سندھ کا رویہ اپنائیت سے اجنبیت تک
چند ضروری حقائق ایسے ہیں جو موجودہ اور اگلی نسلوں کے علم میں لانا ضروری ہیں
چند ضروری حقائق ایسے ہیں جو موجودہ اور اگلی نسلوں کے علم میں لانا ضروری ہیں تاکہ ماضی کی سوجھ بوجھ اور حال کی عاقبت نااندیشی کے سبب مستقبل قریب میں نظر آنے والی خامیوں سے بچاؤ کیا جا سکے اور ایک بہتر راستہ اختیار کرنے میں مدد ملے سکے، ساتھ ہی عوام کے لیے روشن مستقبل کی نوید بن سکے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برصغیر کی تقسیم جس کے اعلان سے پہلے ہی اس خطے میں بلووں اور خون خرابے کا دور شروع ہو چکا تھا، کیونکہ بحالت مجبوری اس وقت کی مقتدر قوتوں نے برصغیر میں آباد قومیتوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ تو کر لیا تھا لیکن انتقامی طور پر ان کی اجتماعی یکجہتی کو یکسر بکھیرنے کے لیے مختلف قسم کے زہریلے بیج بونا شروع کردیے تھے، جس میں ریاستوں کو جدا جدا آزاد کرنا، خطابات سے نوازنا، امراء کے درجات کو بلند کرنا، غریب کی پسپائی اور اس سے بڑی بات یہ کہ آپس میں مذہبی منافرت پھیلائی گئی اور ایک غیر منصفانہ فیصلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ لڑتے رہنے کے لیے چھوڑ گئے، جس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیر میں بسے مسلمانوں کو پہنچا اور اب تک پہنچ رہا ہے ان بلووں اور فسادات کے برپا ہونے کی لپیٹ میں وہ مسلمان بھی آئے جو ہندوستان سے یوپی، سی پی، بہار، گجرات، بمبئی سے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے آئے تھے۔
جن میں ایک بڑی آبادی خشکی کے راستے اندرون سندھ، شکارپور، نواب شاہ، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص، خیرپور، حیدرآباد میں آباد ہوئی اور براستہ ممبئی پانی کے جہازوں سے آنے والے کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ ان تمام علاقوں سے نکل کر آنے والوں میں سے جو اپنے گھر بار، محلے اور حویلیوں کو چھوڑ کر آئے تھے، راستوں میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کے دوران مارے بھی گئے۔ ان تمام باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے آباد سندھ کے سیاستدانوں، دانشوروں اور گدی نشینوں نے ان کے مصائب کو سمجھتے اور جانتے ہوئے اعتراف کے طور پر قبول کیا جب کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا، گو بعد کے اعمال میں مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشتگردی نے اسلام جیسے پرامن مذہب کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔
لیکن ہاں! پاکستان کے بنتے ہی اہل سندھ نے انصار بن کر اسلامی روش کو اختیار کر دکھایا تھا اور ابتدائی عشرے میں سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے اپنے گھروں سے لے کر دل تک کے دروازے کھول دیے تھے اور بھرپور استقبال کیا، لیکن شاید اپنا جذبہ، اپنی فکر اس طرح نئی نسلوں کو نہ منتقل کر سکے جو وقت کی ضرورت تھی اور اس غیر دانستہ بھول کی وجہ سے مہاجر اور سندھی ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے بجائے خاص کر اردو بولنے والوں کو اس خلیجی رو کی طرح الگ تھلگ ہی رکھنے کا عمل جاری رہا جو تاحال جاری ہے۔
جب کہ ہجرت کر کے آنے والے فتنوں کے سبب جن جانی و مالی نقصان کا شکار ہوئے اس کا پہلے سے موجودہ سندھ میں آباد سیاستدان، عالموں اور دانشوروں کو بھی ادراک تھا اور ایسے میں انھوں نے دانشمندی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں جی ایم سید نے پاکستان کی قرارداد کو منظور کروایا اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کا دل کی گہرائیوں سے اس بات کو جانتے ہوئے پرتپاک استقبال کیاکہ اس پاکستان کو بنانے کے لیے ان آنے والوں نے کتنی بڑی قربانیاں دی ہیں۔
ایسی سوچ رکھنے والوں میں، میونسپل کمشنر قاضی محمد اکبر، قاضی عابد، میر رسول بخش، تالپور، میر علی تالپور نے بحیثیت مسلم لیگ کے ذمے داران کے آنے والوں کی میزبانی کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آبادکاری پر بھی توجہ دی۔
انھی میں پیر الہی بخش نے میجر محمودالحسن کے اشتراک سے انتہائی مناسب داموں میں 150 سے 200 گز کے مکانات مہیا کیے، جو آج بھی PIB کالونی یعنی انھی کے نام سے موسوم ہیں اور مہاجروں نے بھی یہ مکانات پورے نہ پڑنے پر متصل علاقوں میں جھگیاں اور جھونپڑیاں ڈالیں اور یوں آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوکر لیاقت آباد، نفیس آباد، گولیمار کا علاقہ جو اس وقت محض کھیت تھے، اسے آباد کیا، جو گلبہار کہلایا اور یوں بڑھتے بڑھتے ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لائنز ایریا، جیکب لائن، بزرٹہ لائن، عیدگاہ، پاکستان کواٹرز، مارٹن کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز اور یوں چہار طرف بستیاں بسائیں اور یہ محدود شہر جو کلانچی تھا، ایک صنعتی شہر ''کراچی'' بنتا چلا گیا۔ کیونکہ مہاجروں نے نہ صرف تقسیم کے بعد ہندوستان چلے جانے والے ہندوؤں کی جگہ کو پر کیا، بلکہ سر آدم جی، حبیب فیملی، سیٹھ ولیکا، داؤد فیملی، راجہ صاحب محمودآباد، سر آغا خان اور ایسے کئی دیگر سرمایہ کار جو سرمایہ بھی ساتھ لائے تھے۔
اس شہر کو کاروباری مرکز بنایا جس میں صنعتی اور بیوپاری دونوں پر ان آنے والوں کو دسترس حاصل تھی اور یوں یہ شہر پاکستان کی آمدنی کا ایک مضبوط انجن بن گیا، جو تاحال تکلیف دہ صورت حال کے باوجود آج بھی اسی طرح خدمات انجام دینے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے۔ جسے پاکستان کی آمدنی کا انجن بھی کہا جاسکتا ہے۔
جو یگانگت اور محبت سندھ میں پہلے بسے سندھیوں اور ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں میں ابتدائی دہائی میں تھی، اس میں آہستہ آہستہ چند وجوہات کی بنا پر فاصلے پیدا ہونا شروع ہوئے، جس کا ایک سبب سندھ کے دیہی علاقوں سے ان کے زمینداروں اور وڈیروں کی شہروں کی طرف منتقلی، جس کے سبب کھیتی باڑی کرنے والا ہاری جس پر کسی بھی زرعی ملک کی زراعت کا انحصار ہوتا ہے دیہاتوں میں صرف اور صرف محنت کے لیے مامور چھوڑ دیا گیا۔ گو بعد میں ان کے حقوق کے حصول کے واسطے دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم رائج کیا گیا، لیکن وہ بھی Have and Have Not کی طبقاتی کشمکش کو ختم نہیں کرسکا، کیونکہ جو60 فیصد دیہات میں رہنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا، وہ بھی شہر میں بسے امرا اپنے عزیز و اقارب کے لیے استعمال کرتے رہے اور غربت کے مارے ہاریوں نے سمجھا کہ ان کے حق پر آنے والے مہاجروں نے قبضہ کرلیا۔
دوسری جانب ایک صنعتی شہر ہونے کے سبب پورے پاکستان سے کراچی پر ناصرف آبادی کا دباؤ بڑھ رہا تھا بلکہ تعلیمی اداروں، ملازمتوں اور کاروبار میں بیٹھے لوگوں کے حقوق بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے اور یوں سندھ کے شہروں میں بسے لوگوں میں احساس محرومی جنم لینے لگا اور مہاجروں کی جانب سے یہ احساس ہی MQM کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس نے کب مفاہمت کی؟ اور کب احتجاجی رنگ اختیار کیا؟
مندرجہ بالا تمام گنجلک مسائل تکلیف دہ تو بہت ہیں، لیکن قابل حل بھی ہیں، لہٰذا جو عمل پاکستان بننے کے بعد پہلی دہائی میں مہاجر اور انصار دونوں نے ہی اختیار کیا تھا، اس کو نقش پا بنا کر آگے بڑھا جائے جس کے لیے دل، دماغ دونوں کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھلے رکھنا ہوں گے، قومی اہمیت کے مسائل کو ہر صورت فوقیت دینی پڑے گی اور اب دور اندیشی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی منصوبہ بندی تشکیل دی جائے جو دیرپا امن اور خوشحالی کے دور کا آغاز نظر آئے، جو ناصرف صوبہ سندھ بلکہ وفاق کی سالمیت اور سندھ کو تقویت دینے کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کریں، نہ کہ بذریعہ مردم شماری ایک دوسرے کو کم دکھانے میں اپنی توانائیاں خرچ کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی دونوں قوتیں ایک اور دو کے بجائے ایک اور ایک گیارہ بن کر اپنے آئینی و قانونی اور مالیاتی حقوق حاصل کرکے سندھ کو مضبوطی کی طرف لے کر جائیں۔ پاکستان کے وجود کو قائم و دائم رکھنے کے لیے چھوٹے صوبوں کی اندرونی مضبوطی بہت ضروری ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برصغیر کی تقسیم جس کے اعلان سے پہلے ہی اس خطے میں بلووں اور خون خرابے کا دور شروع ہو چکا تھا، کیونکہ بحالت مجبوری اس وقت کی مقتدر قوتوں نے برصغیر میں آباد قومیتوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ تو کر لیا تھا لیکن انتقامی طور پر ان کی اجتماعی یکجہتی کو یکسر بکھیرنے کے لیے مختلف قسم کے زہریلے بیج بونا شروع کردیے تھے، جس میں ریاستوں کو جدا جدا آزاد کرنا، خطابات سے نوازنا، امراء کے درجات کو بلند کرنا، غریب کی پسپائی اور اس سے بڑی بات یہ کہ آپس میں مذہبی منافرت پھیلائی گئی اور ایک غیر منصفانہ فیصلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ لڑتے رہنے کے لیے چھوڑ گئے، جس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیر میں بسے مسلمانوں کو پہنچا اور اب تک پہنچ رہا ہے ان بلووں اور فسادات کے برپا ہونے کی لپیٹ میں وہ مسلمان بھی آئے جو ہندوستان سے یوپی، سی پی، بہار، گجرات، بمبئی سے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے آئے تھے۔
جن میں ایک بڑی آبادی خشکی کے راستے اندرون سندھ، شکارپور، نواب شاہ، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص، خیرپور، حیدرآباد میں آباد ہوئی اور براستہ ممبئی پانی کے جہازوں سے آنے والے کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ ان تمام علاقوں سے نکل کر آنے والوں میں سے جو اپنے گھر بار، محلے اور حویلیوں کو چھوڑ کر آئے تھے، راستوں میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کے دوران مارے بھی گئے۔ ان تمام باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے آباد سندھ کے سیاستدانوں، دانشوروں اور گدی نشینوں نے ان کے مصائب کو سمجھتے اور جانتے ہوئے اعتراف کے طور پر قبول کیا جب کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا، گو بعد کے اعمال میں مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشتگردی نے اسلام جیسے پرامن مذہب کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔
لیکن ہاں! پاکستان کے بنتے ہی اہل سندھ نے انصار بن کر اسلامی روش کو اختیار کر دکھایا تھا اور ابتدائی عشرے میں سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے اپنے گھروں سے لے کر دل تک کے دروازے کھول دیے تھے اور بھرپور استقبال کیا، لیکن شاید اپنا جذبہ، اپنی فکر اس طرح نئی نسلوں کو نہ منتقل کر سکے جو وقت کی ضرورت تھی اور اس غیر دانستہ بھول کی وجہ سے مہاجر اور سندھی ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے بجائے خاص کر اردو بولنے والوں کو اس خلیجی رو کی طرح الگ تھلگ ہی رکھنے کا عمل جاری رہا جو تاحال جاری ہے۔
جب کہ ہجرت کر کے آنے والے فتنوں کے سبب جن جانی و مالی نقصان کا شکار ہوئے اس کا پہلے سے موجودہ سندھ میں آباد سیاستدان، عالموں اور دانشوروں کو بھی ادراک تھا اور ایسے میں انھوں نے دانشمندی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں جی ایم سید نے پاکستان کی قرارداد کو منظور کروایا اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کا دل کی گہرائیوں سے اس بات کو جانتے ہوئے پرتپاک استقبال کیاکہ اس پاکستان کو بنانے کے لیے ان آنے والوں نے کتنی بڑی قربانیاں دی ہیں۔
ایسی سوچ رکھنے والوں میں، میونسپل کمشنر قاضی محمد اکبر، قاضی عابد، میر رسول بخش، تالپور، میر علی تالپور نے بحیثیت مسلم لیگ کے ذمے داران کے آنے والوں کی میزبانی کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آبادکاری پر بھی توجہ دی۔
انھی میں پیر الہی بخش نے میجر محمودالحسن کے اشتراک سے انتہائی مناسب داموں میں 150 سے 200 گز کے مکانات مہیا کیے، جو آج بھی PIB کالونی یعنی انھی کے نام سے موسوم ہیں اور مہاجروں نے بھی یہ مکانات پورے نہ پڑنے پر متصل علاقوں میں جھگیاں اور جھونپڑیاں ڈالیں اور یوں آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوکر لیاقت آباد، نفیس آباد، گولیمار کا علاقہ جو اس وقت محض کھیت تھے، اسے آباد کیا، جو گلبہار کہلایا اور یوں بڑھتے بڑھتے ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لائنز ایریا، جیکب لائن، بزرٹہ لائن، عیدگاہ، پاکستان کواٹرز، مارٹن کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز اور یوں چہار طرف بستیاں بسائیں اور یہ محدود شہر جو کلانچی تھا، ایک صنعتی شہر ''کراچی'' بنتا چلا گیا۔ کیونکہ مہاجروں نے نہ صرف تقسیم کے بعد ہندوستان چلے جانے والے ہندوؤں کی جگہ کو پر کیا، بلکہ سر آدم جی، حبیب فیملی، سیٹھ ولیکا، داؤد فیملی، راجہ صاحب محمودآباد، سر آغا خان اور ایسے کئی دیگر سرمایہ کار جو سرمایہ بھی ساتھ لائے تھے۔
اس شہر کو کاروباری مرکز بنایا جس میں صنعتی اور بیوپاری دونوں پر ان آنے والوں کو دسترس حاصل تھی اور یوں یہ شہر پاکستان کی آمدنی کا ایک مضبوط انجن بن گیا، جو تاحال تکلیف دہ صورت حال کے باوجود آج بھی اسی طرح خدمات انجام دینے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے۔ جسے پاکستان کی آمدنی کا انجن بھی کہا جاسکتا ہے۔
جو یگانگت اور محبت سندھ میں پہلے بسے سندھیوں اور ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں میں ابتدائی دہائی میں تھی، اس میں آہستہ آہستہ چند وجوہات کی بنا پر فاصلے پیدا ہونا شروع ہوئے، جس کا ایک سبب سندھ کے دیہی علاقوں سے ان کے زمینداروں اور وڈیروں کی شہروں کی طرف منتقلی، جس کے سبب کھیتی باڑی کرنے والا ہاری جس پر کسی بھی زرعی ملک کی زراعت کا انحصار ہوتا ہے دیہاتوں میں صرف اور صرف محنت کے لیے مامور چھوڑ دیا گیا۔ گو بعد میں ان کے حقوق کے حصول کے واسطے دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم رائج کیا گیا، لیکن وہ بھی Have and Have Not کی طبقاتی کشمکش کو ختم نہیں کرسکا، کیونکہ جو60 فیصد دیہات میں رہنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا، وہ بھی شہر میں بسے امرا اپنے عزیز و اقارب کے لیے استعمال کرتے رہے اور غربت کے مارے ہاریوں نے سمجھا کہ ان کے حق پر آنے والے مہاجروں نے قبضہ کرلیا۔
دوسری جانب ایک صنعتی شہر ہونے کے سبب پورے پاکستان سے کراچی پر ناصرف آبادی کا دباؤ بڑھ رہا تھا بلکہ تعلیمی اداروں، ملازمتوں اور کاروبار میں بیٹھے لوگوں کے حقوق بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے اور یوں سندھ کے شہروں میں بسے لوگوں میں احساس محرومی جنم لینے لگا اور مہاجروں کی جانب سے یہ احساس ہی MQM کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس نے کب مفاہمت کی؟ اور کب احتجاجی رنگ اختیار کیا؟
مندرجہ بالا تمام گنجلک مسائل تکلیف دہ تو بہت ہیں، لیکن قابل حل بھی ہیں، لہٰذا جو عمل پاکستان بننے کے بعد پہلی دہائی میں مہاجر اور انصار دونوں نے ہی اختیار کیا تھا، اس کو نقش پا بنا کر آگے بڑھا جائے جس کے لیے دل، دماغ دونوں کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھلے رکھنا ہوں گے، قومی اہمیت کے مسائل کو ہر صورت فوقیت دینی پڑے گی اور اب دور اندیشی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی منصوبہ بندی تشکیل دی جائے جو دیرپا امن اور خوشحالی کے دور کا آغاز نظر آئے، جو ناصرف صوبہ سندھ بلکہ وفاق کی سالمیت اور سندھ کو تقویت دینے کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کریں، نہ کہ بذریعہ مردم شماری ایک دوسرے کو کم دکھانے میں اپنی توانائیاں خرچ کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی دونوں قوتیں ایک اور دو کے بجائے ایک اور ایک گیارہ بن کر اپنے آئینی و قانونی اور مالیاتی حقوق حاصل کرکے سندھ کو مضبوطی کی طرف لے کر جائیں۔ پاکستان کے وجود کو قائم و دائم رکھنے کے لیے چھوٹے صوبوں کی اندرونی مضبوطی بہت ضروری ہے۔