…اسے کیا کہیے
سو جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ بالآخر ان لوگوں نے گفت و شنید کے بعد دوبارہ ایک ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے
اشفاق احمد مرحوم کی اس بات پر ایک زمانے میں بہت تنقید کی گئی کہ ''پاکستان کو جتنا نقصان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا اتنا ان پڑھوں نے نہیں پہنچایا'' لیکن ایمانداری کی بات ہے کبھی کبھی اس پر یقین آنے لگتا ہے اور خاص طور پر اگر ان پڑھے لکھے لوگوں کا تعلق علم و ادب اور تعلیم و تدریس کے شعبوں سے ہو تو دل اور بھی برا ہوتا ہے۔ اتفاق سے گزشتہ چند دنوں میں اوپر تلے دو بار ایسا ہوا۔
پہلا واقعہ لاہور میں اور دوسرا کراچی میں پیش آیا ہے لیکن ان کے ذکر سے پہلے اسی سے ملتی جلتی بات آپ سے شیئر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ 1982ء میں پہلی بار بیرون وطن مقیم پاکستانی بھائیوں سے ملاقات کا موقع ملا جو اب اگرچہ ایک سنچری مکمل کرچکا ہے مگر نہ وہ بات بدلی ہے اور نہ ماحول اور نہ ہی اپنے زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی سوچ اور رویہ۔ ہوا یوں کہ کینیڈا، امریکا، انگلینڈ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جہاں کہیں بھی جانا ہوا پہلی خبر یہی ملی کہ ہمارے میزبانوں کے تعلقات اپنے شہر کے کن کن لوگوں اور تنظیموں سے کشیدہ بلکہ خط کشیدہ ہیں۔
بیک وقت حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ دیار غیر میں ہونے کے باوجود گنتی کے چند لوگ بھی آپس میں مل جل کر نہیں رہتے۔ یہ بات بھی ان ہی دنوں میں سننے میں آئی کہ وطن سے دور جہاں کہیں بھی دو ادیب یا ادب دوست اکٹھے ہوجائیں وہ تین ادبی تنظیمیں قائم کرتے ہیں۔ عرض کیا کہ دو آدمی تین تنظیمیں کیسے بناسکتے ہیں۔ جواب ملا کہ ایک تو وہ مل کر بناتے ہیں اور ایک ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں حلقہ ارباب ذوق کے دو دھڑے تین چار برس تک علیحدہ علیحدہ اجلاس کرنے کے بعد بالآخر کچھ احباب کی مساعی سے اکٹھے ہوگئے۔ اس طرح کا ایک تفرقہ ستر کی دہائی میں بھی پیدا ہوا تھا جب حلقہ پہلے سیاسی اور ادبی عرفیت کے دو حصوں میں بٹا اور پھر ادبی حصے کی ایک ذیلی تنظیم بھی کچھ عرصہ قائم رہی۔
اتفاق سے میں ان دنوں تقسیم سے پہلے بلکہ اس کے درمیان کے دنوں میں پہلے جائنٹ سیکریٹری اور پھر سیکریٹری تھا لیکن وہ تقسیم کسی نہ کسی طرح شخصیات سے کہیں زیادہ نظریات کی بنیاد پر تھی جب کہ چند برس قبل کی تقسیم کا معاملہ خالصتاً شخصی پسند نہ پسند اور دھڑے بازی کی وجہ سے تھا اور ظاہر ہے کہ حلقے کے پرانے ممبران مجھ سمیت اس صورتحال سے خاصے پریشان اور مایوس تھے اور دونوں دھڑوں کی قیادتوں کو اس نفاق اور افتراک سے بچنے اور اس تقسیم کو ختم کرنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔
سو جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ بالآخر ان لوگوں نے گفت و شنید کے بعد دوبارہ ایک ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو واقعی دلی خوشی ہوئی لیکن اب پتہ چلا ہے کہ کچھ احباب نے اس بات پر نالاں ہوکر کہ صلح صفائی کے اس عمل میں ان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ضروری تھی ایک بار پھر سے مشترکہ حلقے کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے ایک نئی متوازی تنظیم بنالی ہے۔ دونوں طرف سے دیے جانے والے دلائل کی بحث میں پڑے بغیر مجھ سمیت بہت سے پرانے اور سینئر اراکین حلقہ کا یہی خیال ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اچھا نہیں ہوا۔ اس معاملے کو مل جل کر باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ کراچی کے ساکنان شہر قائد سالانہ مشاعرے کے حوالے سے بھی کچھ اسی نوع کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ یہ اس تنظیم کے تحت ہونے والا پچیسواں یعنی سلور جوبلی مشاعرہ تھا جو اس کے اولین اور مستقل منتظم اظہر عباس ہاشمی مرحوم کے نام معنون کیا گیا تھا جن کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے اور جو بلاشبہ ایک بہت عمدہ انسان اور انتہائی ذہین اور ذمے دار منتظم تھے۔ معلوم ہوا کہ سیاسی حالات کی خرابی کے باعث دو برس کے تعطل کے بعد ترتیب دیے جانے والے مشاعرے سے متعلق کچھ نسبتاً جونیئر اور کم تجربہ کار احباب کے درمیان مہمان اور مقامی شعرا کے انتخاب کے ضمن میں اختلاف رائے ہوگیا جو بوجوہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
میں اس فیلڈ کے کم و بیش چالیس برس پر پھیلے ہوئے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسئلہ واقعی بہت سنگین اور پیچیدہ ہے کہ فی الوقت باقی کی اردو دنیا کو چھوڑ کر صرف پاکستان میں ہی کم و بیش ایک سو سے زیادہ مختلف ایج گروپس کے ایسے شاعر موجود ہیں جو ہر اعتبار سے کسی بھی بڑے مشاعرے میں مدعو کیے جانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ایک اچھے اور بڑے مشاعرے میں آپ زیادہ سے زیادہ 25 شاعروں کو پڑھوا سکتے ہیں کہ آج کے سامع کے پاس ایک ہی رو میں کسی بہت ہی پسندیدہ محفل میں بیٹھنے کے لیے تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں ہوتا۔
ساکنان شہر قائد کے منتظمین اپنے شہر کی آبادی اور عمدہ شعری ذوق کے حامل خواتین و حضرات کے مشاعرے سے غیر معمولی دلچسپی کے باعث کسی نہ کسی طرح اس تعداد کو چالیس پینتالیس شعراء اور پانچ سے چھ گھنٹے تک کھینچ لیتے ہیں مگر اس کے باوجود تقریباً ساٹھ ستر معقول حد تک اچھے شاعر منتخب ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کچھ لوگ دوست نوازی، دھڑے بندی یا چودھراہٹ کے شوق کی وجہ سے اپنی اپنی لسٹیں بنانا شروع کردیں تو بات اور بھی بگڑ جاتی ہے۔
سو ہم نے دیکھا کہ اس بار یہ معاملہ فیس بک وغیرہ پر بہت غلط انداز میں اچھالے جانے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی افواہوں اور غلط بیانیوں کے غبار میں بھی اس حد تک اٹ گیا کہ صفوان صاحب جیسے انتہائی معتدل، بے لوث، سینئر اور مقتدر دوست بھی اس کی زد میں آگئے۔
عین ممکن ہے کہ جن احباب نے احتجاج اور بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ان کی باتوں میں بھی وزن ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی بات کو بوجوہ صحیح طرح سے سنا یا سمجھا نہ گیا ہو مگر جس طرح سے اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا وہ اہل کراچی اور ساکنان شہر قائد مشاعرے کے تمام متعلقین کے لیے بالخصوص اور زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے تمام ہم وطنوں کے لیے بالعموم ایک بہت افسوسناک صورت حال تھی کہ اگر اہل ادب اپنے معاملات کو اس طرح سے چلائیں گے تو پھر اہل سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح کون کرے گا۔
پہلا واقعہ لاہور میں اور دوسرا کراچی میں پیش آیا ہے لیکن ان کے ذکر سے پہلے اسی سے ملتی جلتی بات آپ سے شیئر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ 1982ء میں پہلی بار بیرون وطن مقیم پاکستانی بھائیوں سے ملاقات کا موقع ملا جو اب اگرچہ ایک سنچری مکمل کرچکا ہے مگر نہ وہ بات بدلی ہے اور نہ ماحول اور نہ ہی اپنے زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی سوچ اور رویہ۔ ہوا یوں کہ کینیڈا، امریکا، انگلینڈ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جہاں کہیں بھی جانا ہوا پہلی خبر یہی ملی کہ ہمارے میزبانوں کے تعلقات اپنے شہر کے کن کن لوگوں اور تنظیموں سے کشیدہ بلکہ خط کشیدہ ہیں۔
بیک وقت حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ دیار غیر میں ہونے کے باوجود گنتی کے چند لوگ بھی آپس میں مل جل کر نہیں رہتے۔ یہ بات بھی ان ہی دنوں میں سننے میں آئی کہ وطن سے دور جہاں کہیں بھی دو ادیب یا ادب دوست اکٹھے ہوجائیں وہ تین ادبی تنظیمیں قائم کرتے ہیں۔ عرض کیا کہ دو آدمی تین تنظیمیں کیسے بناسکتے ہیں۔ جواب ملا کہ ایک تو وہ مل کر بناتے ہیں اور ایک ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں حلقہ ارباب ذوق کے دو دھڑے تین چار برس تک علیحدہ علیحدہ اجلاس کرنے کے بعد بالآخر کچھ احباب کی مساعی سے اکٹھے ہوگئے۔ اس طرح کا ایک تفرقہ ستر کی دہائی میں بھی پیدا ہوا تھا جب حلقہ پہلے سیاسی اور ادبی عرفیت کے دو حصوں میں بٹا اور پھر ادبی حصے کی ایک ذیلی تنظیم بھی کچھ عرصہ قائم رہی۔
