ورلڈکپ فتح کی ’’خاموش‘‘سلور جوبلی

آخر میں ملبہ ناصر جمشید پر گراکر کہا جائے گا کہ ’’وہی ماسٹر مائنڈ تھا مگر برطانیہ میں رہتا ہے ہم واپس نہیں لا سکتے‘‘


Saleem Khaliq March 25, 2017
آخر میں ملبہ ناصر جمشید پر گراکر کہا جائے گا کہ ’’وہی ماسٹر مائنڈ تھا مگر برطانیہ میں رہتا ہے ہم واپس نہیں لا سکتے‘‘ . فوٹو : فائل

ان دنوں کراچی کے حالات اچھے نہیں تھے مگر بعض لحاظ سے اچھے بھی تھے، شاید آپ کی سمجھ میں یہ بات نہ آئے اس لیے میں وضاحت کر دیتا ہوں، حالات خراب اس لحاظ سے تھے کہ فائرنگ وغیرہ معمول کی بات تھی، روز اموات ہوتی تھیں، کرفیو بھی لگتا تھا جس کی وجہ سے کئی بار ہمارے اسکولز بھی بند ہو جاتے تھے، حالات اچھے اس لحاظ سے تھے کہ ہم بلاخوف وخطر راتوں کو بھی کرکٹ، بیڈمنٹن، فٹبال سمیت کئی کھیل کھیلتے تھے،کرفیو کے وقت بھی بچ بچا کے کھیل جاری رہتے، والدین کو یہ خوف نہ تھا کہ ان کا بچہ اغوا ہو جائے گا، محلے دار مل جل کر رہتے تھے، اب ایسا نہیں ہے، رات تو دور کی بات ہے دن میں بھی لوگ اپنے بچوں کو کھیلنے کیلیے گھر سے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں، اسی لیے وہ آئی فون یا آئی پیڈ پر تمام گیمز کھیلتے ہیں،خیر میرے ذہن میں 1992 کے ان دنوں کی یادیں بالکل تازہ ہیں، سحری کے بعد سونے کے بجائے ہم میچز دیکھتے تھے،میں اس وقت میٹرک کا طالبعلم تھا، اب دنیا بھر میں کرکٹ کور کر چکا، میبلورن گراؤنڈ جہاں فائنل ہوا وہاں بھی کئی بار گیا، مگر جتنا لطف ورلڈکپ 1992کے میچزٹی وی پر دیکھنے میں آیا تھا پھر کبھی نہ آیا، اس وقت ٹیم میں ایک جوش و جذبہ تھا، ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی کہ وہ ملک کیلیے کچھ کر دکھائے۔

عمران خان کی قیادت کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا مگر ساتھ ہی جاوید میانداد کے قیمتی مشورے بھی ان کے بیحد کام آتے تھے، انضمام الحق اسی ایونٹ سے ابھر کر سامنے آئے، جب پاکستان نے ورلڈکپ جیتا تو پورا ملک ایک ہو گیا،سب نے بھرپور خوشیاں منائی تھیں، مگر افسوس وہ کارکردگی دوبارہ سامنے نہ آ سکی،ہم پھر چیمپئن نہ بنے اور اس بات کو بدقسمتی سے 25 برس بیت چکے ہیں،ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ایک فتح ضرور ملی مگر وہ ون ڈے ورلڈکپ کے برابر کی نہیں کہی جا سکتی، کرپشن، کھیل میں سیاست ، عمران خان جیسے مضبوط قائد کا نہ ملنا سمیت کئی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہم کرکٹ میں بہت پیچھے چلے گئے، مجھے ڈر ہے کہ آج جو کہانی میں نے آپ کو سنائی شاید 25،30 سال بعد میرا بیٹا یا بیٹی کسی کو بتا رہے ہوں گے کہ '' ہمارے بابا نے پاکستانی ٹیم کو کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنتے دیکھا تھا اور سننے والے حیرت سے منہ تک رہے ہوں گے کہ اچھا ایسا بھی کبھی ہوا تھا''۔ جس طرح ہماری کرکٹ زوال کا شکار ہو رہی ہے اس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ہاکی کی طرح کرکٹ میں بھی پرانے کارناموں کی یادیں تازہ کرکے ہی خوش ہوا جائے گا، اب بتائیں کسی نے سوچا تھا کہ ماضی کی ورلڈ چیمپئن ٹیم اب اس حال میں پہنچ جائے گی کہ ورلڈکپ 2019میں شرکت کیلیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑ سکتا ہے۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ عمران خان یا میانداد کے دل پر کیا بیتتی ہو گی، پی سی بی میں سیاست اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ ورلڈ کپ فتح کی سلور جوبلی پر کوئی پروگرام ہی ترتیب نہیں دیا گیا، بورڈ کے اصل چیئرمین نجم سیٹھی کو خطرہ ہے کہ اس طرح ان کے ''باسز'' کے سیاسی حریف عمران خان کو فائدہ پہنچے گا، ان کی عزت افزائی کرنے سے سب کے دلوں میں ورلڈکپ کی فتح دوبارہ سے تازہ ہو جائے گی،ایک چھوٹی سی تقریب ہی کر لیتے جہاں پی سی بی اپنے ملازمین کو ان کی اہلیت سے زیادہ تنخواہیں بانٹ رہا ہے، وہیں ورلڈکپ کے ہیروز کو بلا کر ایک میڈل ہی پہنا دیتے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قذافی اسٹیڈیم میں شائقین کے سامنے جشن منایا جاتا،کھلاڑی گاڑی میں بیٹھ کر گراؤنڈ کا چکر لگاتے، دور کیوں جائیں سری لنکا نے گزشتہ برس ورلڈکپ جیتنے کی20 ویں سالگرہ پر تقریب سجائی تھی جس میں تمام پلیئرز شریک ہوئے تھے، جب ویسٹ انڈیز میں سیریز کیلیے اسپانسرز مل سکتے ہیں تو پی سی بی اس تقریب کیلیے بھی ڈھونڈ لیتا، مگر افسوس سیاسی وجوہات کی بنا پر ایسا نہ کیا گیا، بس سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چند ویڈیوز و پیغامات شیئر کر کے ذمہ داری مکمل ہونے کا سمجھ لیا گیا۔

