ہے جس کا مشاہدہ میں نے انڈیا میں ہونے والے پاک بھارت کرکٹ میچوں کے دوران ہمارے میڈیا کے رویے میں کیا۔ ہمارے میڈیا نے ان مقابلوں کو کفر اور ایمان کے مقابلے میں بدل کر رکھ دیا، کیا میڈیا کے اکابرین اس ذہنیت کے تباہ کن اثرات سے بے بہرہ ہیں؟
Load Next Story