سیاست کی خبر لیجے دہن بگڑا
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وطن پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس بیت گئے
زندگی کے ہر شعبے میں لفظوں کے انتخاب پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ الفاظ کا حسن انتخاب سامعین کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے جب کہ تندخوئی یا کرخت جملہ انسانوں کو انسانوں سے دورکرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
ملکی منظرنامے یا اس کی تاریخ پر اگر نگاہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست و قیادت میں ہمارے لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح قابل تقلید نمونہ ہیں۔ قائد اعظم نے کبھی اپنے بدترین مخالف کے بارے میں بھی کوئی اخلاق سے گرا یا نازیبا جملہ استعمال نہیں کیا، یہی طرز تکلم ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا بھی تھا۔ جہاں تک ہماری دینی سیاست کے قائدین کا تعلق ہے تو قیام پاکستان سے لے کر تقریباً 1970ء کی دہائی کے اواخر تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی ہمیشہ نہایت شستہ لب و لہجے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔
1950ء کی دہائی اس بات کی گواہ ہے کہ اس عشرے میں سیاست دانوں کے مابین ہر وقت ٹھنی رہتی تھی لیکن کیا مجال کہ کبھی کسی نے دوسرے کے خلاف کوئی اخلاقی و تہذیبی معیار سے گرا ہوا جملہ یا لفظ استعمال کیا ہو۔ افسوس آج کے کہنہ مشق سیاست دان بالعموم اور نوجوان سیاست دان بالخصوص یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر ان کی گفتگو جتنی تلخ، تیزوتند اورگالی گلوچ سے لبریزہوگی اتنی ہی ان کی ریٹنگ زیادہ ہوگی اور لوگ انھیں پسند کریں گے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں لوگ تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی گفتگوکو ناپسند کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑی پارٹی کے قائد نے وزیرداخلہ کو سطحی انداز سے مخاطب کرکے اپنے جھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
اسی طرح ایک اور سیاسی پارٹی کے سربراہ نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں انتہائی عامیانہ اور بڑی حد تک لچر باتیں کرکے اپنے سیاسی امیج کو پھر سے پامال کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف کامیاب کرکٹ وطن عزیز میں کھیلے جانے پر تنقید کی بلکہ ان دیار غیر کے کرکٹرز کو بھی حرف تنقید کا شکار بنایا جن کی اپنے ملک میں نہایت عزت و احترام ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے دو افراد کے درمیان پارلیمنٹ میں ہونے والی محاذ آرائی کس حد تک اور کہاں جاکر تھمی، یہ سب کا سب ہمارے طاقتورآئینی ایوانوں کے لیے شرمساری اور تذلیل کا باعث نہیں تو پھر اسے اورکیا نام دیا جاسکتا ہے؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان پوری قوم کے لیے لائق تقلید ہوتے ہیں، جن سے نوجوان نسل بالخصوص ادب لحاظ اوراخلاق سیکھتی ہے اور اس امر سے ہی صحت مند اور تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ وطن عزیزکا برسہا برس سے یہ المیہ چلا آرہا ہے کہ اس کی ملکی سیاست خطرناک اور شرمناک حد تک اپنی پستیوں کو چھو رہی ہے۔
قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی ہوں اورکوئی حساس جگہ سیاست میں مارپیٹ، دست وگریبان، گالی گلوچ اور ایک دوسرے پر سستے بازاری فقرے چست کرنا اہل ایوان کا معمول بن چکا ہے۔ ایوان کا مچھلی بازار بن جانا، اہم سرکاری دستاویزات یاکاغذات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اجلاس سے واک آؤٹ کر جانا، حساس ملکی مسائل پر آدھا سچ بولنا ملکی دستورکی صریحاً توہین اور تذلیل سے تعبیرکیا جاسکتا ہے اور اب تو پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے لبالب بھر چکی ہے۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وطن پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس بیت گئے لیکن ہمارے سیاست دانوں نے اپنے موقف یا ''سیاسی اظہار رائے'' کا فن اور اس کے لیے زبان کا استعمال اب تک نہیں سیکھا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعتوں میں کوئی اخلاقی حدود و قیود ہیں، نہ ہی ریفریشرکورسز اور اسٹڈی سرکلز کا انعقاد انھیں میسر آتا ہے یوں اوسط سے گری سیاسی کھیپ ہی برسہا برس سے سیاسی افق پر سامنے آرہی ہے۔ ہماری ملکی سیاست کے حرم کے ایک شیخ صاحب نے تو شاید بدزبانی میں ماسٹرکیا ہوا ہے، بعض اوقات تو وہ عوامی اور بازاری زبان میں فرق ہی بھول جاتے ہیں۔
ان کی سیاسی زیرکی اور طرز کا احترام اپنی جگہ لیکن بات جب زبان کے استعمال کی آتی ہے تو یہ سیاسی کارکنوں کے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیائے کرکٹ کے بہت بڑے اور بہت ہی اچھے کھلاڑی ملکی سیاست میں آکر آپے سے باہر ہوگئے ہیں اور جا بجا ان کی لاف زنی یا لن ترانیاں ان کی کرکٹ اور ان کے شفاخانے کی کی طرح بہت مشہور ہیں۔کاش ہماری ساری کی ساری سیاسی جماعتیں متفق اور یکجا ہوکر ''میثاق سیاسی اخلاقیات'' کا راستہ اختیارکرلیں تو اس ملک پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔
اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ کم بولنے میں عافیت ہے کیونکہ قلت عقل کا اندازہ کثرت کلام سے ہو جاتا ہے، ویسے بھی حضرت علیؓ کا آفاقی قول ہے زبان وہ درندہ ہے جسے اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ پھاڑ کھاتا ہے اور یہ کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے اور لب کشائی کرتے ہی وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
لاکھوں میل دور سمندرپار بیٹھے ایک رہنما جن کے ایک اشارے سے پورا کراچی بند ہوجاتا تھا اسی زبان کی وجہ سے سیاسی افق سے تحلیل ہوگئے، سندھ کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی اپنی زبان ہی کی وجہ سے اپنی ساکھ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے حال ہی میں وطن واپس پہنچے ہیں۔ اور پاکستانی سیاست میں ''تبدیلی'' لانے کا دعویٰ کرنے اور اس میں نئے کلچر کی بنیاد رکھنے والے ایک خان صاحب بھی آئے دن اپنی کڑوی زبان کے باعث تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور اپنی مقبولیت میں کمی کرتے جا رہے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ زبان ہی ہے جس کے نازیبا استعمال کی وجہ سے ملک میں نوے کی دہائی کی سیاست کی اصطلاح رائج پائی تھی اور آج بھی جب کوئی سیاسی پہلوان اپنے مدمقابل پر تنقید کے اوچھے داؤ پیچ مارتے ہوئے اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتا ہے تو اسے 1990ء کی دہائی کی سیاست کا طعنہ ہی دیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری تمام کی تمام سیاسی جماعتیں تاریخ سے کبھی سبق حاصل نہیں کرتی دیکھی گئیں یہی وجہ ہے کہ وہ مقدس لیکن طاقتور آئینی اداروں میں اپنے ہلکے اور بے خود و بے سدھ ہونے کا ثبوت دیتی نظر آتی ہیں اوراہل وطن کے ساتھ ساتھ غیر ممالک میں بھی اپنی تحقیر کا سبب خود ہی بنتی چلی آرہی ہیں۔
زبان و بیان کے حوالے سے ایک برہنہ سچائی یہ بھی ہے کہ تحمل، صبر اور برداشت صرف ہمارے سیاست دانوں میں ہی ختم نہیں ہوئی، ہمارا پورا معاشرہ ہی اس صفت سے محروم ہوگیا ہے۔ کوئی کسی کو ماننے یا تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے، نہ ہی کسی کی بات پرکان دھرنے پر آمادہ ہے، بس اپنی منشا اور اپنی ہی بات منوانا چاہتا ہے۔ ہر شخص جلدی میں ہے، ہرکوئی دوسرے کو دھکیل کر جلد سے جلد آگے بڑھ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ امر ہے جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
غیر ممالک نے ساری اچھائیاں ہمارے دین ہمارے مذہب سے چرا کر اپنے ملک کو جنت نظیر بنا دیا لیکن افسوس صد افسوس ان ممالک کی تمام تر خرابیاں اور برائیاں ہم نے اپنالیں،آج وہ پوری دنیا میں سرخرو ہیں اور ہم ان کی برائیاں اپنا کر ذلیل وخوار ہورہے ہیں۔
ملکی منظرنامے یا اس کی تاریخ پر اگر نگاہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست و قیادت میں ہمارے لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح قابل تقلید نمونہ ہیں۔ قائد اعظم نے کبھی اپنے بدترین مخالف کے بارے میں بھی کوئی اخلاق سے گرا یا نازیبا جملہ استعمال نہیں کیا، یہی طرز تکلم ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا بھی تھا۔ جہاں تک ہماری دینی سیاست کے قائدین کا تعلق ہے تو قیام پاکستان سے لے کر تقریباً 1970ء کی دہائی کے اواخر تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی ہمیشہ نہایت شستہ لب و لہجے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔
1950ء کی دہائی اس بات کی گواہ ہے کہ اس عشرے میں سیاست دانوں کے مابین ہر وقت ٹھنی رہتی تھی لیکن کیا مجال کہ کبھی کسی نے دوسرے کے خلاف کوئی اخلاقی و تہذیبی معیار سے گرا ہوا جملہ یا لفظ استعمال کیا ہو۔ افسوس آج کے کہنہ مشق سیاست دان بالعموم اور نوجوان سیاست دان بالخصوص یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر ان کی گفتگو جتنی تلخ، تیزوتند اورگالی گلوچ سے لبریزہوگی اتنی ہی ان کی ریٹنگ زیادہ ہوگی اور لوگ انھیں پسند کریں گے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں لوگ تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی گفتگوکو ناپسند کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑی پارٹی کے قائد نے وزیرداخلہ کو سطحی انداز سے مخاطب کرکے اپنے جھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
اسی طرح ایک اور سیاسی پارٹی کے سربراہ نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں انتہائی عامیانہ اور بڑی حد تک لچر باتیں کرکے اپنے سیاسی امیج کو پھر سے پامال کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف کامیاب کرکٹ وطن عزیز میں کھیلے جانے پر تنقید کی بلکہ ان دیار غیر کے کرکٹرز کو بھی حرف تنقید کا شکار بنایا جن کی اپنے ملک میں نہایت عزت و احترام ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے دو افراد کے درمیان پارلیمنٹ میں ہونے والی محاذ آرائی کس حد تک اور کہاں جاکر تھمی، یہ سب کا سب ہمارے طاقتورآئینی ایوانوں کے لیے شرمساری اور تذلیل کا باعث نہیں تو پھر اسے اورکیا نام دیا جاسکتا ہے؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان پوری قوم کے لیے لائق تقلید ہوتے ہیں، جن سے نوجوان نسل بالخصوص ادب لحاظ اوراخلاق سیکھتی ہے اور اس امر سے ہی صحت مند اور تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ وطن عزیزکا برسہا برس سے یہ المیہ چلا آرہا ہے کہ اس کی ملکی سیاست خطرناک اور شرمناک حد تک اپنی پستیوں کو چھو رہی ہے۔
قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی ہوں اورکوئی حساس جگہ سیاست میں مارپیٹ، دست وگریبان، گالی گلوچ اور ایک دوسرے پر سستے بازاری فقرے چست کرنا اہل ایوان کا معمول بن چکا ہے۔ ایوان کا مچھلی بازار بن جانا، اہم سرکاری دستاویزات یاکاغذات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اجلاس سے واک آؤٹ کر جانا، حساس ملکی مسائل پر آدھا سچ بولنا ملکی دستورکی صریحاً توہین اور تذلیل سے تعبیرکیا جاسکتا ہے اور اب تو پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے لبالب بھر چکی ہے۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وطن پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس بیت گئے لیکن ہمارے سیاست دانوں نے اپنے موقف یا ''سیاسی اظہار رائے'' کا فن اور اس کے لیے زبان کا استعمال اب تک نہیں سیکھا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعتوں میں کوئی اخلاقی حدود و قیود ہیں، نہ ہی ریفریشرکورسز اور اسٹڈی سرکلز کا انعقاد انھیں میسر آتا ہے یوں اوسط سے گری سیاسی کھیپ ہی برسہا برس سے سیاسی افق پر سامنے آرہی ہے۔ ہماری ملکی سیاست کے حرم کے ایک شیخ صاحب نے تو شاید بدزبانی میں ماسٹرکیا ہوا ہے، بعض اوقات تو وہ عوامی اور بازاری زبان میں فرق ہی بھول جاتے ہیں۔
