ماڈرن گداگر…

اگر ایسا ہی مسئلہ ہے تو آپ میرے ساتھ چلیں


Shirin Hyder March 26, 2017
[email protected]

''السلام علیکم باجی!'' میں نے سلام کا جواب دے کر اس اچھے خاصے پینٹ میں ملبوس نوجوان کو دیکھا- وہ میرے گاڑی پارک کرنے کے دوران ہی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا،اس قدر قریب کہ جہاں چھٹی حس خطرے کے نشان کو چھونے لگتی ہے-

'' ذرا سا ہٹیں بیٹا... '' ذرا خوف کا غلبہ کم ہوا، دماغ کسی مشکل صورت حال کا سگنل دینے لگا- میں نے اپنے کندھے پر لٹکتے ہوئے بیگ کو مضبوطی سے تھام لیا، متجسس نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید اس کا کوئی اور ساتھی بھی ہو یا کسی ممکنہ خراب صورت حال میں میرے لیے مدد کرنے کو کوئی نفس، ''کیا بات ہے؟''

''آپ کی گاڑی صاف کردوں باجی؟'' اس نے اپنے ہاتھ میںپکڑے ہوئے کپڑے کو سامنے کیا-

''نہیں بیٹا، گاڑی صاف ہی ہے میری اور ابھی جانے اس نے کتنا مزید گرد آلود ہونا ہے... '' اس کے تقریبا سیاہ ہوتے ہوئے کپڑے کو دیکھ کر میں نے کہا، ''آپ ویسے خیال رکھنا... ''

''اگر گاڑی صاف نہیں کروانا ہے باجی تو پھر مجھے روٹی کھانے کے لیے کچھ پیسے ہی دے دیں... '' اس نے لہجے میں دنیا بھر کی لجالت سموئی، ''یا پھر وہ سامنے ہوٹل سے روٹی لے دیں، چاہے صرف روٹی ہی لے دیں!!''

''مانگ کیوں رہے ہو بیٹا؟'' میں نے اسے سمجھانا چاہا، ''آپ سے کہا ہے کہ آپ گاڑی کا دھیان رکھیں، میں واپسی پر آپ کو روٹی کے پیسے دیتی ہوں!!''

''باجی میری کچھ مدد کردیں... اپنا بھائی سمجھ کر!!'' اس نے اصرار کیا-

'' ابھی تو روٹی کا وقت بھی نہیں ہوا بیٹا... آپ ذرا صبر کر لو!!'' میں نے اس سے کہا اور چل دی- اسے میں نے اس کی منت سماجت کے با وجود کچھ نہیں دیا کیونکہ مجھے ارد گرد کچھ اور اسی نوعیت کے لوگ بھی نظر آ رہے تھے... جونہی آپ کسی ایک مانگنے والے کو کچھ دیتے ہیں وہ برساتی کیڑوں کی طرح جانے کہاں کہاں سے نکل کر سامنے آ جاتے اور آپ کا طواف کرنے لگتے ہیں- ان ہی میں سے کوئی نہ کوئی ایسا بھی نکل آیا ہے جو کہیں موقع دیکھ کر واردات کر دیتا ہے- ''بیٹا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟'' میں نے اس معزز خاتون کی طرف دیکھا، جن کے کندھے پر بڑا سا بیگ لٹک رہا تھا-''جی جی آنٹی، کیوں نہیں!!'' میں نے ذرا سا کھسک کر ان کو جگہ دی، ''بیٹھیں آپ... ''

'' کس کے لیے جوتے لے رہی ہو؟ '' انہو ں نے غالبا بات برائے بات کے لیے سوال کیا تھا-''ظاہر ہے کہ اپنے لیے آنٹی، جوتے تو ہر کوئی اپنے لیے ہی خریدتا ہے... ''

'' ضروری تو نہیں بیٹا، میں تو اپنی بیٹی کے لیے جوتے لینے آئی ہوں ...''

