کیڈٹ کالج حسن ابدال۔کچھ یادیں
کیڈٹ کالج آرمی کو اعلیٰ پائے کی قیادت فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے
ISLAMABAD:
جس درسگاہ میں نوجوانی کے پانچ سال گزارے تھے، اس سے رُخصت ہوئے دس سال بِیت چکے تھے جب پشاور جاتے ہوئے اس کی جھلک دیکھنے کا موقع ملا۔راولپنڈی سے نکلتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، اور کیڈٹ کالج حسن ابدال کی بیرونی دیوار کا آخری کونہ جب تک نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا ، میں تیز دھڑکنوں کے ساتھ مُڑ کر پیچھے ہی دیکھتا رہا۔طالبِ علم پانچ سال گزارنے کے بعد اس کالج سے نکل جاتے ہیں لیکن یہ کالج ساری عمر ان کے دلوں سے نہیں نکلتا۔
کیڈٹ کالج آرمی کو اعلیٰ پائے کی قیادت فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ بڑے عرصے تک پورے ملک میں دو ہی کیڈٹ کالج رہے۔ پٹارو اور حسن ابدال۔ پھر کوہاٹ بنا اور بعد میں تو لائنیں لگ گئیں۔ شمار میں اضافہ ہوا تو معیار اور اعتبار قائم نہ رہ سکا۔
راقم ڈی آئی جی ایبٹ آباد لگا تو کیڈٹ کالج کی مسجد میں نماز کے لیے رکنا معمول بنا لیا ۔ بریگیڈیئرشاہ بابر حسن ابدال کے پرنسپل بنے تو ان سے گپ شپ کے لیے بھی رک جاتا۔ ہم جس سال آٹھویں جماعت میں یہاں داخل ہوئے اُسی سال نوجوان کیپٹن شاہ بابر کالج میں ایڈجوٹینٹ (کیڈٹ کالجوں میں ڈسپلن کے امور کی نگرانی کرنے والے فوجی افسر) کی حیثیّت سے تعینات ہوئے تھے۔
خوش گفتار اور خوش اطوار ۔ اب ماہ و سال کے تجربے نے گفتار میں گہرائی اور گیرائی پیداکردی تھی۔کئی سال پہلے جب میں نے پوچھا کہ ''ہر ادارہ deterioration کا شکار ہوا ہے کیڈٹ کالج پر بھی اس کے اثرات تو مرتّب ہوئے ہونگے؟'' کہنے لگے '' زوال کے باوجود آج بھی انٹرمیڈیٹ تک پورے ملک کا سب سے اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارہ کیڈٹ کالج حسن ابدال ہی ہے۔ یہاں کا ڈسپلن، کلاسز کے بعد پڑھائی کے مقررّ ہ اوقات ، ہر ٹرم کے بعد آخر میں امتحانات ، ان کے نتائج کا اعلان ، انعامات، ریوارڈ ، طلباء میں مقابلے کاجذبہ پیدا کرنیوالا ماحول اور اساتذہ کی ذاتی دلچسپی اور نگرانی۔ یہ وہ عوامل ہیںجنکی بناء پر آج بھی یہ ادارہ سب سے آگے ہے'' ۔
میں نے پوچھا ''وہ compulsory prep hours اب بھی مقرر ہیں جنکے دوران ہاؤس ماسٹرز (ہوسٹل کے انچارج) راؤنڈ لگایا کرتے تھے؟'' ۔کہنے لگے سہ پہر کو گیمز سے پہلے اور پھر رات کو ڈنر سے پہلے طلباء پر لازم ہے کہ وہ اپنے کمروں میں میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر مقررہ اوقات میں پڑھائی کریں۔پھر میں نے تجسّس سے پوچھا سر! وہ جو تقریری مقابلے اور Essay writing کے مقابلے ہوتے تھے وہ اب بھی ہوتے ہیں؟ ۔ بریگیڈیئر صاحب نے کہا بالکل ہوتے ہیںextra curricular activities پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ میں نے پھر ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا سر! وہ جو ہمارے زمانے میں مارننگ اسمبلی ہوتی تھی جسمیں ہر روز کوئی ٹیچر قرآنی آیت، حدیث یا کوئی word of wisdomسناتا تھا ، جسمیں کوئی نہ کوئی message ہوتا تھا ، وہ سلسلہ جاری ہے؟...کہنے لگے ''ہاں ہم نے کوئی اچھی روایت ختم نہیںکی بلکہ انمیں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے'' ۔
وقفہ گاہے طویل ہوجاتا مگر طالبِ علم اپنی مادرِ علمی کی زیارت کے لیے ضرور جاتارہا۔ ابوبکر (میرابھتیجا) وہاں داخل ہوا تو آنا جانا اور بڑھ گیا۔مگر ہر بار یہی ہوتا کہ صدر دروازے میں قدم رکھتے ہی ماضی کی یادیں اپنی آغوش میں لے لیتیں۔ لیاقت ونگ (کالج میں چھ رہائشی ہوسٹلز ہیں جن کے نام مختلف مشاہیر کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، مجھے لیاقت ونگ الاٹ ہوا تھا) اوراس کی dormitoryنمبر1 ۔۔ یہی وہ جگہ تھی کہ آج سے نصف صدی قبل بارش میں بھیگے ہوئے بارہ سال کے بچّے نے جسکی دھلیز پر قدم رکھا تھا۔ آٹھویں سے دسویں جماعت تک لیاقت ونگ ہی ہمارا ہوسٹل تھا اوروہی ہمارا گھر ۔ جب راقم نے اس درسگاہ میں قدم رکھا تو وہ ایک گورنمنٹ اسکول سے پڑھا ہوا دیہاتی پس منظر رکھنے والا بچہ تھا، جو دوسرے روز انگریز پرنسپل مسٹر J.D.H. Chapmanکی تقریر کا ایک فقرہ بھی نہ سمجھ سکا۔
اسی درسگاہ کے قابل اور جذبوں سے بھرپور اساتذہ نے اس بّچے کی صلاحیتوں کو بیدار کیا اور نکھار دیا۔ یہیں اردو کے استاد حسنین صاحب نے غالبؔ اور اقبالؒکے اشعار سمجھائے اور زبان و بیان کے اسرارو رموز سکھائے۔ یہیں عبدالروّف صاحب جیسے انگریزی دان کی وجد آفرین تقریریںسننے اور خطیب صاحب کے پرجوش خطبات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ یہیں منظور الحق صدّیقی صاحب جیسے عظیم مورّخ سے زندگی کے اعلیٰ اصول اور قیامِ پاکستان کا فلسفہ ذہن نشین ہوا۔ یہیں چوہدری سردار صاحب سے ریاضی سیکھی اور انعام الحق صاحب سے تاریخ کا شعور ملا۔
لیاقت ونگ میں چھوٹی موٹی شرارتوں پر سزا کے طور پر فرنٹ رول بھی کیے، بید بھی کھائے اور یومِ والدین کی پروقار تقریب میں انعامات بھی حاصل کیے(اسی کالج سے بہترین مضمون لکھنے پر انعام میں حاصل کی گئی چارسو صفحات کی انتہائی معیاری کتاب اسوقت بھی میری ٹیبل پر پڑی ہے)۔ اس بے مثال درسگاہ میں گزارے ہوئے پانچ سالوں نے بہت کچھ سکھایا۔ ڈسپلن، اسپورٹس مین اسپرٹ، محنت کی اہمیّت اور فضیلت ، آسمانوں کو چھونے والا جذبہ و جنون۔ یہاں سے سیکھے ہوئے ہر سبق نے زندگی کی کٹھن شاہراہوں پر رہنمائی کی اور ہر مشکل موڑ پر انگلی پکڑلی۔ اس درسگاہ کے فارغ التحصیل (ابدالین)ہر شعبہء زندگی کے فلک پر ستارے بنکر چمکے اور ممتاز مقام حاصل کیا۔
بالکل اُسی طرح جیسے گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طلباء (راوینز) نے زندگی کے ہر میدان میں نام پیدا کیا ہے۔ اس سے یاد آیا کہ چند سال پہلے جب نیب(NAB) صرف چہرے نہیں آنکھیں اور دانت بھی دکھاتا تھا اور بددیانت لوگ اس سے ڈرتے تھے ان دنوں اولڈ راوینز کی سالانہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے راقم کو کہنا پڑاکہ "آج ہمیں مہمانِ خصوصی ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ جنھیں ہم بلانا چاہتے تھے انھیں ہم سے پہلے نیب نے بلالیاہے ۔ ہماری مادرِ علمی کے فارغ التحّصیل ہر میدان میں نمایاں حیثیّت کے حامل ہیں اور آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ اولڈ راوینز ہر میدان میں، ہر ایوان میں اور ہر زندان میں موجود ہیں''۔
کالج پہنچنے کے لیے ہم اکثر ٹرین پر سفر کیا کرتے تھے۔ ایک بار حسن ابدال ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹوں کی کھڑکی کیسامنے جب اسٹیشن ماسٹر نے ہمارے کلاس فیلو محبّت علی (جو فوج میں کرنیل بنکر ریٹائر ہوا) سے پوچھا" کس کلاس کا ٹکٹ چاہیے ؟" تو میری طرح دیہاتی پس منظر کے سادہ لوح بچے نے فوراً کہا " جی 9th سی کا" ...(وہ نویں جماعت کے سی سیکشن میں تھا) پیچھے سے آواز آئی سر جی ! اے اور بی سیکشن والے بھی کھڑے ہیں پہلے انھیں ٹکٹ دیں۔
لیاقت ونگ میں ہی ایک بار کسی شرارت پر ہم تین لڑکوں کی ہاؤس ماسٹر صاحب کے پاس طلبی ہوگئی۔کیونکہ ان کے 'مخبر' نے خبرکر دی تھی کہ ''تین ملزموں نے آپ کے (یعنی ہاؤس ماسٹرصاحب کے )لان سے پھول بھی توڑے ہیں اور اوپر سے ان گستاخوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 'بابے کو کونسا پتا چلنا ہے؟ ' ہاؤس ماسٹر صاحب کو بابا قرار دینا ان ملزموں کا ناقابلِ معافی جرم ہے''۔ ہم تینوں ملزمان جونہی ان کے آفس میں داخل ہوئے تو بیدبردار ہاؤس ماسٹر صاحب جارہانہ انداز میں اُٹھ کر ہماری جانب لپکے ۔ وہ ااُسوقت غیض و غضب کا مجسّمہ بنے ہوئے تھے اور غصّے سے اپنے بَیدکی طرح کانپ رہے تھے۔اسی حالت میں انھوں نے ہمیں مرغا بننے کا حکم دیا اور گرجتے ہوئے کہا ''ہاؤس ماسٹر کو بُڈّھا سمجھتے ہو۔
اب بُڈّھے کی مار دیکھو! '' موصوف کو غصّہ پھول توڑنے پر کم اور بڑھاپے کے طعنے پر زیادہ تھا ۔ چنانچہ بڑھاپے کا الزام غلط ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ہم پر آپریشن ضربِ غَضب کا آغاز کردیا، وہ کسی نوآموز بالر کیطرح پیچھے سے اسٹارٹ لیتے ہوئے آتے اور پوری قوّت سے ہدف پرضربِ شدید لگاتے جو ہدف کو یعنی ہمیں ضربِ خفیف ہی محسوس ہوتی کیونکہ ان کی عمر ان کے جوش و جنون کا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔ ہر تازیانے کے بعد موصوف للکارتے کہ ' اب دیکھو بڈّھے کی طاقت !' اُس روز موصوف اپنے ٹارگٹ کوسومنات کا مندر سمجھ کر سترہ حملوں کا ہدف مکمّل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر دوچار حملوں کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ آپریشن کے مطلوبہ اور مثبت نتائج برآمد نہیں ہورہے یعنی ملزموں کے جسموں کے نہ پرزے اڑے ہیں نہ ان کی چیخیں بلند ہورہی ہیں لہٰذا انھوں نے حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کی اور بازو کا زور اور منہ کا شور بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
پانچویں تازیانے پر ہلکی سی ہائے نکلی۔ مگر ملزموں کی نہیں ، قبلہ ہاؤس ماسٹر صاحب کی! چھٹے حملے پر وہ ہانپتے ہوئے آئے اور ہدف پر نشانہ لگاتے ہوئے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اورچاروں شانے چت گرگئے۔ ہم نے اپنے کانوں کو چھوڑ کر ان کی ٹانگیں اور بازو پکڑلیے۔ انھیں سہا را دیکر اٹھایا تو ان کی آنکھوں میں پہلے ندامت اور پھر رحم عود کر آیا اس حالت میں ان کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا 'Getout' ہم اسی لفظ کے منتظر تھے لہٰذا ہم نے حکم بجا لانے میںمعمولی سی بھی تاخیر نہ کی۔
(جاری ہے)