پانی کا بحران

2040ء تک ہر چار میں سے ایک بچہ پانی کی قلت کا شکار ہو گا

www.facebook.com/shah Naqvi

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ 2040ء تک ہر چار میں سے ایک بچہ پانی کی قلت کا شکار ہو گا۔ پانی کے عالمی دن کے موقعہ پر ایک بین الاقوامی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں کروڑوں افراد کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق پانی سے محروم انسانوں کی ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں میں رہ رہی ہے جب کہ آلودہ پانی پینے کے نتیجے میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس عالمی دن کی مناسبت سے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2030ء تک پانی کا ایک عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بحران سے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی ریاستیں شدید طور پر متاثر ہوں گی۔

حال ہی میں پانی کا عالمی دن منایا گیا جو کہ ہر سال 22مارچ کو منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پانی کی سنگین قلت ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے جس سے انسانی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ پانی کی قلت آنے والے وقت میں جو زیادہ دور نہیں نہ صرف دنیا میں بہت سے ملکوں کے درمیان جنگوں کا باعث ہو گی بلکہ اس سے جغرافیے بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں بحیثیت قوم اس خطرے کا کوئی احساس نہیں۔

ہر سال سرکاری سطح پر کچھ تقریبات ہوتی ہیں قوم کے نام پیغامات دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے، ہمیں اس بات کا قطعاً احساس نہیں کہ ہم قلت آب کے حوالے سے اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں اسی بحران سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس وقت کی گنجائش ختم ہو گئی ہے، پاکستان میں صاف پانی آبادی کی ایک چوتھائی کو بمشکل میسر ہے باقی ناصاف اور گندا پانی پینے پر مجبور۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کی کثیر تعداد بڑی تیزی سے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہو رہی ہے جس کی تعداد ہر سال لاکھوں میں ہے جس میں بچے اور بڑے دونوں شامل ہیں۔

سینئر طبی ماہرین کے مطابق بہت جلد پاکستان کی کروڑوں آبادی ہیپاٹائٹس کا شکار ہو جائے گی۔ ضرورت ہے کہ اس بیماری اور صاف پانی کے حصول کے لیے جنگی پیمانے پر کام کیا جائے۔ گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں جن میں چوتھائی سے نصف تعداد مضر صحت پانی کے استعمال کی وجہ سے ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے پاکستان کی آبادی کی بہت بڑی تعداد جن خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے ان میں آنتوں کی سوزش، اسہال ٹائی فائیڈ، ٹی بی، ہیضہ، جلدی امراض اور پیٹ کے کیڑے جیسی بیماریاں شامل ہیں، جب پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد بیماریوں میں مبتلا ہو تو وہ کس طرح پاکستان کے پیداواری عمل میں شریک ہو کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔


پاکستان کی کثیر آبادی جو پہلے ہی بہت غریب ہے ان میں سے زیادہ تر کو دن بھر میں کھانے کو بہ مشکل ایک وقت کی روٹی میسر ہوتی ہے، اندازہ کریں جن لوگوں کو کھانے کو ایک وقت کی روٹی میسر نہ ہو تو وہ علاج کہاں سے کرائیں گے، مہنگی دوائیں، مہنگے ڈاکٹر وہ کیسے افورڈ کر سکتے ہیں۔ جھاڑ پھونک دعائیں دم ہی ان کا آخری وسیلہ بن جاتے ہیں۔ اگر سرکاری اسپتال تک پہنچ بھی جائیں تو مہنگی دوائیں کہاں سے خریدیں اوپر سے ان اسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں سے ذلت آمیز رویہ ۔ ان میں کچھ ڈاکٹر بہت اچھے بھی ہیں جو مریضوں کا ہنس کر استقبال کرتے ہیں۔ ان کی دلجوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن ایسے ڈاکٹروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں کینسر اور جگر کے کینسر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غربت، کم خوراکی اور گندے پانی کا استعمال ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ جب لوگ خدانخواستہ ان خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو انھیں اپنے ذاتی گھر بھی بیچنے پڑتے ہیں جو ان کا سر چھپانے کا آخری سہارا ہوتا ہے اور وہ بے چارا سڑک پر آ جاتا ہے۔ اس موذی بیماری کا کم از کم خرچہ 25سے 30لاکھ ہے۔ زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک جوا ہے کہ اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود مریض بچ جائے کیونکہ مریض اپنی غربت کے باعث ڈاکٹر کے پاس اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض اپنی آخری اسٹیج پر ہوتا ہے۔

اس طرح نہ مریض بچتا ہے نہ اس کا سرمایہ، اس طرح اس کے لواحقین مزید غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے خطرناک امراض میں مبتلا مریضوں جن پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے، کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرے تاکہ ان بدقسمت مریضوں کی مدد ہو سکے۔عام شہریوں کو بھی چاہیے کہ اس فنڈ میں حسب توفیق حصہ ڈالیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو کثیر دولت کے مالک ہیں۔

پہلے تو غریب بھارت کے حوالے سے ہی سنتے تھے کہ وہاں کا سرمایہ دار شادیوں پر اربوں روپے خرچ کر دیتا ہے اب یہ برائی پاکستان میں بھی عام ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سنا تھا کہ پنجاب کے شہر چشتیاں میں ایک شادی پر ایک ارب خرچ ہوئے۔ ابھی چند دن پہلے ملتان میں بھی یہی کچھ ہوا جس میں 8لیموزین کاریں اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے شہر کو اشتہاروں کے ذریعے شادی کی دعوت دی گئی۔ ان دونوں شادیوں پر باراتیوں پر جو نوٹ برسائے گئے وہ پاکستانی روپیہ نہیں بلکہ امریکی ڈالر تھے۔

سینٹرل پنجاب کے قصبوں دیہاتوں سے مجھے ٹیلیفون آتے رہتے ہیں کہ ہیپاٹائٹس نے پورے کے پورے گاؤں اجاڑ دیے ہیں جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ سینٹرل پنجاب کا حال ہے تو جنوبی پنجاب اور باقی پاکستان کا کیا حال ہو گا آپ خود ہی اندازہ کر لیں۔ ایک بین الاقوامی ادارے کے مطابق پاکستانی کم خوراکی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے اپنی استعداد کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔ اس طرح پاکستان کو سالانہ 800ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

2017ء دنیا کے لیے گرم ترین سال ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگلے سال سے گرمی کی شدت میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔

سیل فون:۔0346-4527997
Load Next Story