کچھ دو کچھ لو کی پالیسی پر گامزن سیاستدان

المیہ یہ کہ سیاستدان اپنے سیاسی حریف کی بدعنوانی کو عوام کے سامنے لاکر اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں کچھ دو کچھ لو کا اصول گزشتہ کئی برسوں سے رائج ہے اور کچھ لوگوں کو زہر کے بجائے میٹھا دے کر مارا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR:
سال 2003ء کی بات ہے جب میں اپنے خالو صوبیدار (ر) محمد یٰسین کے توسط سے نمازِ تراویح میں قرآن پاک سنانے پاک فوج کی ایک یونٹ کی مسجد میں امامت کے لئےمقرر کیا گیا۔ اب چونکہ پورا قرآن پاک سنانا تھا اِس لئے خالو کے مشورے کے بعد میں نے اعتکاف میں بیٹھنے کا ارادہ کرلیا۔ 29 واں روزہ رمضان المبارک کا آخری روزہ قرار پایا اور مجھے لینے اور حوصلہ افزائی کرنے خالو اور اُن کے بچوں کے ہمراہ اُن کی یونٹ کے درجنوں افراد پھولوں کے ہار لئے تشریف لائے۔

مجھے سیگریٹ کی لت لگے ہوئے 2 سال ہوچکے تھے، اِس لئے تقریباً 9 دن کے طویل انتظار کے بعد سگریٹ کی شدید طلب نے مجھے بے چین کررکھا تھا۔ میں نے اپنے کزن (وسیم) کو سگریٹ لانے کا اشارہ کیا۔ میرے اِس مطالبے پر وسیم نے حیرت سے میرے منہ کی جانب دیکھا اور دوبارہ پوچھا سگریٹ؟ میں نے کہا ہاں یار! یہ بات کسی کو مت بتانا مجھے سگریٹ پیتے ہوئے 2 سال ہوگئے اور مجھے مبارکباد دینے والے مہمانوں کی مسلسل آمد کی وجہ سے میں کہیں جا بھی نہیں سکتا، بہرحال وسیم اپنی ہی جیب خرچ سے سگریٹ لے آیا اور مجھے خاموشی سے وہ سگریٹ تھما دی، میں بہانے سے باہر نکلا اور وسیم کے ساتھ یونٹ میں واقع گراؤنڈ میں جاکر سگریٹ کے کش لگائے اور ایک لمبی سی آہ بھری۔ وسیم مجھے حیرت سے دیکھتا رہا اور میں کش پر کش لگاتے ہوئے سگریٹ کی تعریفوں کے پُل باندھتا چلا گیا۔

اب مجھے اِس بات کا پوری طرح سے یقین تھا کہ میرا کزن میری شکایت اپنے ابو سے ضرور کرے گا اور وہ مجھ پر خود سختی کرنے کے ساتھ ساتھ میرے گھر والوں کو بھی بتا دیں گے۔ اِس ڈر کو دور کرنے کے لئے میں نے سیگریٹ وسیم کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایک کش لگا کر دیکھو کیا ذائقہ اور کیا مزا ہے۔ اُس کے بار بار منع کرنے کے باوجود میں نے اُسے سگریٹ تھما ہی دی اور اُس سے ایک کش بھی لگوا دیا جس کے بعد میں بلاخوف گھر واپس آگیا۔ قصہ مختصر کہ اب یہ راز صرف میرے اور وسیم کے درمیان تھا اور مکمل طور پر دب چکا تھا۔

یہ واقعہ مجھے ایک ہفتے سے مسلسل ستا رہا تھا اور وجہ یہ تھی کہ 16 مارچ کو الیکشن کمیشن نے عمران خان اور اُن کی جماعت کے رہنما جہانگیر ترین کے خلاف دائر ریفرنس کو نہ صرف خارج کردیا بلکہ اُسے ناقابل سماعت بھی قرار دے دیا۔ اِس فیصلے کے بعد 20 مارچ کو پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور علامہہ حامد سعید کاظمی کو بھی باعزت بری کردیا گیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل میمن کو بھی ضمانت مل گئی، اور چند ہی منٹوں کے فرق سے ایک فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے حلقے این اے 110 میں دوبارہ الیکشن کرانے کی تحریک انصاف کی نظرِ ثانی کی درخواست مسترد کردی۔

یہ تمام تر صورتحال دیکھتے ہوئے مجھے ایک کالم یاد آگیا جو غالباً 2014ء میں پڑھا تھا جس میں بتایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے جب ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو پیپلزپارٹی کی جانب سے سید خورشید شاہ کو قائد حزب اختلاف مقرر کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاسوں میں سے ایک اجلاس میں اپوزیشن لیڈر نے دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے یہ راز بھی افشاں کردیا کہ نئی حکومت نے اپنے من پسند لوگوں کو بیوروکریٹ تعینات کیا ہے، جس پر تمام ارکان قومی اسمبلی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور سب حکومتی جماعت کے ارکان کا منہ دیکھتے اور حکومتی ارکان منہ چھپاتے دکھائی دیئے۔ چند دنوں بعد ہی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور حکومتی وزراء کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں قائد حزبِ اختلاف سے وعدہ کیا گیا کہ آپ اپنی پسند کے چند افراد کا نام فائنل کریں ہم انہیں بھی بیورکریٹس کی فہرست میں شامل کرلیں گے، جس کے بعد یہ معاملہ بالکل اُسی طرح دب گیا جس طرح میرے سگریٹ پینے کا راز میرے کزن کے سینے میں دفن ہوگیاتھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لبوں پر یہ راز لانے سے قاصر رہا۔


پاکستانی سیاست میں کچھ دو کچھ لو کا اصول گزشتہ کئی برسوں سے رائج ہے اور کچھ لوگوں کو زہر کے بجائے میٹھا دے کر مارا جاتا ہے۔ اب بہت سے فیصلوں کی طرح سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت پاناما کیس کا اہم فیصلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے جس پر پوری قوم خصوصاً اپوزیشن کی نظریں جمی ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ جیت جس کی بھی ہوگی وہ اس فیصلے کے سہارے آئندہ عام انتخابات میں ضرورمستفید ہوگا۔

یہ ایک المیہ ہے کہ سیاستدان اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے اور رسوا کرنے کے لئے اُن کی بدعنوانی کو عوام کے سامنے لاکر عوام کی حمایت حاصل کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بنا لیتا ہے لیکن جوعوام اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح محروم ہی رہتے ہیں اور نئے انتخابات اور نئے حکمران کا انتظار کرتے رہتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اپوزیشن یہ خواہش دل میں لئے بیٹھی ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ حکومت ختم ہو اور اقتدار کا منصب ہمارے ہاتھ آجائے۔

اپوزیشن کو چاہیئے کہ وہ سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن کے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاناما کیس کے فیصلے پر سیاست اور فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے باقی مانندہ سوا سال اپنی تمام ترتوجہ تن دہی کے ساتھ عوامی مسائل پر دے کیوں کہ اقتدار کی کُنجی عوامی حمایت سے حاصل ہوتی ہے، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔

Load Next Story