استحصال بڑھ رہا ہے
اس ساری عالمی اورملکی حالات کی اتھل پتل کے بغیرسرمایہ دارانہ نظام چل نہیں سکتا
دنیا میں استحصالی قوتوں کے مراکز بدل رہے ہیں لیکن لوٹ میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ غلامی کے دورمیں کبھی سلطنت روم، کبھی سلطنت عثمانیہ، کبھی سلطنت مغلیہ، کبھی سلطنت سایرس اور کبھی سلطنت منگول کی حکمرانی رہی۔ عوام ہردورمیں قتل ہوتے رہے اور ظلم وبربریت کے پہاڑ ان پر ڈھائے جاتے رہے۔ یہ کس کو نہیں معلوم کہ روم کا بادشاہ شیرکے پنجرے میںغلاموں کو ڈلوا دیتا تھا جو انھیں چیرپھاڑ کر کھا جاتے تھے۔ منگولوں نے انسانی سروں کے مینار بنائے۔
سلطان شمس الدین التمش کے دور میں ہندوستان سے بیس لاکھ غلاموں کو ہندوکش پہاڑکو عبورکرکے خرا سان اور عراق، عرب میں ایک ایک تنکہ (را ئج الوقت سکہ) میں بیچا گیا۔ ہندوکش پہاڑکوعبورکرتے ہو ئے لا کھوں غلام جان سے جاتے رہے، اسی لیے اس پہاڑ کا نام ہی''ہندوکش''یعنی ہندوؤں کا قاتل پہاڑ قرار پایا۔ جب ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی ابتدا ہوئی تو ڈچ ، پرتگیز اورہسپانوی بعدازاں برطانوی سامراج نے لوٹ ماراورقتل وغارت گری کی انتہا کردی۔ ان سامراجیوں نے براعظم شمالی وجنوبی امریکا،افریقہ،ایشیااورآسٹریلیا پرقبضہ کیا اوروہاں کے بے حساب وسائل کو لوٹا اور وہاں کے عوام کا قتل عام کیا۔اب امریکا اورچین سرفہرست ہیں۔
امریکا مشرق وسطیٰ، ویتنام، کوریا اورافغانستان میں اپنا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے جب کہ چین نے شمالی اور جنوبی افریقہ، مشرق وسطی، افغانستان، برما، نیپال، سری لنکا اوردیگرخطوں پر ڈیرا جمایا ہوا ہے۔ عالمی سامراج کے مراکزتو بدل رہے ہیں لیکن استحصال نہ صرف جوں کا توں ہے بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیشترکنوؤں پر امریکا کی اجارہ داری ہے جب کہ چین کی ایران، عرب امارات، برما، نائیجیریا اور وینیزویلا میں کہیں قبضہ ہے توکہیں ہاتھ پاؤں ماررہا ہے۔
کل ترکی اور روس میں شدید اختلافات تھے اورترکی داعش کی مددکررہا تھا اوراب روس سے دوستی اورداعش کا مخالف ہوگیا ہے۔ یورپ اسرائیل کا حامی تھا اور اب اسے نسل پرست کہہ رہا ہے۔کل سعودی عرب کے شاہ فیصل امریکا اوراسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیارکرتے تھے اورآج سعودی عرب ،اسرائیل اور ترکی کا دوست بن گیا ہے۔ چند دنوں قبل سعودی عرب کی حکومت نے بیان دیا ہے کہ چین سے مل کردہشتگردی کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
ایک عرصے تک پاکستان پر ڈرون بند تھے اب ٹرمپ کے برسراقتدار آ نے کے بعد پاک افغان سرحد پردوبارہ ڈرون حملے ہوئے۔ پانی کے مسئلے پر ہندوستان کا وفد مذاکرات کے لیے پاکستان آیا ہوا تھا۔عالمی حالات کے بدلنے سے ہمارے ملک کے اندر بھی بورژوا(سرمایہ دارانہ) جماعتیں اپنے پینترے بدل رہی ہیں۔ حکومت کے وزراء اوراہم عہدیداروں اورپا کستان پیپلزپارٹی کے سابق اور موجودہ وزیروں اوراہم آلہ کاروں کے ما بین ڈیل ہورہی ہیں، جس میں ایک دوسرے کے خلاف الزام لگانے سے دستبردار ہوجائیں گے۔
یہی صورتحال ایم کیو ایم کے دھڑوں اورتحریک انصاف میں بھی ہورہی ہے۔مذہبی جماعتوں کی کوئی واضح عوامی نمائندگی نہیں اورنہ ہی ان کی قابل ذکرکوئی حیثیت ہے۔ جو دھڑے بندی ہونی تھی وہ بہت پہلے ہی ہوچکی ہے۔ تقریبا چالیس جماعتوں،گروہوں اوردھڑوں میں وہ تقسیم ہیں۔ جیساکہ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ حقانی انکشافات کامسئلہ آگے بڑھایا گیا توانیس سوننانوے سے تمام مقدمات پر پارلیمانی کمیشن بنانے ہوں گے۔ ڈاکٹر عاصم، ایان علی اور اسحاق ڈارکے مقدمات سب کے سامنے ہیں۔ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ فاروق ستار ایم کیو ایم لندن سے ملے ہوئے ہیں۔اس الزام کی تلا فی کے لیے عامرخان ایم کیوایم لندن کے خلاف برس پڑتے ہیں۔
اس ساری عالمی اورملکی حالات کی اتھل پتل کے بغیرسرمایہ دارانہ نظام چل نہیں سکتا۔اس نظام کو چلانے کے لیے عوام کے حقیقی مسائل کو نظراندازکیے بغیراور فروعی مسائل کو ابھا رے بغیر یہ نظام چل نہیں سکتا۔آپ خود دیکھ لیں کہ ٹی وی مذاکرے پر چندگنے چنے صحا فیوں کے علاوہ تقریباً سبھی نان ایشوزپر تبصرہ کر تے ہو ئے نظر آئیں گے۔ جب کہ پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرکوئی تفصیلی تجزیہ نہیں ہوتا۔ جیساکہ ملک بھرمیں سال دو ہزارسولہ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مجموعی طور پر چودہ ہزاردوسوبارہ واقعات رپورٹ ہوئے۔
پنجاب میں 7313، پختون خوا میں 3247،سندھ میں 2817 بلوچستان میں 621اور وفاقی دارالحکو مت میں 223واقعات رونما ہوئے۔ دستاویزات کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں پنجاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکے سات ہزار تین سو تیرہ واقعات رونما ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق قتل کے 688، مارپیٹ کے 539واقعات شامل ہیں،غیرت کے نام پہ 222افراد کو قتل کیا گیا جب کہ تیزاب گردی اورجلا نے کے 49 اور ونی کیے جانے کے سات، ریپ کے 2938گینگ ریپ کے 222 جب کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 2423 واقعات ہوئے۔
ان عوامی مسائل سے عوام کوآگہی سے دور رکھ کر ہی اس سرمایہ دارانہ نظام کے حیات کوایک حد تک طول دیا جاسکتا ہے، مگر یہ نظام اب اتنا سڑگل چکا ہے کہ پیوندکاری یا اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ قمیض اب اتنی جگہوں سے پھٹ گئی ہے کہ اسے اتار پھیکنا ہے اورنئی قمیض کا انتظام کرنا ہے۔اب دنیا بھر بشمول پاکستان کے عوام تنگ آچکے ہیں، وہ ان تبصرہ نگاروں کی شکلیں دیکھنے اور سننے سے بیزارہوچکے ہیں،اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل کر یہ نعرہ دے رہے ہیں کہ ''سرمایہ داری تمھاری موت آن پہنچی ہے۔''
ہندوستان میں ستمبردوہزارسولہ میں کمیونسٹ پارٹی اوران کے اتحادی کے کال پردنیا کی تاریخ کا سب سے بڑی ہڑتال ہوئی، جس میں اٹھارہ کروڑ لوگوں نے حصہ لیا۔ پاکستان میں گوشت، تیل دال، چاول،آٹا، ٹرانسپورٹ، بجلی،گیس اورسبزی روزمہنگی ہوتی جارہی ہے۔اس کے خلاف لالوکھیت سے فیصل آباد اورکوئٹہ سے پشاورتک عوام احتجاج کررہے ہیں، اگرچہ یہ احتجاج کرنے والوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے توکل مہنگائی اوربیروزگاری کے عذاب ان پہ جب زیادہ نازل ہونے لگیں گے تو خود متحد ہوجائیں گے۔
ہر چند کہ مسائل کا واحد حل ایک کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے جہاں دنیا کے سارے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے ۔کوئی ارب پتی ہوگا اورنہ کوئی گدا گر۔اس لیے بھی کہ عالمی سرمایہ داری انتہائی بحران اورانحطاط پذیری کی شکارہے جسے ان کے دانشورکمیونزم کو تاریخ کا خاتمہ کہہ کر خود اپنے جال میں پھنس گئے ہیں۔اب سارے راستے بندگلی میں جا پہنچے ہیں۔ سرمایہ داری کا متبادل صرف کمیونسٹ یا پنچایتی یا مساوات یا نسل انسانی یا عالمی محنت کش برادری یا امداد باہمی کا آزاد سماج میں مضمر ہے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جہاں پیدا کرنے والی قوتیں پیداوارکی مالک ہوںگی۔