ابوالاثرحفیظ جالندھری…
حفیظ جالندھری کو اسلام کی سربلندی اور حب الوطنی کا جذبہ اپنے آبائو اجداد سے ملا تھا۔
ابوالاثرحفیظ جالندھری کو ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے صرف شعروادب کی خدمت ہی نہیں کی بلکہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک بلکہ باعث ندامت ہے کہ ہم نے ابوالاثر حفیظ جالندھری جیسے نابغہ روزگار اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظرانداز کررکھا ہے۔ حالانکہ دنیائے ادب میں ان کا ایک بڑا کارنامہ ''شاہنامہ اسلام'' ہے جس میں انھوں نے تاریخ اسلام کو پرشکوہ الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ بلامبالغہ اردو شاعری کی کوئی کتاب اتنی زیادہ تعداد میں فروخت نہیں ہوئی جتنی زیادہ تعداد میں حفیظ جالندھری کی زندہ جاوید تصنیف ''شاہنامہ اسلام'' فروخت ہوئی ہے۔
ابوالاثر حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 کو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا۔ قلمی نام حفیظ جالندھری تھا اور ابوالاثر حفیظ جالندھری کا نام مولانا غلام قادرگرامی نے دیا،وہ ایک ایسے مسلم راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے جد اعلیٰ پرتھوی راج کی نسل سے تھے لیکن جنہوں نے مغل دور حکومت میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ انھوں نے طبیعت قلندرانہ پائی تھی، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد رسمی تعلیم کے حوالے سے وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ ساتویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد دہلی، میرٹھ اور بمبئی وغیرہ گھومتے گھامتے انھوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ زندگی کے تجربات، مشاہدات اور ذاتی مطالعے سے اپنے ذوق جلانی کو مہمیز کیا۔ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔ ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصر مشاہیر سر عبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سرراس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن سے متاثر ہوکر انھوں نے انقلابی نظمیں بھی لکھیں۔ انھیں بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا اور اپنے لڑکپن میں ہی انھوں نے ترنم کے ساتھ مولانا الطاف حسین حالی اور دوسرے اہم شعراء کی نعتوں کو محفلوں میں سنا کر داد وصول کرنا شروع کردیا۔ اپنی ایک کتاب ''نشرانے'' میں وہ لکھتے ہیں۔
''میری عمر بارہ سال تھی، میرا بچپن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا، اس زمانے میں نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا اور اسی زمانے میں شعروشاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا۔ اس لیے اسکول سے بھاگنے اور گھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی علت بھی پڑچکی تھی۔
حفیظ جالندھری نے جہاد کشمیر میں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں زخمی بھی ہوئے۔ انھوں نے کشمیر کے بارے میں ترانہ، وطن ہمارا آزاد کشمیر بھی لکھا جو ایک خوبصورت ترانہ ہے اور آج بھی اس وادی میں گونج رہا ہے۔ ادبی کاوشوں کی ابتداء1922 سے ہوگئی تھی۔ 1922 سے 1929 تک کے عرصے میں وہ متعدد ادبی جرائد کے ایڈیٹر رہے، جن میں نونہال، گلزار داستان، تہذیب نسواں، مخزن شامل ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ورق کالم نگاری سے بھی وابستہ ہے۔ دسمبر 1962 سے اکتوبر 1963 تک وہ کراچی میں ایک اردو روزنامہ میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی انھوں نے کئی پرجوش نظمیں لکھیں۔ 1965 کا وہ زمانہ تھا جب ان کی تخلیق اور ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ''نغمہ زار'' تھا جو 1935 میں شایع ہوا۔
حفیظ جالندھری 1948 میں مسلح افواج پاکستان کے ڈائریکٹر آف موریل متعین ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس دوران ان کی نظموں اور غزلوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ صدر ایوب خان کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس زمانے میں وہ رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔حفیظ جالندھری کو اسلام کی سربلندی اور حب الوطنی کا جذبہ اپنے آبائو اجداد سے ملا تھا۔ شعر و ادب سے انھیں ابتداء ہی سے لگاؤ تھا، ان کی نظمیں اور غزلیں بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئیں۔ ان کے ہر شعر میں لطافت اور مٹھاس بھری ہوتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ''میرا ہر شعر میرے بچے کی طرح ہے'' اس وجہ سے ان کا ہر شعر سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا۔ ان کی مقبول نظموں میں ''تصویر کشمیر'' کی طویل نظم کے علاوہ ''ابھی تو میں جوان ہوں'' کا گیت بہت مقبول ہوا۔ ''چاند کی سیر'' اور ایک نظم ''رقاصہ'' بھی بہت مقبول ہوئی۔
حفیظ جالندھری کی حیات کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ان کی زندگی کا ایک بہت اہم رخ یہ تھا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور اس عقیدت نے ہی ان سے شاہ نامہ اسلام تخلیق کروایا۔ ان کی اسی عقیدت نے انھیں مفکر پاکستان علامہ اقبال سے قریب تر کیا اور بعد میں ان کے اور علامہ اقبال کے گہرے روابط قائم ہوئے۔ علامہ اقبال نے حفیظ جالندھری کی روانگی حج کے موقعے پر ان سے بالخصوص کہا تھا کہ وہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کے لیے بھی دعا کریں''۔ حفیظ جالندھری کے خود ان کی زبان سے نکلے ہوئے حرف و صورت کے آئینے ان تاریخی الفاظ کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے جو مرزا محمد منور نے عزیز ملک کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں کیا ہے۔ کہتے ہیں۔
''ایک رات میں اور حفیظ صاحب لاہور میں ایک کرم فرمائے محترم سے مل کر ماڈل ٹاؤن کی طرف لوٹے، رات کے دس بجے کا عمل ہوگا، چاندنی چٹکی ہوئی تھی، لاہور میں فروری اور نومبر کی چاندنی خاصی بے ایمان ہوتی ہے۔ حفیظ صاحب موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے، منور یار! غور تو کرو حفیظ کیا تھا کیا بن گیا۔ ساتویں جماعت سے بھاگا مگر شاعر اسلام، احسان الملک اور فردوسی اسلام کہلایا۔ غریب تھا ریلوے اسٹیشن سے باہر قلیوں کی طرح لوگوں کا سامان اٹھایا کرتا تھا۔ اب ملا جلا کر دو ہزار تنخواہ پاتا ہے۔ مستقل وظیفہ الگ ہے۔ ابھی لڑکا تھا، گھر چھوڑنا پڑا۔ سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، اب ایک کوٹھی یہ ہے ایک کوٹھی وہ ہے۔ ایک لان، دوسرا لان، یہ درخت وہ درخت، وہ پھول۔ حفیظ ایک گمنام تھا مگر اس کی شہرت براعظم پاک و ہند کی حدود کو پار کرکے بیرونی ممالک میں پہنچ گئی ہے۔ اس کا کلام منبر پر پڑھا جارہا ہے، ریڈیو پر الاپا گیا ہے۔ حفیظ کو خلفاؤں میں بلایا گیا، اس کو درباروں میں ممتاز مقام پر بٹھایا گیا، منور یار! اللہ نے یہ سب مجھے کیوں عطا کردیا، اس کا سبب فقط ایک ہے اور وہ یہ کہ میں حضور اکرمؐ کا نام لیوا ہوں اور لطف یہ ہے کہ یہ نام بھی گلے کے اوپر ہی اوپر سے نکلتا رہا۔ اگر یہ نام دل کی گہرائیوں سے نکلتا تو میں نجانے کیا ہوتا، اور پھر بڑے جذبے سے نعرہ زن ہوئے، ''ہوجاؤں میں گم اور مجھے پا جائیں محمدؐ''
مذکورہ بالا الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حفیظ جالندھری کی نظر میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز کیا حیثیت رکھتے تھے اور وہ کتنے صاف گو، کھرے آدمی تھے پھر ان کے مزاج میں کتنا انکسار تھا حفیظ جالندھری ایک عظیم انسان تھے۔ماہنامہ ''افکار'' کے حفیظ نمبر میں جناب جمیل الدین عالی رقم طراز ہیں۔
''اس کٹے پھٹے غریب مگر میرے لیے محفوظ پاکستان کے حصول کے لیے حفیظ صاحب نے اپنی بساط بھر کام کیا تھا۔ مثلاً وہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے جلسوں میں ناخواندہ مگر آزادی کے آرزو مند مسلم عوام کے دل ''شاہ نامہ اسلام'' سے گرماتے تھے۔ میلاد کی بڑی بڑی تقریبات میں سلام پڑھتے تھے اور جن سرکاری اور سیاسی حلقوں اور مجلسوں تک ان کی پہنچ تھی وہاں پاکستان ہی کی بات کرتے تھے۔ ان کی قومی نظموں، نعتوں اور سلاموں کی مستقل ادبی حیثیت الگ متعین ہوتی رہے گی، مگر اس میں شک نہیں کہ ان کی وقتی افادیت بھرپور تھی۔
21 دسمبر 1982 کو 82 سال کی عمر میں حفیظ جالندھری کا انتقال ہوا۔ انھیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور کسی اہم جگہ دفنانے کا فیصلہ سات سال تک التوا میں رہا پھر پنجاب حکومت نے اقبال پارک میں جگہ دے دی، جہاں 1988 میں ان کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کی تکمیل 1991 میں ہوئی۔ انھیں ادبی خدمات پر ہلال امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس دیے گئے۔ کتبہ قبر پر تحریر ہے :
عرش کی رخصت لیے بیٹھا ہوں فرش خاک پر
سر مرا آسودہ ہے پائے رسولِ پاکؐ پر
(ابوالاثرحفیظ جالندھری کے یوم پیدائش
کے حوالے سے خصوصی مضمون)
ابوالاثر حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 کو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا۔ قلمی نام حفیظ جالندھری تھا اور ابوالاثر حفیظ جالندھری کا نام مولانا غلام قادرگرامی نے دیا،وہ ایک ایسے مسلم راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے جد اعلیٰ پرتھوی راج کی نسل سے تھے لیکن جنہوں نے مغل دور حکومت میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ انھوں نے طبیعت قلندرانہ پائی تھی، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد رسمی تعلیم کے حوالے سے وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ ساتویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد دہلی، میرٹھ اور بمبئی وغیرہ گھومتے گھامتے انھوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ زندگی کے تجربات، مشاہدات اور ذاتی مطالعے سے اپنے ذوق جلانی کو مہمیز کیا۔ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔ ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصر مشاہیر سر عبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سرراس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن سے متاثر ہوکر انھوں نے انقلابی نظمیں بھی لکھیں۔ انھیں بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا اور اپنے لڑکپن میں ہی انھوں نے ترنم کے ساتھ مولانا الطاف حسین حالی اور دوسرے اہم شعراء کی نعتوں کو محفلوں میں سنا کر داد وصول کرنا شروع کردیا۔ اپنی ایک کتاب ''نشرانے'' میں وہ لکھتے ہیں۔
''میری عمر بارہ سال تھی، میرا بچپن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا، اس زمانے میں نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا اور اسی زمانے میں شعروشاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا۔ اس لیے اسکول سے بھاگنے اور گھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی علت بھی پڑچکی تھی۔
حفیظ جالندھری نے جہاد کشمیر میں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں زخمی بھی ہوئے۔ انھوں نے کشمیر کے بارے میں ترانہ، وطن ہمارا آزاد کشمیر بھی لکھا جو ایک خوبصورت ترانہ ہے اور آج بھی اس وادی میں گونج رہا ہے۔ ادبی کاوشوں کی ابتداء1922 سے ہوگئی تھی۔ 1922 سے 1929 تک کے عرصے میں وہ متعدد ادبی جرائد کے ایڈیٹر رہے، جن میں نونہال، گلزار داستان، تہذیب نسواں، مخزن شامل ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ورق کالم نگاری سے بھی وابستہ ہے۔ دسمبر 1962 سے اکتوبر 1963 تک وہ کراچی میں ایک اردو روزنامہ میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی انھوں نے کئی پرجوش نظمیں لکھیں۔ 1965 کا وہ زمانہ تھا جب ان کی تخلیق اور ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ''نغمہ زار'' تھا جو 1935 میں شایع ہوا۔
حفیظ جالندھری 1948 میں مسلح افواج پاکستان کے ڈائریکٹر آف موریل متعین ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس دوران ان کی نظموں اور غزلوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ صدر ایوب خان کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس زمانے میں وہ رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔حفیظ جالندھری کو اسلام کی سربلندی اور حب الوطنی کا جذبہ اپنے آبائو اجداد سے ملا تھا۔ شعر و ادب سے انھیں ابتداء ہی سے لگاؤ تھا، ان کی نظمیں اور غزلیں بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئیں۔ ان کے ہر شعر میں لطافت اور مٹھاس بھری ہوتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ''میرا ہر شعر میرے بچے کی طرح ہے'' اس وجہ سے ان کا ہر شعر سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا۔ ان کی مقبول نظموں میں ''تصویر کشمیر'' کی طویل نظم کے علاوہ ''ابھی تو میں جوان ہوں'' کا گیت بہت مقبول ہوا۔ ''چاند کی سیر'' اور ایک نظم ''رقاصہ'' بھی بہت مقبول ہوئی۔
حفیظ جالندھری کی حیات کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ان کی زندگی کا ایک بہت اہم رخ یہ تھا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور اس عقیدت نے ہی ان سے شاہ نامہ اسلام تخلیق کروایا۔ ان کی اسی عقیدت نے انھیں مفکر پاکستان علامہ اقبال سے قریب تر کیا اور بعد میں ان کے اور علامہ اقبال کے گہرے روابط قائم ہوئے۔ علامہ اقبال نے حفیظ جالندھری کی روانگی حج کے موقعے پر ان سے بالخصوص کہا تھا کہ وہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کے لیے بھی دعا کریں''۔ حفیظ جالندھری کے خود ان کی زبان سے نکلے ہوئے حرف و صورت کے آئینے ان تاریخی الفاظ کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے جو مرزا محمد منور نے عزیز ملک کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں کیا ہے۔ کہتے ہیں۔
''ایک رات میں اور حفیظ صاحب لاہور میں ایک کرم فرمائے محترم سے مل کر ماڈل ٹاؤن کی طرف لوٹے، رات کے دس بجے کا عمل ہوگا، چاندنی چٹکی ہوئی تھی، لاہور میں فروری اور نومبر کی چاندنی خاصی بے ایمان ہوتی ہے۔ حفیظ صاحب موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے، منور یار! غور تو کرو حفیظ کیا تھا کیا بن گیا۔ ساتویں جماعت سے بھاگا مگر شاعر اسلام، احسان الملک اور فردوسی اسلام کہلایا۔ غریب تھا ریلوے اسٹیشن سے باہر قلیوں کی طرح لوگوں کا سامان اٹھایا کرتا تھا۔ اب ملا جلا کر دو ہزار تنخواہ پاتا ہے۔ مستقل وظیفہ الگ ہے۔ ابھی لڑکا تھا، گھر چھوڑنا پڑا۔ سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، اب ایک کوٹھی یہ ہے ایک کوٹھی وہ ہے۔ ایک لان، دوسرا لان، یہ درخت وہ درخت، وہ پھول۔ حفیظ ایک گمنام تھا مگر اس کی شہرت براعظم پاک و ہند کی حدود کو پار کرکے بیرونی ممالک میں پہنچ گئی ہے۔ اس کا کلام منبر پر پڑھا جارہا ہے، ریڈیو پر الاپا گیا ہے۔ حفیظ کو خلفاؤں میں بلایا گیا، اس کو درباروں میں ممتاز مقام پر بٹھایا گیا، منور یار! اللہ نے یہ سب مجھے کیوں عطا کردیا، اس کا سبب فقط ایک ہے اور وہ یہ کہ میں حضور اکرمؐ کا نام لیوا ہوں اور لطف یہ ہے کہ یہ نام بھی گلے کے اوپر ہی اوپر سے نکلتا رہا۔ اگر یہ نام دل کی گہرائیوں سے نکلتا تو میں نجانے کیا ہوتا، اور پھر بڑے جذبے سے نعرہ زن ہوئے، ''ہوجاؤں میں گم اور مجھے پا جائیں محمدؐ''
مذکورہ بالا الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حفیظ جالندھری کی نظر میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز کیا حیثیت رکھتے تھے اور وہ کتنے صاف گو، کھرے آدمی تھے پھر ان کے مزاج میں کتنا انکسار تھا حفیظ جالندھری ایک عظیم انسان تھے۔ماہنامہ ''افکار'' کے حفیظ نمبر میں جناب جمیل الدین عالی رقم طراز ہیں۔
''اس کٹے پھٹے غریب مگر میرے لیے محفوظ پاکستان کے حصول کے لیے حفیظ صاحب نے اپنی بساط بھر کام کیا تھا۔ مثلاً وہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے جلسوں میں ناخواندہ مگر آزادی کے آرزو مند مسلم عوام کے دل ''شاہ نامہ اسلام'' سے گرماتے تھے۔ میلاد کی بڑی بڑی تقریبات میں سلام پڑھتے تھے اور جن سرکاری اور سیاسی حلقوں اور مجلسوں تک ان کی پہنچ تھی وہاں پاکستان ہی کی بات کرتے تھے۔ ان کی قومی نظموں، نعتوں اور سلاموں کی مستقل ادبی حیثیت الگ متعین ہوتی رہے گی، مگر اس میں شک نہیں کہ ان کی وقتی افادیت بھرپور تھی۔
21 دسمبر 1982 کو 82 سال کی عمر میں حفیظ جالندھری کا انتقال ہوا۔ انھیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور کسی اہم جگہ دفنانے کا فیصلہ سات سال تک التوا میں رہا پھر پنجاب حکومت نے اقبال پارک میں جگہ دے دی، جہاں 1988 میں ان کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کی تکمیل 1991 میں ہوئی۔ انھیں ادبی خدمات پر ہلال امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس دیے گئے۔ کتبہ قبر پر تحریر ہے :
عرش کی رخصت لیے بیٹھا ہوں فرش خاک پر
سر مرا آسودہ ہے پائے رسولِ پاکؐ پر
(ابوالاثرحفیظ جالندھری کے یوم پیدائش
کے حوالے سے خصوصی مضمون)