اتفاق سے میں ان دنوں تقسیم سے پہلے بلکہ اس کے درمیان کے دنوں میں پہلے جائنٹ سیکریٹری اور پھر سیکریٹری تھا لیکن وہ تقسیم کسی نہ کسی طرح شخصیات سے کہیں زیادہ نظریات کی بنیاد پر تھی جب کہ چند برس قبل کی تقسیم کا معاملہ خالصتاً شخصی پسند نہ پسند اور دھڑے بازی کی وجہ سے تھا اور ظاہر ہے کہ حلقے کے پرانے ممبران مجھ سمیت اس صورتحال سے خاصے پریشان اور مایوس تھے اور دونوں دھڑوں کی قیادتوں کو اس نفاق اور افتراک سے بچنے اور اس تقسیم کو ختم کرنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔
سو جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ بالآخر ان لوگوں نے گفت و شنید کے بعد دوبارہ ایک ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو واقعی دلی خوشی ہوئی لیکن اب پتہ چلا ہے کہ کچھ احباب نے اس بات پر نالاں ہوکر کہ صلح صفائی کے اس عمل میں ان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ضروری تھی ایک بار پھر سے مشترکہ حلقے کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے ایک نئی متوازی تنظیم بنالی ہے۔ دونوں طرف سے دیے جانے والے دلائل کی بحث میں پڑے بغیر مجھ سمیت بہت سے پرانے اور سینئر اراکین حلقہ کا یہی خیال ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اچھا نہیں ہوا۔ اس معاملے کو مل جل کر باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ کراچی کے ساکنان شہر قائد سالانہ مشاعرے کے حوالے سے بھی کچھ اسی نوع کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ یہ اس تنظیم کے تحت ہونے والا پچیسواں یعنی سلور جوبلی مشاعرہ تھا جو اس کے اولین اور مستقل منتظم اظہر عباس ہاشمی مرحوم کے نام معنون کیا گیا تھا جن کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے اور جو بلاشبہ ایک بہت عمدہ انسان اور انتہائی ذہین اور ذمے دار منتظم تھے۔ معلوم ہوا کہ سیاسی حالات کی خرابی کے باعث دو برس کے تعطل کے بعد ترتیب دیے جانے والے مشاعرے سے متعلق کچھ نسبتاً جونیئر اور کم تجربہ کار احباب کے درمیان مہمان اور مقامی شعرا کے انتخاب کے ضمن میں اختلاف رائے ہوگیا جو بوجوہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
میں اس فیلڈ کے کم و بیش چالیس برس پر پھیلے ہوئے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسئلہ واقعی بہت سنگین اور پیچیدہ ہے کہ فی الوقت باقی کی اردو دنیا کو چھوڑ کر صرف پاکستان میں ہی کم و بیش ایک سو سے زیادہ مختلف ایج گروپس کے ایسے شاعر موجود ہیں جو ہر اعتبار سے کسی بھی بڑے مشاعرے میں مدعو کیے جانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ایک اچھے اور بڑے مشاعرے میں آپ زیادہ سے زیادہ 25 شاعروں کو پڑھوا سکتے ہیں کہ آج کے سامع کے پاس ایک ہی رو میں کسی بہت ہی پسندیدہ محفل میں بیٹھنے کے لیے تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں ہوتا۔
ساکنان شہر قائد کے منتظمین اپنے شہر کی آبادی اور عمدہ شعری ذوق کے حامل خواتین و حضرات کے مشاعرے سے غیر معمولی دلچسپی کے باعث کسی نہ کسی طرح اس تعداد کو چالیس پینتالیس شعراء اور پانچ سے چھ گھنٹے تک کھینچ لیتے ہیں مگر اس کے باوجود تقریباً ساٹھ ستر معقول حد تک اچھے شاعر منتخب ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کچھ لوگ دوست نوازی، دھڑے بندی یا چودھراہٹ کے شوق کی وجہ سے اپنی اپنی لسٹیں بنانا شروع کردیں تو بات اور بھی بگڑ جاتی ہے۔
سو ہم نے دیکھا کہ اس بار یہ معاملہ فیس بک وغیرہ پر بہت غلط انداز میں اچھالے جانے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی افواہوں اور غلط بیانیوں کے غبار میں بھی اس حد تک اٹ گیا کہ صفوان صاحب جیسے انتہائی معتدل، بے لوث، سینئر اور مقتدر دوست بھی اس کی زد میں آگئے۔
عین ممکن ہے کہ جن احباب نے احتجاج اور بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ان کی باتوں میں بھی وزن ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی بات کو بوجوہ صحیح طرح سے سنا یا سمجھا نہ گیا ہو مگر جس طرح سے اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا وہ اہل کراچی اور ساکنان شہر قائد مشاعرے کے تمام متعلقین کے لیے بالخصوص اور زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے تمام ہم وطنوں کے لیے بالعموم ایک بہت افسوسناک صورت حال تھی کہ اگر اہل ادب اپنے معاملات کو اس طرح سے چلائیں گے تو پھر اہل سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح کون کرے گا۔