اسی طرح گزشتہ دنوں پی ایس ایل کے ساتھ ہوا تھا ، وہ پاکستان کا ایونٹ ہے مگر کئی بااثر لوگ اسے اپنا نہیں سمجھتے وجہ نجم سیٹھی اور ان کی سیاسی وابستگی ہے شاید وہ نہ ہوں تو پی ایس ایل کی مخالفت ختم ہو جائے، ایونٹ کا فائنل لاہور میں ہوا، ڈیرن سیمی و چند دیگر غیرملکی کرکٹرز کھیلنے آئے مگر عمران خان نے اس لیے مخالفت کی کہ سیاسی حریف کو کریڈٹ جائے گا جنھوں نے نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ میں بٹھایا ہے، ماضی میں ایسا نہیں تھا ہم سب ایک ہو کر اپنی کرکٹ کو اون کرتے تھے،کرکٹ بورڈ سونے کی چڑیا ہے، اس میں ملازمت کیلیے لوگ کیا کچھ نہیں کرتے آپ کی سوچ ہو گی، نجم سیٹھی بھی کسی ملک میں سفیر وغیرہ بن کر جا سکتے تھے مگر انھوں نے پی سی بی کو ترجیح دی، شہریارخان دل کا آپریشن کرانے کے بعد بھی علامتی چیئرمین کی پوسٹ نہیں چھوڑ رہے، بس یہی کرکٹ بورڈ کا نشہ ہے، اس کی طاقت کے آپ عادی بن گئے تو حکومت جانے کے بعد ہی جاتے ہیں، چاہے اس دوران ملکی کرکٹ کا تیاپانچہ ہی کیوں نہ ہو جائے کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے آج کل اب دیکھ لیں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کو کتنا بدنام کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاملے کو جڑ سے ختم کیا جاتا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ تاخیری حربے اپنا کر مٹی ڈالی جا رہی ہے، آخر میں ملبہ ناصر جمشید پر گراکر کہا جائے گا کہ ''وہی ماسٹر مائنڈ تھا مگر برطانیہ میں رہتا ہے ہم واپس نہیں لا سکتے''۔

ایف آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کرنا چاہیں تو ''اوپر '' سے فون کروا کر اسے بھی روک دیا گیا، ایسی باتیں شکوک پیدا کرتی ہیں کہ آخر کیوں بورڈ حکام نہیں چاہتے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے،بہرحال اس وقت ہم کرکٹ میں کہاں کھڑے ہیں اس کا اندازہ ون ڈے میں بنگلا دیش کے بعد کی آٹھویں رینکنگ پوزیشن سے لگایا جا سکتا ہے، ٹیسٹ میں بھی اب چھٹے نمبر پر پہنچ چکے جب کہ ٹی ٹوئنٹی میں بھی یہی درجہ ہے، یقین مانیے یہ پاکستانی ٹیم کا اصل مقام نہیں، ہم ٹاپ تھری میں شامل رہا کرتے تھے مگر اب چھوٹی ٹیموں میں شمار ہو رہا ہے، اگر مسائل سے نکلنا ہے تو سب سے پہلے بورڈ سے سیاسی تقرریوں کا خاتمہ کر کے میرٹ پر لوگوں کو لانا ہو گا مگر ''آپس کی بات'' ہے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم ایسا نہیں کریں گے انھیں اگلے الیکشن بھی تو جیتنا ہیں لہذا آپ لوگ ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں