یہ ہے لاہور کی ایک جھلک
دن کی سہ پہر سے لے کر رات گئے تک لاہور کا ایک حصہ جاگ اٹھتا ہے
میں ابھی ابھی گاؤں سے لاہور پہنچا ہوں۔ یہاں سہ پہر کا وقت ہے اور سورج ابھی اپنی آب و تاب نہیں دکھا رہا جو اس نے چند دن بعد دکھائی ہے اور زندگی مشکل کر دینی ہے۔ ہم ٹھنڈے گاؤں سے گرم لاہور آنے جانے والے موسم کی یہ رنگینیاں بارہا دیکھ چکے ہیں۔ ہلکی خنکی میں مدغم ہوتی گرمی سے موسم جو انداز اختیار کرتا ہے اس کا نام نہ جانے کیا ہے نہ گرم نہ سرد موسم گرم ہوتا ہے یا سرد یا پھر میٹھا موسم۔ اگر کوئی موسم میٹھا بھی ہوتا ہے یعنی نہ گرم نہ سرد تو پھر ان دنوں میں اس میٹھے موسم میں دن رات گزار رہا ہوں اور ابھی چند دن مزید یہ موسم میٹھا ہی رہے گا۔
لاہور شہر کا موسم اس کا دریا راوی کا محتاج ہوتا ہے اور راوی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اس شہر کو گرم رکھتا ہے یا سرد یا پھر معتدل اور ان دنوں یہی وہ معتدل موسم ہے جو ملکہ ہندوستان نور جہاں کو بہت پسند تھا اور وہ اس کی کیفیت پر شعر بھی کہتی تھی جو میں نقل کر چکا ہوں۔ میرا خیال ہے جب اس شہر کی ملکہ اس کی کیفیت پر کوئی شعر کہتی تھی تو وہ کسی شاہی محل میں راوی کی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی تھی خدا نے اس نفیس مزاج ملکہ ہند کو اس لاہور سے محفوظ رکھا تھا جس کے ہنگاموں سے ہم گزر رہے ہیں اور یہ پرامن اور پر سکون شہر ان دنوں مشینی دور سے گزر رہا ہے جس میں ہر ممکن شور و شغب برپا رہتا ہے بسوں ٹرکوں کے گونجتے ہارن چھوٹی سواری رکشا اور موٹر سائیکل کے چلنے کا شور اور جن کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے دھماکے کا شور اور پھر زخمی انسانوں کی فریادوں کا واویلا۔ یہ سب لاہور ہے اس کی شناخت ہے اور ہزاروں لاہوری اسی شعور و شغب اور ہنگامے میں پل کر جوان ہو رہے ہیں۔
شاہی مسجد کے مینار اور شاہی قلعے کی مہذب دیواریں یہ سب سننے پر مجبور ہیں اور ان دیواروں کے اندر آباد لاہوری بھی اس شور کے عادی ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس اس شور سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے وہ جہاں بھی جائیں یہ شور ان کے ساتھ جاتا ہے اور وہ اسے زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر برداشت کرتے ہیں اور اسے اپنی بے چین زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہ شور تو بہر حال ہو گا ہی اسے قبول کر کے اس زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو بہتر ہو گا۔
لاہور کی زندگی کی یہ ایک ایسی جھلک ہے جس سے ہر لاہوری آشنا ہے اگر وہ لاہوری ہے تو اس شہر میں ہی ہے کیونکہ اب تو لاہور اتنا پھیل گیا ہے کہ اس سے بھاگنا بھی مشکل ہے۔ لاہور شہر کی کوئی حد تو رہی نہیں لیکن اس کے کسی حصے کو عبور کر کے آپ باہر نکلے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آگے لاہور ہو گا ایک اور لاہور جو دیوار بہ دیوار پرانے لاہور میں مدغم ہو رہا ہو گا۔ لاہور کی ہر طرف کھلی زمین ہے ایک دریا ہے جو پلوں کے ذریعہ لاہور میں گم ہو رہا ہے خدا نہ کرے لاہور کی یہ جاندار نشانی راوی دریا بھی کبھی ایک لکیر بن جائے میں نے کئی دریا لکیروں کی صورت میں بھی دیکھے ہیں جو ماضی کی عبرت بن کر زندہ رہتے ہیں۔ میں جب بھی لاہور سے چند دن دور رہ کر اس شہر کو لوٹتا ہوں تو جذباتی ہو جاتا ہوں۔ کیا ہے جو اس شہر میں نہیں ہے۔ اس شہر کے ایک حصے میں رقص و موسیقی کے غلغلے برپا رہتے ہیں۔
دن کی سہ پہر سے لے کر رات گئے تک لاہور کا ایک حصہ جاگ اٹھتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ لاہور کے اس حصے میں اس شہر گانے بجانے کا ماضی آباد ہے اور قریب ہی شاہی مسجد کے میناروں سے ایک دوسری دنیا کی طرف بلایا جاتا ہے۔ یہ لاہور کا کرشمہ ہے کہ اس کے ایک گوشے میں دو دنیا آباد ہیں حسن و عشق اور رقص و موسیقی کی دنیا اور ساتھ ہی بلند میناروں سے ایک اور دنیا کی آوازیں اور بلاوے۔ سچ ہے کہ لاہور 'لہور' ہے اس سے کوئی کہیں بھی جائے اور کس طرف کا رخ کرے۔ ہر طرف لاہور اپنے کسی نہ کسی رنگ میں آباد دکھائی دیتا ہے اور ہر رنگ اجلا، دلآویز اور جلوہ گر۔
شاید لاہور کی کوئی ایسی ہی صفت تھی کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں نے اس شہر کا رخ کیا اور یہاں مستقل ڈیرے ڈال دیے، اپنے دربار آراستہ کیے اور اپنا فیض جاری کیا اور ہم دیکھ رہے کہ دن ہو یا رات اللہ کے بندے فریادیں لے کر ان کی درگاہوں پر حاضر ہوتے ہیں اور فیض پاتے ہیں اسی شہر میں ماضی کے بادشاہ بھی مدفون ہیں لیکن عوام کے لیے جو لنگر ان بزرگوں کی درگاہوں پر جاری ہے وہ حیران کن ہے۔
عقیدت مند بہترین کھانا تیار کر کے حضرت داتا یا کسی دوسرے بزرگ کے دربار پر لے آتے ہیں یہ تبرک عموماً وہ اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے ہیں اور برکت حاصل کرتے ہیں۔ ان کی مرادیں اسی خیرات سے پوری ہوتی ہیں کہ یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے اور پھر کسی خلق خدا کا پیٹ بھرتا ہے جس سے بڑی نیکی شاید ہی کوئی اور بھی ہو۔ یہ لاہور شہر کا فیض ہے جو اس کے مہمانوں کے توسط سے جاری رہتا ہے اور دن ہو یا رات لاکھوں فرزندان توحید اس برکت سے فیض یاب ہوتے ہیں اور اس سعادت پر فخر کرتے ہیں۔
این سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
بات لاہور شہر کی شروع ہوئی تھی کہ اس شہر میں بکھری ہوئی برکات تک پہنچ گئی۔ داتا کا لاہور اپنا قصہ کہانی ختم ہی نہیں کرتا۔ لاہور کی یہ نہ ختم ہونے والی داستان ہے جو اس شہر کا اعزاز ہے۔