کبھی کبھی جیتنے کے لیے

ہم جیتے ہیں پھر بھی پال اور رچرڈسن کی وجہ سے انٹرنیشنل میڈیا کی آنے والی خبروں میں ہم برے ہی بنے۔

wabbasi@yahoo.com

MAKKAH:
پاکستانی کرکٹ میں کسی سے بھی ہارجائیں بس انڈیا سے نہیں ہارنا چاہیے، یہی ہے ہر پاکستانی کے دل کی آواز۔ہماری یہ دلی تمنا کچھ ہی دن پہلے پوری ہوئی، پاکستان انڈیا سے ہونے والی کرکٹ سیریز میں دو ایک سے جیت گیا۔

کراچی شہر میں دن دیہاڑے قتل ہورہے ہیں مجرم کے نام بدل کر دبئی بھاگنے کی خبریں پھیل رہی ہیں اور پاکستان کا نام پھر برے سسٹم کے ساتھ خبروں میں جوڑا جارہا ہے۔ ان سب خبروں کے باوجود قوم سب بھول کر خوشی منانے لگتی ہے جب بھی ٹی وی پر کرکٹ سے متعلق ہماری کوئی اچھی خبر چلتی ہے جیتنے کی خوشی میں کچھ دن بعد آپ کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہر کھلاڑی کے گھرکے باہر ایک اونٹ بندھا نظر آئے گا۔

نہیں وہ کوئی قربانی کا جانور نہیں، جیت کی خوشی میں ان کے لیے تحفہ ہے،صوبائی وزیر بلوچستان برائے پل اور شاہراہ جناب حاجی علی مدد جتک نے پاکستانی ٹیم کے ہر کھلاڑی کو جیتنے کی خوشی میں ایک ایک اونٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک انوکھا تحفہ ہے مگر ٹی وی پر کھلاڑیوں کی پرفارمنس دیکھ کر وہ اتنے خوش ہوئے کہ یہ تحفہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ہی کھلاڑیوں کو اپنا اپنا اونٹ لینے کے لیے ان کے پاس نہیں آنا ہوگا بلکہ وہ خود ان تک اونٹ پہنچائیں گے۔

پاکستان کے ساتھ کچھ اچھا ہو اور پھر بھی ہم پر انگلیاں نہ اٹھیںایسا تو ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے سیریز جیتنے کے کچھ دن بعد اونٹ سے اترنے کا وقت آگیا اور اس کی وجہ ہے بیگانی شادی میں ''پال'' دیوانہ۔ انگلینڈ کے پرانے کرکٹر پال نکسن نے خوامخواہ گھر بیٹھے پاکستان انڈیا کے بیچ میچ دیکھتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھ دیا کہ یہ میچ تو فکس ہے جب کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ دعوے سے اپنی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان خود جان کر میچ ہارگیا جو سب کو نظر آرہا تھا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انڈیا سارے میچ ہار جائے تو برا لگے گا اس لیے انھوں نے پاکستان سے آخری میچ فکس کرلیا اور پال نے خود بھی انڈیا پر ہی پیسے لگائے ہیں۔

پال نے تو بلا سوچے سمجھے جو دل میں آیا انٹرنیٹ پر لکھ دیا لیکن بجلی تو ہم پر گرے گی ہمارے معصوم کھلاڑی تو ابھی گھر آئے ہیں انھوں نے سوچا ہوگا کہ اونٹ اور گھر والوں کے ساتھ کچھ دن آرام کریں گے لیکن پال کے چکر میں برٹش کورٹ میں ان پر کوئی مقدمہ نہ دائر کردے۔

ہمارے سیکیورٹی انتظامات کے باوجود کچھ دن پہلے بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کردیا، وجہ؟ انھیں نہیں لگتا کہ پاکستان ان کے لیے محفوظ ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیچ تاریخ سے تو سب ہی واقف ہیں۔


کچھ سال پہلے ہمارا بنگلہ دیش جانا ہوا، ایک بڑے پریس کے مالک سے ہم نے پوچھا ''یہاں کوئی اردو اخبار نکلتا ہے؟'' جواب ملا ''اردو کا اخبار نکالنا ہوتا تو بنگلہ دیش کیوں بناتے؟'' جگہ جگہ ہمارے بنگالی دوست کہتے ''یہ نہ کہنا کہ تم پاکستان سے ہو'' اتنا ''پیار'' دیکھ کر ہم کو حیرت نہیں ہوئی کہ بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان نہیں آنا چاہتی اب وجہ کوئی بھی بہانہ بنے۔

دنیا میں کسی بھی کھیل میں کوئی ٹیم جیتتی ہے تو اس کی واہ واہ ضرور ہوتی ہے، ہمارے پاکستان کے کرکٹ کی تاریخ دیکھ کر اور ہمارے میچ جیتنے پر ہمیں یقین تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ضرور ٹیم کے بارے میں کہے گا کہ پاکستان نے ہمیشہ سے بہترین کرکٹرز پیدا کیے ہیں اور ان میچز کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی ٹیم پھر تاریخ دوہرا سکتی ہے لیکن نہیں آئی سی سی کے پاس ٹیم کی تعریف کے لیے دو جملے بھی نہیں تھے۔

2009ء میں پاکستان آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تھا جس کے بعد پاکستان میں آج تک کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم ٹیسٹ میچز کے لیے نہیں آئی ہے، انڈیا نے ہمارا انوی ٹیشن ٹھکرادیا ساتھ ہی 2011 کے ٹیسٹ میچز میں بھی ہمیں میزبانی کا موقع نہیں ملا لیکن اس سے زیادہ دکھ ہمیں اس بات کا ہے کہ آئی سی سی کو آج بھی ہم پر بالکل اعتماد نہیں ہے جب کہ ہم نے سیکیورٹی کے کئی نئے انتظامات اپنے پلان میں پیش کیے جس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

انڈیا میں فائنلز کے بعد دلی میں آئی سی سی کے چیئرمین ڈیو رچرڈ سن پریس سے پاکستان کی پرفارمنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے اور وہاں کسی بھی ٹیم کا آج جاکر میچ کھیلنا خطرناک ہے۔ انھوںنے مزید کہا کہ پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے جن پر قابو پانے کے لیے انھیں ابھی بہت کام کرنا پڑے گا ۔اپنے ملک میں انٹرنیشنل ٹیمز کو بلانے کے لیے ہمیں لگا تھا کہ چیئرمین صاحب ہماری شان میں قصیدے پڑھیں گے لیکن انھیں ہمارا سب سے آگے اور تیز دوڑنا نہیں بلکہ صرف ہمارے پھٹے جوتے نظر آئے۔

آئی سی سی چیئرمین کو شاید یہ نہیں پتہ کہ پچھلے سال پاکستان کئی انٹرنیشنل ٹیمز کے لیے میچز کی میزبانی کرچکا ہے جسے برٹش یونیورسٹی ٹیم لاہور میں اور راولپنڈی میں برٹش آرمی ٹیم کھیل چکی ہے جو ہماری سیکیورٹی سے بہت خوش تھے۔ اس کے علاوہ ورلڈ الیون ٹیم جس میں ساؤتھ افریقہ، ویسٹ انڈیز اورسری لنکا کے بڑے کھلاڑی جیسے جے سوریا شامل تھے کراچی آئے تھے اور حفاظتی انتظامات سے پوری طرح مطمئن اور خوش تھے۔

انٹرنیشنل میڈیا میں بڑی بڑی خبریں لگیں کہ ''پاکستان کرکٹ کے لیے غیر محفوظ ہے'' جب کہ تھوڑی سی ریسرچ کرنے پر پتہ لگتا ہے پرانے کھلاڑی رچرڈ جو اب آئی سی سی کے چیئرمین ہیں کے بارے میں رپورٹس ہیں کہ وہ انڈیا کے اس ایجنڈے میںساتھ دے رہے ہیں کہ پاکستان سے کرکٹ ختم ہوجانی چاہیے لیکن پچھلے ہفتے آنے والی خبروں میں اس بات کا ذکر نہیں تھا۔

ہم جیتے ہیں پھر بھی پال اور رچرڈسن کی وجہ سے انٹرنیشنل میڈیا کی آنے والی خبروں میں ہم برے ہی بنے۔ چلیے شاہ رخ خان کی مشہور فلم ''بازی گر'' کے ڈائیلاگ کو سوچ کر اس بات کو جانے دیتے ہیں کہ ''کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا بھی پڑتا ہے۔''
Load Next Story