علی تم جیو ہزاروں سال
اداکار محمد علی نے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں جاری لڑائی میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا
اداکار محمد علی نے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں جاری لڑائی میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یہ پاکستان میں آمریت کا بد ترین دور تھا، اسلام کا نام لے کر جنرل ضیا الحق ملک پر قابض تھا۔ مخالفین کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔
ہیروئن کا زہریلا نشہ، کلاشنکوف، لسانی تقسیم کی حکومت پر شب خون مارا اور ٹیلی ویژن ریڈیو پر کہا ''میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم، میں نوے دن میں الیکشن کرواکے اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کر کے واپس بیرکوں میں چلا جاؤںگا'' مگر حسب روایت ایسا نہیں ہوا اور نوے دن شیطان کی آنت بنتے گئے، آخر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان نے اپنی ترکی ٹوپی پہن لی۔ جس کا مطلب تھا کہ فوجی آمر کے خلاف طبل جنگ بج گیا ہے۔ پولیس آئی اور نوابزادہ صاحب کو لے جا کر بہاولپور جیل میں ڈال دیا گیا۔ باقی لاہور کے لوگ کوٹ لکھپت جیل میں پکڑ پکڑ کر ڈال دیے گئے۔
میاں محمود علی قصوری، ان کے بیٹے خورشید محمود قصوری، فیض احمد فیض کے داماد شعیب ہاشمی، سی آر اسلم و دیگر کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ پولیس والے حبیب جالب کے گھر بھی گئے اور ملاقات نہ ہونے پر کہہ گئے کہ ''جالب صاحب آئیں تو انھیں تھانے بھیج دیجیے گا۔ صبح جالب صاحب آئے اور خود ہی تھانے پہنچ گئے۔ پولیس والوں نے انھیں بھی کوٹ لکھپت جیل پہنچا دیا۔ یہ جیل بھرو تحریک تھی اور پاکستان فلم انڈسٹری کی طرف سے اداکار محمد علی نے حصہ ڈالا (حوالہ:جالب بیتی صفحہ 161)
شاید اداکار محمد علی میں ظلم و جبر کے خلاف جذبات اس وقت مضبوط جڑیں پکڑ گئے ہوں گے جب وہ 1962ء میں زیر تکمیل فلم ''جواب دو'' میں کام کر رہے تھے۔ اس فلم کو ریاض شاہد جیسے انقلابی نے لکھا تھا اور ہدایت کار جمیل اختر تھے۔ جب اس فلم میں حبیب جالب کا گیت شامل کیا گیا جس کے بول تھے۔
جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو
کل کیا ہو گا کس کو خبر خاموش رہو
فلم میں اس گیت کی شمولیت کے بعد فلم کا نام ''جواب دو'' تبدیل کرکے ''خاموش رہو'' رکھ دیا گیا۔ اداکار محمد علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حبیب جالب کی مشہور زمانہ نظم ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' فلم خاموش رہو میں ان پر فلم بند کی گئی، اس نظم کو فلم کے لیے احمد رشدی نے گایا تھا، جب کہ ''جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو'' کو ناہید نیازی نے گایا تھا۔ فلم کے موسیقار خلیل احمد تھے۔
یہ اعزاز بھی اس اداکار کے حصے میں آیا کہ حبیب جالب جیسے شاعر نے سالگرہ پر اپنی نظم کا تحفہ انھیں پیش کیا، نظم پیش خدمت ہے۔
علی تم جیو ہزاروں سال
نہ آئے شیشۂ دل میں بال
مری جاں رہو سدا خوش حال
یونہی تم کرتے رہو کمال
نہ آئے تم کو کبھی زوال
علی تم جیو ہزاروں سال
کبھی غم دل کو نہ چھونے پائے
جو لمحہ آئے، خوشی کا آئے
زمانہ گیت خوشی کے گائے
ہمیشہ رہو، بلند اقبال
علی تم جیو ہزاروں سال
تمہیں انسان سے الفت ہے
تمہارے دل میں مروت ہے
تمہیں ہر ظلم سے نفرت ہے
وطن سے تمہیں محبت ہے
وطن کا ہر پل تمہیں خیال
علی تم جیو ہزاروں سال
علی بدلیںگی تقدیریں
علی جھومیںگی تعبیریں
علی لہرائیںگی ہیریں
علی ہوگا، یہ ستم پامال
علی تم جیو ہزاروں سال
(حوالہ:شعری مجموعہ ''میں ہوں شاعر زمانہ'' صفحہ نمبر 130) جالب کے ساتھ کوئی ایک قدم بھی چلتا تو وہ اسے حوصلہ دیا کرتے تھے۔
جیل میں مظہر علی خاں، طاہرہ مظہر علی، حمید اختر، آئی اے رحمان، راؤ رشید (آئی جی پنجاب پولیس) عبداﷲ ملک، جسٹس (ر) سعید حسن، عابد حسن منٹو، ملک قاسم، بشیر ظفر، خواجہ خیر الدین، کنیز فاطمہ، ظفر ملک، ڈاکٹر بنگش، چوہدری عبدالحمید، (مکتبہ کارواں، اے) اعتزاز احسن، جہانگیر بدر، پروفیسر امین مغل، شعیب ہاشمی، حامد محمود و دیگر موجود تھے۔ (حوالہ:نظم کوٹ لکھپت جیل) آخر میں ایک مختصر واقعہ۔ اداکار محمد علی کے گھر فیض احمد فیض، احمد فراز و دیگر شاعر ادیب جمع تھے۔
دھی رات گزرنے پر فیض صاحب نے مطالبہ کر دیا ''جالب کو ڈھونڈ کر لاؤ'' فیض صاحب کا حکم! بندے جالب کی تلاش میں دوڑادیے گئے اور جالب، فیض کے پیغام پر حاضر ہو گئے۔ فیض اور جالب کا بڑا پیارا سا پیار کا رشتہ تھا۔ جالب سے ملے کچھ دن گزرتے تو بلوا لیتے، یہ تعلق ایک الگ دلچسپ موضوع ہے۔
اداکار محمدعلی اب ہم میں موجود نہیں ''بس یادیں، یادیں رہ جاتی ہیں'' میں حضرت میاں میرؒ کے مزار پر حاضر ہوا تھا، یہ وہی صوفی بزرگ ہیں، سکھوں نے جن کے ہاتھوں ''گولڈن ٹیمپل'' امرتسر کی بنیاد رکھی تھی، سنگ بنیاد آج بھی امرتسر میں موجود ہے۔ اسی بزرگ کے مزار کے احاطے میں اداکار محمد علی ابدی نیند سورہا ہے۔ حق مغفرت کرے۔ (آمین)
ہیروئن کا زہریلا نشہ، کلاشنکوف، لسانی تقسیم کی حکومت پر شب خون مارا اور ٹیلی ویژن ریڈیو پر کہا ''میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم، میں نوے دن میں الیکشن کرواکے اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کر کے واپس بیرکوں میں چلا جاؤںگا'' مگر حسب روایت ایسا نہیں ہوا اور نوے دن شیطان کی آنت بنتے گئے، آخر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان نے اپنی ترکی ٹوپی پہن لی۔ جس کا مطلب تھا کہ فوجی آمر کے خلاف طبل جنگ بج گیا ہے۔ پولیس آئی اور نوابزادہ صاحب کو لے جا کر بہاولپور جیل میں ڈال دیا گیا۔ باقی لاہور کے لوگ کوٹ لکھپت جیل میں پکڑ پکڑ کر ڈال دیے گئے۔
میاں محمود علی قصوری، ان کے بیٹے خورشید محمود قصوری، فیض احمد فیض کے داماد شعیب ہاشمی، سی آر اسلم و دیگر کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ پولیس والے حبیب جالب کے گھر بھی گئے اور ملاقات نہ ہونے پر کہہ گئے کہ ''جالب صاحب آئیں تو انھیں تھانے بھیج دیجیے گا۔ صبح جالب صاحب آئے اور خود ہی تھانے پہنچ گئے۔ پولیس والوں نے انھیں بھی کوٹ لکھپت جیل پہنچا دیا۔ یہ جیل بھرو تحریک تھی اور پاکستان فلم انڈسٹری کی طرف سے اداکار محمد علی نے حصہ ڈالا (حوالہ:جالب بیتی صفحہ 161)
شاید اداکار محمد علی میں ظلم و جبر کے خلاف جذبات اس وقت مضبوط جڑیں پکڑ گئے ہوں گے جب وہ 1962ء میں زیر تکمیل فلم ''جواب دو'' میں کام کر رہے تھے۔ اس فلم کو ریاض شاہد جیسے انقلابی نے لکھا تھا اور ہدایت کار جمیل اختر تھے۔ جب اس فلم میں حبیب جالب کا گیت شامل کیا گیا جس کے بول تھے۔
جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو
کل کیا ہو گا کس کو خبر خاموش رہو
فلم میں اس گیت کی شمولیت کے بعد فلم کا نام ''جواب دو'' تبدیل کرکے ''خاموش رہو'' رکھ دیا گیا۔ اداکار محمد علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حبیب جالب کی مشہور زمانہ نظم ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' فلم خاموش رہو میں ان پر فلم بند کی گئی، اس نظم کو فلم کے لیے احمد رشدی نے گایا تھا، جب کہ ''جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو'' کو ناہید نیازی نے گایا تھا۔ فلم کے موسیقار خلیل احمد تھے۔
یہ اعزاز بھی اس اداکار کے حصے میں آیا کہ حبیب جالب جیسے شاعر نے سالگرہ پر اپنی نظم کا تحفہ انھیں پیش کیا، نظم پیش خدمت ہے۔
علی تم جیو ہزاروں سال
نہ آئے شیشۂ دل میں بال
مری جاں رہو سدا خوش حال
یونہی تم کرتے رہو کمال
نہ آئے تم کو کبھی زوال
علی تم جیو ہزاروں سال
کبھی غم دل کو نہ چھونے پائے
جو لمحہ آئے، خوشی کا آئے
زمانہ گیت خوشی کے گائے
ہمیشہ رہو، بلند اقبال
علی تم جیو ہزاروں سال
تمہیں انسان سے الفت ہے
تمہارے دل میں مروت ہے
تمہیں ہر ظلم سے نفرت ہے
وطن سے تمہیں محبت ہے
وطن کا ہر پل تمہیں خیال
علی تم جیو ہزاروں سال
علی بدلیںگی تقدیریں
علی جھومیںگی تعبیریں
علی لہرائیںگی ہیریں
علی ہوگا، یہ ستم پامال
علی تم جیو ہزاروں سال
(حوالہ:شعری مجموعہ ''میں ہوں شاعر زمانہ'' صفحہ نمبر 130) جالب کے ساتھ کوئی ایک قدم بھی چلتا تو وہ اسے حوصلہ دیا کرتے تھے۔
جیل میں مظہر علی خاں، طاہرہ مظہر علی، حمید اختر، آئی اے رحمان، راؤ رشید (آئی جی پنجاب پولیس) عبداﷲ ملک، جسٹس (ر) سعید حسن، عابد حسن منٹو، ملک قاسم، بشیر ظفر، خواجہ خیر الدین، کنیز فاطمہ، ظفر ملک، ڈاکٹر بنگش، چوہدری عبدالحمید، (مکتبہ کارواں، اے) اعتزاز احسن، جہانگیر بدر، پروفیسر امین مغل، شعیب ہاشمی، حامد محمود و دیگر موجود تھے۔ (حوالہ:نظم کوٹ لکھپت جیل) آخر میں ایک مختصر واقعہ۔ اداکار محمد علی کے گھر فیض احمد فیض، احمد فراز و دیگر شاعر ادیب جمع تھے۔
دھی رات گزرنے پر فیض صاحب نے مطالبہ کر دیا ''جالب کو ڈھونڈ کر لاؤ'' فیض صاحب کا حکم! بندے جالب کی تلاش میں دوڑادیے گئے اور جالب، فیض کے پیغام پر حاضر ہو گئے۔ فیض اور جالب کا بڑا پیارا سا پیار کا رشتہ تھا۔ جالب سے ملے کچھ دن گزرتے تو بلوا لیتے، یہ تعلق ایک الگ دلچسپ موضوع ہے۔
اداکار محمدعلی اب ہم میں موجود نہیں ''بس یادیں، یادیں رہ جاتی ہیں'' میں حضرت میاں میرؒ کے مزار پر حاضر ہوا تھا، یہ وہی صوفی بزرگ ہیں، سکھوں نے جن کے ہاتھوں ''گولڈن ٹیمپل'' امرتسر کی بنیاد رکھی تھی، سنگ بنیاد آج بھی امرتسر میں موجود ہے۔ اسی بزرگ کے مزار کے احاطے میں اداکار محمد علی ابدی نیند سورہا ہے۔ حق مغفرت کرے۔ (آمین)