نوکری نہیں مل رہی تو کاروبار کریں
نوجوانوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔
پاکستان میں ملازمتوں اور روزگار کے حوالے سے لوگوں کو درپیش مشکلات کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد کرنے کے ساتھ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کے قتل، رشوت اور سرکاری نوکریوں کے حصول میں اثر و رسوخ سے متعلق مباحث عام ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری و نجی جامعات سے مختلف مضامین میں ڈگری حاصل کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد مختلف حوالوں سے فرسودہ نظام اور غیرمنصفانہ تقسیم کے نتیجے میں بے روزگاری کا عذاب جھیل رہی ہے۔ سرکاری ملازمت تو دور کی بات نوجوانوں کی اکثریت نجی اداروں میں بھی اپنی تعلیمی قابلیت اور دل چسپی کے شعبوں میں نوکری حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ان حالات میں یہ نوجوان کیا کریں؟
حکومت اور اس نظام سے بددل ہو کر مایوسی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں یا پھر خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر ماریں، کوئی ایسا راستہ نکالیں جس سے نہ صرف باعزت طریقے سے روزی حاصل ہو بلکہ ان کی محنت اور لگن ترقی اور خوش حالی کی ضامن بنے۔ حکومت اور اداروں کو برا بھلا کہنے اور سسٹم پر تنقید کرنے سے کام نہیں بن سکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہر مسئلے اور خرابی کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسی طرح ڈگری یافتہ نوجوانوں کے بے روزگار پھرنے میں کچھ غلطیاں ان کی بھی ہوسکتی ہیں۔
ڈگری حاصل کرنے کے بعد کسی بھی نوجوان کا پہلا خواب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑی فرم میں اچھے عہدے پر فائز ہو، لیکن یہ ضروری نہیں۔ ہمارے ہاں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تو چھوٹے بڑے نجی اداروں میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن دوسرے مضامین میں یا رسمی تعلیم مکمل کرنے والے نوجوان زیادہ تر آفس ورک کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہاں سب سے بڑی رکاوٹ یا مشکل کسی ادارے میں کام کا تجربہ نہ ہونا ہے۔
یہ نوجوان اچھی آفر کے انتظار میں عرصے تک بے روزگار رہتے ہیں اور سخت ذہنی اذیت اور مالی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے نوجوانوں کو چند باتیں ضرور سمجھنا ہوں گی۔ انہیں ملازمت کے حصول میں ناکامی کے حوالے سے نہ صرف اپنی خامیوں کا جائزہ لینا ہو گا بلکہ ڈگری حاصل کر کے نوکری کرنے کے رجحان کو بھی بدلنا ہو گا۔ ڈگری یافتہ نوجوان کاروبار بھی تو کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں بھی ''انٹر پرینیور شپ'' پروگرام کو اہمیت دی جارہی ہے۔ ایسے کورسز کی بدولت نوجوانوں میں نئی امید اور حوصلہ پیدا ہورہا ہے۔
دوسری طرف اگر نوجوان نوکری ہی کرنا چاہتے ہیں تو ''انٹرن شپ'' کی بدولت انہیں زیادہ بہتر مواقع میسر آسکتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا حصول تو ذرا مشکل ہے، لیکن نجی اداروں میں قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر ملازمتیں دی جاتی ہیں، مگر یہاں بھی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان خود کو ناکام بتاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ کسی شعبے میں عملی کام کا معمولی سا بھی تجربہ نہ ہونا ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے انہیں انٹرن شپ پروگرامز کی طرف جانا چاہیے۔
روزگار کے لیے چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کے علاوہ کسی شعبے میں مختصر مدت کے لیے کام کا تجربہ حاصل کرنے کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنے کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اگر حوصلے اور ہمت سے کام لیا جائے تو کوئی بے روزگار نوجوان نہ صرف اپنے معاشی حالات میں بہتری لاسکتا ہے بلکہ اس کے کاروبار سے کسی دوسرے خاندان کے لیے بھی روزی روٹی کا انتظام ہو سکتا ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرنے والے نوجوانوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ تین، چار جگہ ناکامی انہیں مایوسی سے دوچار کر دیتی ہے اور وہ اس نظام سے متنفر نظر آتے ہیں۔
اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ آج ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مختلف سرکاری اور نجی جامعات سے ڈگری حاصل کر کے روزگار کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں، لیکن ان میں بہت کم تعداد ایسی ہے جو انفرادی طور پر کسی ملازمت کے لیے انٹرویو کے دوران اپنی قابلیت اور صلاحیت کا اظہار کر پاتی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی تعلیم اور تجربے کے برعکس معمولی تنخواہ پر نوکری کر لیتے ہیں، جب کہ اکثریت اپنے خوابوں کے مطابق عہدہ اور تنخواہ کا تقاضا کرتی ہے اور یوں مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں پھیلتی بددلی اور مایوسی کو ختم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ انہیں کسی طرح کاروبار کی طرف راغب کیا جائے۔ ذاتی کاروبار پروگرام اس حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی تمام سرکاری اور نجی جامعات میں اسے ایک کورس کے طور پر پڑھایا جارہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
یہ ایک عام بات ہے کہ نوکری پیشہ کی آمدنی محدود اور طے شدہ ہوتی ہے۔ نجی اداروں میں کسی بھی عہدے پر انہیں زیادہ مراعات بھی نہیں دی جاتیں۔ بعض اچھی کمپنیاں سال میں دو بونس، میڈیکل انشورنس اور دیگر مراعات تو دیتی ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کاروبار میں وہ جتنی محنت کریں گے، اتنا ہی مالی فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں۔ انٹر پرینیور شپ کی صورت میں وہ آزادانہ کام کرسکتے ہیں۔ وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی جب کہ آپ کسی کے آگے جواب دہ بھی نہیں ہوتے۔
نوکری کرنے والوں کی مشکلات مہنگائی میں اضافے کی صورت میں بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ ان کی تنخواہ میں اس تناسب اور تیزی سے اضافہ نہیں ہوتا۔ ملازمت پیشہ شخص کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ ایک طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ذاتی کاروبار میں آمدنی بڑھانے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں۔ محنت اور مستقل مزاجی سے آپ اپنے کاروبار کو بڑھا سکتے ہیں اور مالی طور پر زیادہ مستحکم ہوسکتے ہیں۔
معاشی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں پاکستانی نوجوانوں کو بزنس کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے اور ان کو اس جانب راغب کرکے بے روزگاری کی شرح میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو مایوسی کی دلدل سے باہر لانے کا ایک اور راستہ انٹرن شپ بھی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثریت ملازمت کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے، مگر اس دوران ان کے پاس کسی شعبے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا۔ اگر نوجوان اپنی تعلیم کے مطابق انٹرن شپ کو اہمیت دیں تو انہیں نوکری ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ انٹرن شپ کا مطلب متعلقہ شعبے میں کام کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہے۔
ہمارے ہاں نجی شعبے میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ابتدائی تجربے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب نوجوان ملازمت کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی اکثریت کو ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے انڈسٹری میں قبول نہیں کیا جاتا۔ اکثر طلبا اس خیال میں ہوتے ہیں کہ ان کا تعلیمی ریکارڈ بہت شان دار ہے اور کسی بھی ادارے میں انہیں فوراً ملازمت مل سکتی ہے، لیکن ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا۔ اچھی نوکری کسی نام ور تعلیمی ادارے اور اچھے گریڈ کی بنیاد پر ہی نہیں مل جاتی بلکہ اس کے لیے تھوڑی بہت مہارت اور عملی تربیت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
انٹرن شپ سے کوئی بھی نوجوان اپنی تعلیمی قابلیت اور معیار کو جانچنے کے ساتھ صلاحیتوں کو پہچان سکتا ہے اور اس طرح انڈسٹری میں زیادہ بہتر طریقے سے خود کو پیش کرسکتا ہے۔ انٹرن شپ کا دورانیہ مختصر اور سال پر بھی محیط ہو سکتا ہے اور اس دوران ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے جو انتہائی قلیل ہوسکتا ہے، لیکن اس دوران آپ کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ذاتی کاروبار شروع کرنے کے ساتھ ملازمت کے خواہش مند نوجوان دفاتر کے چکر کاٹنے سے پہلے اپنے شعبے میں مختصر مدت کا عملی تجربہ حاصل کریں تو اپنا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری و نجی جامعات سے مختلف مضامین میں ڈگری حاصل کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد مختلف حوالوں سے فرسودہ نظام اور غیرمنصفانہ تقسیم کے نتیجے میں بے روزگاری کا عذاب جھیل رہی ہے۔ سرکاری ملازمت تو دور کی بات نوجوانوں کی اکثریت نجی اداروں میں بھی اپنی تعلیمی قابلیت اور دل چسپی کے شعبوں میں نوکری حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ان حالات میں یہ نوجوان کیا کریں؟
حکومت اور اس نظام سے بددل ہو کر مایوسی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں یا پھر خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر ماریں، کوئی ایسا راستہ نکالیں جس سے نہ صرف باعزت طریقے سے روزی حاصل ہو بلکہ ان کی محنت اور لگن ترقی اور خوش حالی کی ضامن بنے۔ حکومت اور اداروں کو برا بھلا کہنے اور سسٹم پر تنقید کرنے سے کام نہیں بن سکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہر مسئلے اور خرابی کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسی طرح ڈگری یافتہ نوجوانوں کے بے روزگار پھرنے میں کچھ غلطیاں ان کی بھی ہوسکتی ہیں۔
ڈگری حاصل کرنے کے بعد کسی بھی نوجوان کا پہلا خواب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑی فرم میں اچھے عہدے پر فائز ہو، لیکن یہ ضروری نہیں۔ ہمارے ہاں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تو چھوٹے بڑے نجی اداروں میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن دوسرے مضامین میں یا رسمی تعلیم مکمل کرنے والے نوجوان زیادہ تر آفس ورک کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہاں سب سے بڑی رکاوٹ یا مشکل کسی ادارے میں کام کا تجربہ نہ ہونا ہے۔
یہ نوجوان اچھی آفر کے انتظار میں عرصے تک بے روزگار رہتے ہیں اور سخت ذہنی اذیت اور مالی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے نوجوانوں کو چند باتیں ضرور سمجھنا ہوں گی۔ انہیں ملازمت کے حصول میں ناکامی کے حوالے سے نہ صرف اپنی خامیوں کا جائزہ لینا ہو گا بلکہ ڈگری حاصل کر کے نوکری کرنے کے رجحان کو بھی بدلنا ہو گا۔ ڈگری یافتہ نوجوان کاروبار بھی تو کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں بھی ''انٹر پرینیور شپ'' پروگرام کو اہمیت دی جارہی ہے۔ ایسے کورسز کی بدولت نوجوانوں میں نئی امید اور حوصلہ پیدا ہورہا ہے۔
دوسری طرف اگر نوجوان نوکری ہی کرنا چاہتے ہیں تو ''انٹرن شپ'' کی بدولت انہیں زیادہ بہتر مواقع میسر آسکتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا حصول تو ذرا مشکل ہے، لیکن نجی اداروں میں قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر ملازمتیں دی جاتی ہیں، مگر یہاں بھی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان خود کو ناکام بتاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ کسی شعبے میں عملی کام کا معمولی سا بھی تجربہ نہ ہونا ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے انہیں انٹرن شپ پروگرامز کی طرف جانا چاہیے۔
روزگار کے لیے چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کے علاوہ کسی شعبے میں مختصر مدت کے لیے کام کا تجربہ حاصل کرنے کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنے کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اگر حوصلے اور ہمت سے کام لیا جائے تو کوئی بے روزگار نوجوان نہ صرف اپنے معاشی حالات میں بہتری لاسکتا ہے بلکہ اس کے کاروبار سے کسی دوسرے خاندان کے لیے بھی روزی روٹی کا انتظام ہو سکتا ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرنے والے نوجوانوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ تین، چار جگہ ناکامی انہیں مایوسی سے دوچار کر دیتی ہے اور وہ اس نظام سے متنفر نظر آتے ہیں۔
اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ آج ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مختلف سرکاری اور نجی جامعات سے ڈگری حاصل کر کے روزگار کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں، لیکن ان میں بہت کم تعداد ایسی ہے جو انفرادی طور پر کسی ملازمت کے لیے انٹرویو کے دوران اپنی قابلیت اور صلاحیت کا اظہار کر پاتی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی تعلیم اور تجربے کے برعکس معمولی تنخواہ پر نوکری کر لیتے ہیں، جب کہ اکثریت اپنے خوابوں کے مطابق عہدہ اور تنخواہ کا تقاضا کرتی ہے اور یوں مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں پھیلتی بددلی اور مایوسی کو ختم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ انہیں کسی طرح کاروبار کی طرف راغب کیا جائے۔ ذاتی کاروبار پروگرام اس حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی تمام سرکاری اور نجی جامعات میں اسے ایک کورس کے طور پر پڑھایا جارہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
یہ ایک عام بات ہے کہ نوکری پیشہ کی آمدنی محدود اور طے شدہ ہوتی ہے۔ نجی اداروں میں کسی بھی عہدے پر انہیں زیادہ مراعات بھی نہیں دی جاتیں۔ بعض اچھی کمپنیاں سال میں دو بونس، میڈیکل انشورنس اور دیگر مراعات تو دیتی ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کاروبار میں وہ جتنی محنت کریں گے، اتنا ہی مالی فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں۔ انٹر پرینیور شپ کی صورت میں وہ آزادانہ کام کرسکتے ہیں۔ وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی جب کہ آپ کسی کے آگے جواب دہ بھی نہیں ہوتے۔
نوکری کرنے والوں کی مشکلات مہنگائی میں اضافے کی صورت میں بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ ان کی تنخواہ میں اس تناسب اور تیزی سے اضافہ نہیں ہوتا۔ ملازمت پیشہ شخص کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ ایک طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ذاتی کاروبار میں آمدنی بڑھانے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں۔ محنت اور مستقل مزاجی سے آپ اپنے کاروبار کو بڑھا سکتے ہیں اور مالی طور پر زیادہ مستحکم ہوسکتے ہیں۔
معاشی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں پاکستانی نوجوانوں کو بزنس کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے اور ان کو اس جانب راغب کرکے بے روزگاری کی شرح میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو مایوسی کی دلدل سے باہر لانے کا ایک اور راستہ انٹرن شپ بھی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثریت ملازمت کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے، مگر اس دوران ان کے پاس کسی شعبے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا۔ اگر نوجوان اپنی تعلیم کے مطابق انٹرن شپ کو اہمیت دیں تو انہیں نوکری ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ انٹرن شپ کا مطلب متعلقہ شعبے میں کام کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہے۔
ہمارے ہاں نجی شعبے میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ابتدائی تجربے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب نوجوان ملازمت کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی اکثریت کو ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے انڈسٹری میں قبول نہیں کیا جاتا۔ اکثر طلبا اس خیال میں ہوتے ہیں کہ ان کا تعلیمی ریکارڈ بہت شان دار ہے اور کسی بھی ادارے میں انہیں فوراً ملازمت مل سکتی ہے، لیکن ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا۔ اچھی نوکری کسی نام ور تعلیمی ادارے اور اچھے گریڈ کی بنیاد پر ہی نہیں مل جاتی بلکہ اس کے لیے تھوڑی بہت مہارت اور عملی تربیت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
انٹرن شپ سے کوئی بھی نوجوان اپنی تعلیمی قابلیت اور معیار کو جانچنے کے ساتھ صلاحیتوں کو پہچان سکتا ہے اور اس طرح انڈسٹری میں زیادہ بہتر طریقے سے خود کو پیش کرسکتا ہے۔ انٹرن شپ کا دورانیہ مختصر اور سال پر بھی محیط ہو سکتا ہے اور اس دوران ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے جو انتہائی قلیل ہوسکتا ہے، لیکن اس دوران آپ کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ذاتی کاروبار شروع کرنے کے ساتھ ملازمت کے خواہش مند نوجوان دفاتر کے چکر کاٹنے سے پہلے اپنے شعبے میں مختصر مدت کا عملی تجربہ حاصل کریں تو اپنا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