بینا اور نابینا
ایئرکنڈیشنڈ ہال میں رنگ و نور کی بارش ہو رہی تھی
ایک نابینا صاحب تقریر کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بینک سے پیسے نکلوانے جاتے ہیں تو چوکیدار ہمیں فقیر سمجھ کر آنے نہیں دیتے۔ کبھی ہزاروں اور کبھی لاکھوں روپے ہمارے اکاؤنٹ میں ہوتے ہیں۔ یہ عموماً تب ہوتا ہے جب بینک کا گارڈ نیا نیا آیا ہو۔ یہ محفل خوبصورت علاقے کے خوبصورت ہال میں ہو رہی تھی، جہاں ایک نابینا نے بڑی بینائی پر مبنی گفتگو رکھی۔ نابینا حضرات کو بریل قرآن شریف تقسیم کرنے کی یہ تقریب ایک شاندار مقام پر ہو رہی تھی۔
بینا کون اور نابینا کون؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بصارت سے محروم اگر کوئی شخص بصیرت بھری باتیں کر رہا ہو تو ہم اسے بینا کہیں گے۔ تیز آنکھوں والا کوئی شخص بے وقوفی کی باتیں کرے تو اسے کیا کہیں گے؟ اس ترقی کرتی دنیا میں دیکھتی آنکھوں سے محروم لوگ کرکٹ بھی کھیلتے ہیں اور وہ کام کر گزرتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ اسی طرح ان کے مطالعے کے لیے بریل ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ اس ایجاد سے واقف نابینا شخص کی گفتگو ملاحظہ کریں۔
مقرر کو ایک شخص نے فون کیا اور پوچھا کہ آنکھوں والے تو قرآن پاک کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو کیا نابینا خواتین و حضرات اس حکمت بھری کتاب کے مطالعے سے محروم رہیں؟ وہ سمجھ گئے کہ فون کرنے والا کوئی بیدار مغز شخص ہے۔ تحقیقات ہوئی تو پتہ چلا ایک بریل قرآن شریف کی قیمت پندرہ ہزار روپے ہے۔ اب پیسے کہاں سے آئیں؟
وہ مقرر کہتے ہیں کہ میں سڑک پار کرنے کے لیے دس منٹ تک انتظار کرتا۔ لگتا کہ کوئی شخص جلدی میں ہے اور وہ آواز پر توجہ نہیں دے گا تو میں چپ رہتا۔ یہ میری انا اور عزت نفس تھی کہ میں سڑک پار کرنے کی خاطر مدد لینے کے لیے دس دس منٹ تک مناسب شخص کا منتظر رہتا۔ جب قرآن کی بات آئی تو میں نے اپنی خودداری کو ایک طرف رکھ دیا اور ہر اس شخص کے در پر پہنچا جہاں سے مدد کی امید ہوتی۔ یوں ایک مخیر صاحب نے تیس لاکھ روپے خرچ کرکے ٹیکنالوجی کا انتظام کردیا۔ اب ایک بریل قرآن کا ہدیہ چھ ہزار روپے ہوگیا ہے۔
ایئرکنڈیشنڈ ہال میں رنگ و نور کی بارش ہو رہی تھی۔ پوش علاقے میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے شاید یہ بات ناکافی تھی کہ اتوار کا دن تھا۔ جسٹس تقی عثمانی کا مہمان خصوصی ہونا اس بات پر قائل کرگیا کہ شریک ہونا چاہیے۔ ہمارے ایک موکل توصیف احمد کمپیئرنگ کر رہے تھے اور تقریب کی میزبان امہ فاؤنڈیشن تھی جو ڈیڑھ سو نابینا حضرات میں بریل قرآن تقسیم کر رہی تھی۔
ایک بڑے عالم دین سے قبل کسی عام آدمی کا تقریر کرنا ایسے ہی ہے جیسے چراغ شب کے بعد تابناک سورج کی آمد اس چراغ کی مدہم روشنی کو بے معنی کردے۔ بس یہی خوشی تھی کہ جس جسٹس صاحب کے روبرو ایک آدھ مرتبہ فیڈرل شریعت کورٹ میں دلائل دینے کا موقع ملا آج ان کے سامنے پانچ چھ منٹ میں کچھ کہنے کا موقع ملے گا۔
مفتی محمد شفیعؒ کے صاحبزادے تقی عثمانی کی شخصیت دینی و دنیاوی علم کا بہترین سنگم ہے۔ دینی علم میں ایک مقام تک پہنچتے پہنچتے عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر، وکیل، جج، پائلٹ، بینکر، انجینئر، پروفیسر اور صحافی بڑھاپے میں بھی کورٹ کے ججوں کے ساتھ شریعت اپیلیٹ کورٹ میں بیٹھنے اور فیصلہ دینے کے لیے یقیناً ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج کی سی صلاحیت کا ہونا لازمی ہوگا۔ جسٹس تقی عثمانی کو یہ اعزاز حاصل رہا۔
علم قرآن و حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکاری اور قانون کے شعبوں میں دسترس۔ یوں تقریر کے ذریعے موقع ملا سورج کو چراغ دکھانے کا ایک عام سے آدمی کو۔ کسی حکمران اور صاحب مال کی تعریف کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کسی نفع کی امید کا الزام لگ سکتا ہے یا کسی نقصان سے حاکم بچالے۔ عالم دین ہو یا کسی کے پاس دنیاوی علم ہو تو تعریف کرنے والا بے خوف ہوجاتا ہے۔ کچھ پیاس بھی بجھ جائے تو ایسی تعریف سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
قرآن کی بات ہو تو کہنا پڑا کہ یہ کتاب نازل تو عرب میں ہوئی لیکن اس کی خوبصورت تلاوت مصر میں کی گئی۔ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کتاب کو شاندار انداز میں سمجھا تو وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے سمجھا۔ جس انداز میں قرآن پاک کی شاندار تفاسیر پچھلے سو سال میں کی گئیں وہ ایک معجزہ ہے۔ جناب مفتی محمد شفیعؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو زبان میں شاہکار تفاسیر لکھ کر عام لوگوں کے لیے قرآن کے فہم اور تدبر کو عام کردیا۔
نابینا مسلمانوں میں بریل قرآن پاک کی تقسیم بظاہر آج ایک عام سے کوشش نظر آتی ہے۔ آنے والے 50 برسوں میں کوئی ایسا نابینا ہوگا جو قرآن پاک کا عمدہ ترین ترجمہ کرے گا۔ چشم تصور میں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے 100 برس میں کسی نابینا عالم دین سے اردو یا انگریزی کی عمدہ ترین تفسیر سامنے آئے۔ تب محسوس ہوگا کہ 150 نابینا حضرات میں بریل قرآن پاک کی تقسیم کوئی چھوٹا موٹا کام نہ تھا۔ پاکستان کو دو مرتبہ ورلڈ کپ آنکھوں سے محروم افراد نے جتوا کر اپنا نام عمران خان اور یونس خان کی صف میں کرلیا ہے۔
اگر اسی طرح کی کوششیں جاری رہیں تو آنے والے دنوں میں ایسے لوگوں سے مزید معرکہ آرائی کی امید ہے۔ قدرت جب کسی سے ایک نعمت لے لیتی ہے تو دوسری کئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتی ہے۔ بصارت نہ ہو، پھر بھی بصیرت کی باتیں سننے کو ملیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ کون ہے بینا اور کون ہے نابینا؟
بینا کون اور نابینا کون؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بصارت سے محروم اگر کوئی شخص بصیرت بھری باتیں کر رہا ہو تو ہم اسے بینا کہیں گے۔ تیز آنکھوں والا کوئی شخص بے وقوفی کی باتیں کرے تو اسے کیا کہیں گے؟ اس ترقی کرتی دنیا میں دیکھتی آنکھوں سے محروم لوگ کرکٹ بھی کھیلتے ہیں اور وہ کام کر گزرتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ اسی طرح ان کے مطالعے کے لیے بریل ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ اس ایجاد سے واقف نابینا شخص کی گفتگو ملاحظہ کریں۔
مقرر کو ایک شخص نے فون کیا اور پوچھا کہ آنکھوں والے تو قرآن پاک کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو کیا نابینا خواتین و حضرات اس حکمت بھری کتاب کے مطالعے سے محروم رہیں؟ وہ سمجھ گئے کہ فون کرنے والا کوئی بیدار مغز شخص ہے۔ تحقیقات ہوئی تو پتہ چلا ایک بریل قرآن شریف کی قیمت پندرہ ہزار روپے ہے۔ اب پیسے کہاں سے آئیں؟
وہ مقرر کہتے ہیں کہ میں سڑک پار کرنے کے لیے دس منٹ تک انتظار کرتا۔ لگتا کہ کوئی شخص جلدی میں ہے اور وہ آواز پر توجہ نہیں دے گا تو میں چپ رہتا۔ یہ میری انا اور عزت نفس تھی کہ میں سڑک پار کرنے کی خاطر مدد لینے کے لیے دس دس منٹ تک مناسب شخص کا منتظر رہتا۔ جب قرآن کی بات آئی تو میں نے اپنی خودداری کو ایک طرف رکھ دیا اور ہر اس شخص کے در پر پہنچا جہاں سے مدد کی امید ہوتی۔ یوں ایک مخیر صاحب نے تیس لاکھ روپے خرچ کرکے ٹیکنالوجی کا انتظام کردیا۔ اب ایک بریل قرآن کا ہدیہ چھ ہزار روپے ہوگیا ہے۔
ایئرکنڈیشنڈ ہال میں رنگ و نور کی بارش ہو رہی تھی۔ پوش علاقے میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے شاید یہ بات ناکافی تھی کہ اتوار کا دن تھا۔ جسٹس تقی عثمانی کا مہمان خصوصی ہونا اس بات پر قائل کرگیا کہ شریک ہونا چاہیے۔ ہمارے ایک موکل توصیف احمد کمپیئرنگ کر رہے تھے اور تقریب کی میزبان امہ فاؤنڈیشن تھی جو ڈیڑھ سو نابینا حضرات میں بریل قرآن تقسیم کر رہی تھی۔
ایک بڑے عالم دین سے قبل کسی عام آدمی کا تقریر کرنا ایسے ہی ہے جیسے چراغ شب کے بعد تابناک سورج کی آمد اس چراغ کی مدہم روشنی کو بے معنی کردے۔ بس یہی خوشی تھی کہ جس جسٹس صاحب کے روبرو ایک آدھ مرتبہ فیڈرل شریعت کورٹ میں دلائل دینے کا موقع ملا آج ان کے سامنے پانچ چھ منٹ میں کچھ کہنے کا موقع ملے گا۔
مفتی محمد شفیعؒ کے صاحبزادے تقی عثمانی کی شخصیت دینی و دنیاوی علم کا بہترین سنگم ہے۔ دینی علم میں ایک مقام تک پہنچتے پہنچتے عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر، وکیل، جج، پائلٹ، بینکر، انجینئر، پروفیسر اور صحافی بڑھاپے میں بھی کورٹ کے ججوں کے ساتھ شریعت اپیلیٹ کورٹ میں بیٹھنے اور فیصلہ دینے کے لیے یقیناً ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج کی سی صلاحیت کا ہونا لازمی ہوگا۔ جسٹس تقی عثمانی کو یہ اعزاز حاصل رہا۔
علم قرآن و حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکاری اور قانون کے شعبوں میں دسترس۔ یوں تقریر کے ذریعے موقع ملا سورج کو چراغ دکھانے کا ایک عام سے آدمی کو۔ کسی حکمران اور صاحب مال کی تعریف کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کسی نفع کی امید کا الزام لگ سکتا ہے یا کسی نقصان سے حاکم بچالے۔ عالم دین ہو یا کسی کے پاس دنیاوی علم ہو تو تعریف کرنے والا بے خوف ہوجاتا ہے۔ کچھ پیاس بھی بجھ جائے تو ایسی تعریف سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
قرآن کی بات ہو تو کہنا پڑا کہ یہ کتاب نازل تو عرب میں ہوئی لیکن اس کی خوبصورت تلاوت مصر میں کی گئی۔ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کتاب کو شاندار انداز میں سمجھا تو وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے سمجھا۔ جس انداز میں قرآن پاک کی شاندار تفاسیر پچھلے سو سال میں کی گئیں وہ ایک معجزہ ہے۔ جناب مفتی محمد شفیعؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو زبان میں شاہکار تفاسیر لکھ کر عام لوگوں کے لیے قرآن کے فہم اور تدبر کو عام کردیا۔
نابینا مسلمانوں میں بریل قرآن پاک کی تقسیم بظاہر آج ایک عام سے کوشش نظر آتی ہے۔ آنے والے 50 برسوں میں کوئی ایسا نابینا ہوگا جو قرآن پاک کا عمدہ ترین ترجمہ کرے گا۔ چشم تصور میں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے 100 برس میں کسی نابینا عالم دین سے اردو یا انگریزی کی عمدہ ترین تفسیر سامنے آئے۔ تب محسوس ہوگا کہ 150 نابینا حضرات میں بریل قرآن پاک کی تقسیم کوئی چھوٹا موٹا کام نہ تھا۔ پاکستان کو دو مرتبہ ورلڈ کپ آنکھوں سے محروم افراد نے جتوا کر اپنا نام عمران خان اور یونس خان کی صف میں کرلیا ہے۔
اگر اسی طرح کی کوششیں جاری رہیں تو آنے والے دنوں میں ایسے لوگوں سے مزید معرکہ آرائی کی امید ہے۔ قدرت جب کسی سے ایک نعمت لے لیتی ہے تو دوسری کئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتی ہے۔ بصارت نہ ہو، پھر بھی بصیرت کی باتیں سننے کو ملیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ کون ہے بینا اور کون ہے نابینا؟