ان کی سیاسی زیرکی اور طرز کا احترام اپنی جگہ لیکن بات جب زبان کے استعمال کی آتی ہے تو یہ سیاسی کارکنوں کے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیائے کرکٹ کے بہت بڑے اور بہت ہی اچھے کھلاڑی ملکی سیاست میں آکر آپے سے باہر ہوگئے ہیں اور جا بجا ان کی لاف زنی یا لن ترانیاں ان کی کرکٹ اور ان کے شفاخانے کی کی طرح بہت مشہور ہیں۔کاش ہماری ساری کی ساری سیاسی جماعتیں متفق اور یکجا ہوکر ''میثاق سیاسی اخلاقیات'' کا راستہ اختیارکرلیں تو اس ملک پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔
اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ کم بولنے میں عافیت ہے کیونکہ قلت عقل کا اندازہ کثرت کلام سے ہو جاتا ہے، ویسے بھی حضرت علیؓ کا آفاقی قول ہے زبان وہ درندہ ہے جسے اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ پھاڑ کھاتا ہے اور یہ کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے اور لب کشائی کرتے ہی وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
لاکھوں میل دور سمندرپار بیٹھے ایک رہنما جن کے ایک اشارے سے پورا کراچی بند ہوجاتا تھا اسی زبان کی وجہ سے سیاسی افق سے تحلیل ہوگئے، سندھ کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی اپنی زبان ہی کی وجہ سے اپنی ساکھ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے حال ہی میں وطن واپس پہنچے ہیں۔ اور پاکستانی سیاست میں ''تبدیلی'' لانے کا دعویٰ کرنے اور اس میں نئے کلچر کی بنیاد رکھنے والے ایک خان صاحب بھی آئے دن اپنی کڑوی زبان کے باعث تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور اپنی مقبولیت میں کمی کرتے جا رہے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ زبان ہی ہے جس کے نازیبا استعمال کی وجہ سے ملک میں نوے کی دہائی کی سیاست کی اصطلاح رائج پائی تھی اور آج بھی جب کوئی سیاسی پہلوان اپنے مدمقابل پر تنقید کے اوچھے داؤ پیچ مارتے ہوئے اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتا ہے تو اسے 1990ء کی دہائی کی سیاست کا طعنہ ہی دیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری تمام کی تمام سیاسی جماعتیں تاریخ سے کبھی سبق حاصل نہیں کرتی دیکھی گئیں یہی وجہ ہے کہ وہ مقدس لیکن طاقتور آئینی اداروں میں اپنے ہلکے اور بے خود و بے سدھ ہونے کا ثبوت دیتی نظر آتی ہیں اوراہل وطن کے ساتھ ساتھ غیر ممالک میں بھی اپنی تحقیر کا سبب خود ہی بنتی چلی آرہی ہیں۔
زبان و بیان کے حوالے سے ایک برہنہ سچائی یہ بھی ہے کہ تحمل، صبر اور برداشت صرف ہمارے سیاست دانوں میں ہی ختم نہیں ہوئی، ہمارا پورا معاشرہ ہی اس صفت سے محروم ہوگیا ہے۔ کوئی کسی کو ماننے یا تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے، نہ ہی کسی کی بات پرکان دھرنے پر آمادہ ہے، بس اپنی منشا اور اپنی ہی بات منوانا چاہتا ہے۔ ہر شخص جلدی میں ہے، ہرکوئی دوسرے کو دھکیل کر جلد سے جلد آگے بڑھ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ امر ہے جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
غیر ممالک نے ساری اچھائیاں ہمارے دین ہمارے مذہب سے چرا کر اپنے ملک کو جنت نظیر بنا دیا لیکن افسوس صد افسوس ان ممالک کی تمام تر خرابیاں اور برائیاں ہم نے اپنالیں،آج وہ پوری دنیا میں سرخرو ہیں اور ہم ان کی برائیاں اپنا کر ذلیل وخوار ہورہے ہیں۔