'' اوہ اچھا... '' میں نے کہا، ''ویسے بہتر ہوتا کہ آپ اسے ساتھ لے کر آتیں، پاؤں میں خود پہن کر جوتا خریدنا چاہیے!!''

'' وہ تو میں بھی جانتی ہوں مگر میری بیٹی نہیں آ سکتی!!''

'' اچھا مصروف ہے یا کہیں باہر ہوتی ہے؟ '' میں نے اپنے پاؤں میں جوتا پہنا جو کہ دکاندار نے لا کر دیا تھا-

'' بہت اچھا لگ رہا ہے تمہارے پاؤں پر یہ جوتا!! '' انھوں نے تعریف کی تو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا، '' وہ معذورہے اس لیے نہیں آ سکتی... چوبیس سال کی ہے!!'' انھوں نے بتایا تو میری عجیب سی کیفیت ہوئی-

'' اوہو... '' میں نے تاسف سے کہا، '' کب سے ہے ایسا، کیا وہ پیدائشی معذور ہے؟ ''

'' نہیں بیٹا... اچھی خاصی تھی، اس کی شادی ہونے والی تھی چند ماہ کے بعد، یونیورسٹی جاتی تھی، بس سے اترتے ہوئے پیچھے سے تیز رفتاری سے آنے والی ویگن کے پہیوں کی زد میں اس کی دونوں ٹانگیں آ گئیں... '' انھوں نے بیگ سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے، میں تو ہر ممکن علاج کروا رہی ہوں ، ڈاکٹر کہتا ہے کہ آٹھ گھنٹوں کی سرجری ہو گی اور وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہو سکے گی، چل سکے گی، اس کی متاثرہ نسیں اور ہڈیاں سب قابل علاج ہیں... ''

'' چلیں یہ بھی اللہ کا شکر ہے... '' میں نے انھیں تسلی دی-

''اللہ کا شکر تو ہے مگر علاج کی سکت کہاں ہم میں... '' انھوں نے اور بھی شدت سے آنسو بہائے، '' کوئی آسرا بھی نہیں مجھ بیوہ اور اس یتیم کا، علاج کہاں سے ہو گا؟ ''

'' میں کوشش کرتی ہوں آنٹی اور بیت المال سے آپ کی مدد ضرور ہو گی، انشا اللہ...'' میں نے کہا، ''اور مجھے یہ بھی بتائیں کہ علاج کس ڈاکٹر سے ہو رہا ہے، آپریشن کس نے کرنا ہے، میں اس اسپتال کے زکوۃ فنڈ سے بھی آپ کی مدد کروا سکوں تو؟؟''

'' ارے نہیں بیٹا... میں زکوۃ سے اپنی بیٹی کا علاج کیوں کرواؤں گی، زیادہ تر رقم تو جمع ہو چکی ہے... چند ہزار کی کمی رہ گئی ہے، اگر تم کوئی پانچ ہزار روپے دے تو میں آج ا س کے کچھ ضروری ٹسٹ کرو ا سکوں گی!!''

'' پھر بھی آپ مجھے اس ڈاکٹر کا نام تو بتائیں... ''

'' چلو بیٹا اور کٗچھ نہیں تو ایک ہزار ہی دے دو!!'' ان کی التجا سے مجھے اندازہ وہ گیا تھا کہ وہ کیا اور کیوں کہہ رہی تھیں-

میں ٹیکسی کے انتظا ر میں سڑک کے کنارے کھڑی تھی، میرے ارد گرد اور لوگ بھی تھے جو بسوں، ویگنوں یا ٹیکسیوں کے انتظار میں کھڑے تھے... طویل انتظار سے تھک کر میں ایک بنچ پر بیٹھ گئی تھی جو انتہائی نازک حالت میں تھا-

