نواز شریف ۔ ہولی کا تہوار ۔ قائداعظم کی سوچ
ہندو ہر سال پھاگن (مارچ، اپریل) کے مہینے میں چاندکی پندرہ تاریخ کو ہولی کا تہوار مناتے ہیں
ہندو ہر سال پھاگن (مارچ، اپریل) کے مہینے میں چاندکی پندرہ تاریخ کو ہولی کا تہوار مناتے ہیں۔ ہندو مت میں ہولی کے تہوار کی تاریخی روایات ہیں تاہم برصغیر کے کئی زرعی علاقوں میں بعد میں اسے موسم بہارکی آمد پر خوشی کے اظہار کے طور پر بھی منایا جانے لگا۔ اس طرح ہولی مذہبی تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی روایت بھی بن گئی۔ تاریخی روایات کے مطابق ہولی کے تہوار کا آغاز برصغیر کے ہزاروں سال قدیم شہر ملتان سے ہوا تھا۔ جس خطے میں پاکستان واقع ہے ،اس خطے کی تاریخ بہت قدیم اورکئی طرح کے ورثوں سے مالامال ہے۔ پاکستان میں دنیا کے تین بڑے مذاہب ہندومت، بدھ مت اور سکھ مت کے کئی اہم مقدس مقامات بھی ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی میں ہندو برادری کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ان کے اس عمل سے نا صرف ہندؤوں کو خوشی ہوئی بلکہ پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو بھی اطمینان اور تحفظ کا احساس ہوا ۔
اس موقعے پر تقریرکرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان فرق رکھنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ ہمارا کام لوگوں کی جنت ودوزخ کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ اس دنیا کو سب کے لیے جنت بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے سب شہریوں کو اتحادواتفاق کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امن، استحکام اور ترقی کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے آئین کے بنیادی خدوخال پر یکسو تھے۔ قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ایک ایسی ریاست جو صرف ریاست کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ بلاامتیاز مذہب ہر شہری کے حقوق کی محافظ ہو۔ قائداعظم کی یہ سوچ اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات کے عین مطابق تھی۔
پہلی صدی ہجری سے ہی برصغیر میں اسلام کی تبلیغ شروع ہوگئی تھی۔ تبلیغ کے زیر اثر اس خطے کے عوام کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا۔ حتی کہ برصغیر کے مشرقی حصے (بنگال) اور مغربی حصے (کشمیر، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان) مسلم اکثریتی علاقے بن گئے ۔
قائداعظم کی دور بین نگاہ، اعلیٰ سیاسی بصیرت، قانون پر شاندارمہارت اور بہترین قائدانہ صلاحیتیوں کے بدولت برصغیرکے مسلم اکثریتی علاقوں میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندو، عیسائی، سکھ اوردوسرے مذاہب کے ماننے والے اقلیت کے طور پر رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین اس ملک کے سب شہریوں کو وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم حقوق اور تحفظ عطا کرتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو، عیسائی سکھ اوردیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کوسرکاری یا نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے، سرکاری اداروں بشمول افواجِ پاکستان میں یا نجی اداروں میں ملازمت حاصل کرنے، قانونی طور پر جائز ہر ذریعہ معاش اختیارکرنے کی آزادی ہے۔
پاکستان کے کئی غیر مسلم شہریوں نے قانون کے شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا، پاکستانی عیسائی اور پاکستانی ہندو عدلیہ میں منصفی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچے ہیں۔ چند سال پیشتر جسٹس رانا بھگوان داس سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج تھے وہ کچھ عرصے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے۔ 1960کی دہائی میں جسٹس الوین رابرٹ کارنیلیس جو جسٹس اے آر کارنیلیس کے نام سے زیادہ معروف ہیں، تقریباً آٹھ سال تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے۔ جسٹس اے آرکارنیلیس 1969تا 1971 پاکستان کے وزیر قانون بھی رہے۔ طب، انجینئرنگ اور دیگر کئی پروفیشنزمیں پاکستانی ہندو، پاکستانی عیسائی اوردیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد وخواتین اپنے پیشہ ورانہ فرائض اچھی طرح ادا کررہے ہیں۔ یہی حال شعبہ تجارت میں بھی ہے۔
درحقیقت پاکستان اقلیتوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ پاکستا ن کے پڑوسی ملک بھارت میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ بھارت میں مسلم اورعیسائی اقلیت کو ناصرف اکثریتی طبقے کی بعض جماعتوں اورگروہوں کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں، بلکہ بھارت میں کئی ریاستی حکومتیں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے مظالم پر مذہبی شدت پسندجارح گروپوں سے چشم پوشی کرتی ہیں یا حسب موقع ان کی پشت پناہی کررہی ہوتی ہیں۔
بھارت کے کروڑوں مسلمان اورعیسائی شدید خوف اور بے یقینی کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھارت کی ایک اوراقلیت سکھ بھارت میں رہتے ہوئے شدید دباؤ میں ہے۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بھارت میں تو خود نچلے ذات کے ہندو بھی اعلیٰ ذات کے ہندؤوں کے ہاتھوں بنیادی انسانی حقوق اور احترام سے محروم ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو آج بھی دلتوں اور دوسری کئی برادریوں کے مردوں اورعورتوں کو نیچ ذات اور ناپاک سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو اچھوت (Untouchable) اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے نظریات کے مطابق ان کم ذاتوں کو چھونے سے اعلیٰ ذات والا ناپاک ہوجائے گا۔ جس گھر میں اچھوت داخل ہوجائے وہ گھر اور جس برتن میں اچھوت کھا پی لے وہ برتن بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے ناپاک ہوجاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہندوستان میں مہاتما گاندھی اور نہرو ہندوؤں کے لیڈر تھے، قائداعظم محمدعلی جناح مسلمانوں کی قیادت کررہے تھے۔ دھتکارے ہوئے اچھوتوں ، دلتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد ایک اچھوت قانون دان، ماہرِمعاشیات اور سماجی اصلاح کے علمبردار بھیم جی راو امبیڈکر (B. R. Ambedkar) کررہے تھے۔ امبیڈکر 1906میں ایلفنسٹائن ہائی اسکول بمبئی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہونے والے پہلے اچھوت تھے ، تاہم انھیں کلاس میں دوسرے طالب علموں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے زیر استعمال گلاس میں پانی پینے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ کسی ہوٹل میں کھانا نہیں کھاسکتے تھے،کوئی دھوبی ان کے کپڑے دھونے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ اسکول کے اساتذہ بھی اس اچھوت طالب علم پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ امبیڈکرنے 1912میں بمبئی یونیورسٹی سے معاشیات اور پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا، بمبئی یونیورسٹی میں بھی امبیڈکر سے قبل کوئی اچھوت داخل نہیں ہوا تھا۔ امبیڈکر نے بعد میں کولمبیا یونیورسٹی امریکا اور لندن اسکول آف اکنامکس برطانیہ، سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
ذات پات کے نظام میں کچلے ہوئے اور پسے ہوئے دلتوں یا اچھوتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کی وجہ سے کروڑوں دلت امبیڈکرکو بہت عزت و احترام سے بابا صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ امبیڈکر چاہتے تھے کہ انگریزوں کے برصغیر میں ہوتے ہوئے ہی دلتوں کے لیے بہتر سماجی مقام حاصل کرلیا جائے۔ کانگریس کے برہمن لیڈر اس بات کے حامی نہیں تھے، گاندھی جی نے امبیڈکر کو قائل کیا کہ آپ اپنی سب صلاحیتیں برصغیر سے انگریز کے جانے پر صرف کریں ، انگریز سے آزادی کے بعد دلتوں کو بھی ان کے حقوق دے دیے جائیں گے۔ امبیڈکر نے ان باتوں پر یقین کرلیا ۔ آزادی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کی بہت اسمارٹ قیادت نے بھارتی آئین بھی بابا صاحب امبیڈکر سے ہی لکھوایا لیکن امبیڈکر دلتوں کو بھارتی سماج میں کوئی بہتر مقام نہ دلاسکے۔ امبیڈکر سے گاندھی جی کا وعدہ بس وعدہ ہی رہا۔ دلتوں کو ہندو سماج میں بہتر مقام دلانے میں ناکامی پر امبیڈکرکی مایوسی اس قدر بڑھی کہ انھوں نے ہندو دھرم ترک کرکے بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا۔
انڈین نیشنل کانگریس کی متعصبانہ سوچ کو قائداعظم محمدعلی جناح نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ قائداعظم یہ بات سمجھ چکے تھے کہ کانگریسی سیاستدان مسلمانوں کوکبھی بھی ان کے جائز حقوق اورمعاشی وسماجی ترقی کے مواقعے حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ قائداعظم نے ایک آزاد مسلمان ریاست کے لیے جدوجہد کی، ایک ایسی ریاست جہاں ہر شہری کے یکساں حقوق ہوں، مذہب ذات پات ، رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ ترقی کے لیے سب کو یکساں مواقعے فراہم کیے جائیں۔ ریاست سب کے حقوق کی محافظ ہو۔
الحمدللہ قائداعظم محمد علی جناح کی کوششیں کامیاب ہوئیں ، پاکستان وجود میں آگیا۔ کئی مشکلات کے باوجود پاکستان اقلیتوں کے لیے دنیا کے کئی ملکوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور بہتر ملک ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ہندو برادری کو ان کے ایک تہوار پر مبارک باد دے کر بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکری پیروی کی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی میں ہندو برادری کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ان کے اس عمل سے نا صرف ہندؤوں کو خوشی ہوئی بلکہ پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو بھی اطمینان اور تحفظ کا احساس ہوا ۔
اس موقعے پر تقریرکرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان فرق رکھنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ ہمارا کام لوگوں کی جنت ودوزخ کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ اس دنیا کو سب کے لیے جنت بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے سب شہریوں کو اتحادواتفاق کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امن، استحکام اور ترقی کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے آئین کے بنیادی خدوخال پر یکسو تھے۔ قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ایک ایسی ریاست جو صرف ریاست کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ بلاامتیاز مذہب ہر شہری کے حقوق کی محافظ ہو۔ قائداعظم کی یہ سوچ اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات کے عین مطابق تھی۔
پہلی صدی ہجری سے ہی برصغیر میں اسلام کی تبلیغ شروع ہوگئی تھی۔ تبلیغ کے زیر اثر اس خطے کے عوام کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا۔ حتی کہ برصغیر کے مشرقی حصے (بنگال) اور مغربی حصے (کشمیر، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان) مسلم اکثریتی علاقے بن گئے ۔
قائداعظم کی دور بین نگاہ، اعلیٰ سیاسی بصیرت، قانون پر شاندارمہارت اور بہترین قائدانہ صلاحیتیوں کے بدولت برصغیرکے مسلم اکثریتی علاقوں میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندو، عیسائی، سکھ اوردوسرے مذاہب کے ماننے والے اقلیت کے طور پر رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین اس ملک کے سب شہریوں کو وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم حقوق اور تحفظ عطا کرتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو، عیسائی سکھ اوردیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کوسرکاری یا نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے، سرکاری اداروں بشمول افواجِ پاکستان میں یا نجی اداروں میں ملازمت حاصل کرنے، قانونی طور پر جائز ہر ذریعہ معاش اختیارکرنے کی آزادی ہے۔
پاکستان کے کئی غیر مسلم شہریوں نے قانون کے شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا، پاکستانی عیسائی اور پاکستانی ہندو عدلیہ میں منصفی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچے ہیں۔ چند سال پیشتر جسٹس رانا بھگوان داس سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج تھے وہ کچھ عرصے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے۔ 1960کی دہائی میں جسٹس الوین رابرٹ کارنیلیس جو جسٹس اے آر کارنیلیس کے نام سے زیادہ معروف ہیں، تقریباً آٹھ سال تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے۔ جسٹس اے آرکارنیلیس 1969تا 1971 پاکستان کے وزیر قانون بھی رہے۔ طب، انجینئرنگ اور دیگر کئی پروفیشنزمیں پاکستانی ہندو، پاکستانی عیسائی اوردیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد وخواتین اپنے پیشہ ورانہ فرائض اچھی طرح ادا کررہے ہیں۔ یہی حال شعبہ تجارت میں بھی ہے۔
درحقیقت پاکستان اقلیتوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ پاکستا ن کے پڑوسی ملک بھارت میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ بھارت میں مسلم اورعیسائی اقلیت کو ناصرف اکثریتی طبقے کی بعض جماعتوں اورگروہوں کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں، بلکہ بھارت میں کئی ریاستی حکومتیں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے مظالم پر مذہبی شدت پسندجارح گروپوں سے چشم پوشی کرتی ہیں یا حسب موقع ان کی پشت پناہی کررہی ہوتی ہیں۔
بھارت کے کروڑوں مسلمان اورعیسائی شدید خوف اور بے یقینی کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھارت کی ایک اوراقلیت سکھ بھارت میں رہتے ہوئے شدید دباؤ میں ہے۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بھارت میں تو خود نچلے ذات کے ہندو بھی اعلیٰ ذات کے ہندؤوں کے ہاتھوں بنیادی انسانی حقوق اور احترام سے محروم ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو آج بھی دلتوں اور دوسری کئی برادریوں کے مردوں اورعورتوں کو نیچ ذات اور ناپاک سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو اچھوت (Untouchable) اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے نظریات کے مطابق ان کم ذاتوں کو چھونے سے اعلیٰ ذات والا ناپاک ہوجائے گا۔ جس گھر میں اچھوت داخل ہوجائے وہ گھر اور جس برتن میں اچھوت کھا پی لے وہ برتن بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے ناپاک ہوجاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہندوستان میں مہاتما گاندھی اور نہرو ہندوؤں کے لیڈر تھے، قائداعظم محمدعلی جناح مسلمانوں کی قیادت کررہے تھے۔ دھتکارے ہوئے اچھوتوں ، دلتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد ایک اچھوت قانون دان، ماہرِمعاشیات اور سماجی اصلاح کے علمبردار بھیم جی راو امبیڈکر (B. R. Ambedkar) کررہے تھے۔ امبیڈکر 1906میں ایلفنسٹائن ہائی اسکول بمبئی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہونے والے پہلے اچھوت تھے ، تاہم انھیں کلاس میں دوسرے طالب علموں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے زیر استعمال گلاس میں پانی پینے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ کسی ہوٹل میں کھانا نہیں کھاسکتے تھے،کوئی دھوبی ان کے کپڑے دھونے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ اسکول کے اساتذہ بھی اس اچھوت طالب علم پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ امبیڈکرنے 1912میں بمبئی یونیورسٹی سے معاشیات اور پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا، بمبئی یونیورسٹی میں بھی امبیڈکر سے قبل کوئی اچھوت داخل نہیں ہوا تھا۔ امبیڈکر نے بعد میں کولمبیا یونیورسٹی امریکا اور لندن اسکول آف اکنامکس برطانیہ، سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
ذات پات کے نظام میں کچلے ہوئے اور پسے ہوئے دلتوں یا اچھوتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کی وجہ سے کروڑوں دلت امبیڈکرکو بہت عزت و احترام سے بابا صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ امبیڈکر چاہتے تھے کہ انگریزوں کے برصغیر میں ہوتے ہوئے ہی دلتوں کے لیے بہتر سماجی مقام حاصل کرلیا جائے۔ کانگریس کے برہمن لیڈر اس بات کے حامی نہیں تھے، گاندھی جی نے امبیڈکر کو قائل کیا کہ آپ اپنی سب صلاحیتیں برصغیر سے انگریز کے جانے پر صرف کریں ، انگریز سے آزادی کے بعد دلتوں کو بھی ان کے حقوق دے دیے جائیں گے۔ امبیڈکر نے ان باتوں پر یقین کرلیا ۔ آزادی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کی بہت اسمارٹ قیادت نے بھارتی آئین بھی بابا صاحب امبیڈکر سے ہی لکھوایا لیکن امبیڈکر دلتوں کو بھارتی سماج میں کوئی بہتر مقام نہ دلاسکے۔ امبیڈکر سے گاندھی جی کا وعدہ بس وعدہ ہی رہا۔ دلتوں کو ہندو سماج میں بہتر مقام دلانے میں ناکامی پر امبیڈکرکی مایوسی اس قدر بڑھی کہ انھوں نے ہندو دھرم ترک کرکے بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا۔
انڈین نیشنل کانگریس کی متعصبانہ سوچ کو قائداعظم محمدعلی جناح نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ قائداعظم یہ بات سمجھ چکے تھے کہ کانگریسی سیاستدان مسلمانوں کوکبھی بھی ان کے جائز حقوق اورمعاشی وسماجی ترقی کے مواقعے حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ قائداعظم نے ایک آزاد مسلمان ریاست کے لیے جدوجہد کی، ایک ایسی ریاست جہاں ہر شہری کے یکساں حقوق ہوں، مذہب ذات پات ، رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ ترقی کے لیے سب کو یکساں مواقعے فراہم کیے جائیں۔ ریاست سب کے حقوق کی محافظ ہو۔
الحمدللہ قائداعظم محمد علی جناح کی کوششیں کامیاب ہوئیں ، پاکستان وجود میں آگیا۔ کئی مشکلات کے باوجود پاکستان اقلیتوں کے لیے دنیا کے کئی ملکوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور بہتر ملک ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ہندو برادری کو ان کے ایک تہوار پر مبارک باد دے کر بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکری پیروی کی ہے۔