''آپی میں آپ سے ایک ضروری بات کر سکتا ہوں؟ '' اس نوجوان نے مجھ سے سوال کیا ، جس کے ساتھ برقعے میں ملبوس ایک جوان سی لڑکی تھی،اس کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں جن سے وہ ایک خوبصورت لڑکی دکھائی دیتی تھی- ا س نے ایک بچی کو اٹھا رکھا تھا جس کے بال بھورے اور گھنگریالے تھے- میں نے اس کی طرف استفہامیہ نظر سے دیکھا ... ''میں لاہور سے تین دن قبل اسلام آباد آیا تھا آپی، کسی ملازمت کے لیے انٹرویو دینے- نہ مجھے وہ ملازمت ملی بلکہ الٹا میں اپنے بٹوے سے ہاتھ دھو بیٹھا، کل شام کو مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو واپسی تک بٹوے سے محروم ہو چکا تھا، اگر آپ کچھ مدد کردیں اور کچھ رقم دے دیں تو میں فیصل آباد پہنچتے ہی آپ کو آپ کی رقم منی آرڈر کر دوں گا!!''

'' اوہو... '' میں اس کی کہانی کو اس سے قبل بھی کئی بار کسی نہ کسی اور نوجوان سے سن چکی تھی، ''ملازمت کے لیے انٹرویو دینے کے لیے آتے ہوئے آپ کو اپنی بیٹی اور بیوی کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟''

'' میں تو نہ لاتا مگر اس کو بہت شوق تھا کہ اس نے ساتھ جانا ہے ... اسلام آباد دیکھنا ہے اور اس کے ایک ماموں بھی یہاں رہتے ہیں، ان کو ملنا تھا!!''

'' اچھا تو اس مصیبت میں آپ کی بیوی کے ماموں سے بڑ ھ کر کون مدد کر سکتا تھا؟ '' میں نے سوال کیا-

'' یہی تو مسئلہ ہے آپی، ان تین دنوںمیں ہم ان کی طرف گئے ہی نہیں!!''

'' تو آج چلے جائیں!'' میں نے فورا کہا، ان سے مل بھی لیں اور وہ آپ کی ہر ممکن مدد بھی کر دیں گے!''

'' ان کا ایڈریس میرے اسی بٹوے میں تھا آپی اور زبانی ہمیں معلوم ہی نہیں !!''

'' کوئی فون نمبر تو ہو گا نا؟ ''

'' وہ بھی میرے فون میں تھا... اور میرا فون کل ایک مارکیٹ میں کہیں کھو گیا ہے!!''

'' میرے فون سے فون کر کے فیصل آباد سے اپنے کسی رشتہ دور سے مدد مانگ لیں یا اپنے ماموں کا رابطہ نمبر منگوا لیں بیٹا!!''

'' میری عزت نفس کسی سے مانگنے کی اجازت نہیں دیتی آپی!!'' لڑکی کی آنکھوںمیں بھی یہ سن کر آنسو آ گئے تھے-'' مجھ سے مانگتے وقت آپ کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی؟ '' میں نے لڑکی کی طرف دیکھ کر سوال کیا-

'' آپ سے یونہی تو نہیں مانگ رہا آپی، آپ کے پاس میں اپنی گھڑی بطور ضمانت رکھواؤں گا اور آپ کی رقم میں فیصل آباد... ''

'' اور آپ سمجھ رہے ہو کہ میں آپ کی اس کہانی پر یقین کر لوں گی؟ اگر ایسا ہی مسئلہ ہے تو آپ میرے ساتھ چلیں، میں آپ کو فیصل آباد پہنچانے کا بندوبست کر دیتی ہوں ... '' ظاہر ہے کہ انھیں فیصل آباد تو جانا ہی نہ تھا، وہ دنیا بھر کی مظلومیت چہروں پر سجائے مجھ پر ایک دکھ بھری نظر ڈال کر چلے گئے... یہ صرف تین مثالیں ہیں اس وطیرے کی جو آج کل کے ماڈرن گداگروں نے اختیار کر رکھاہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں