’’اللہ اللہ کریں‘‘

16 لاکھ ریال کی کرپشن کی کوئی حقیقت تھی یا نہیں؟


[email protected]

2009ء میں مشہور ''حج کرپشن کیس ''میں حامد سعید کاظمی باعزت بری ہو کر جیل سے رہا ہوگئے ہیں، کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کیا ہونا چاہیے تھا؟ یہ سب باتیں بعد میں، مگر اُس سے پہلے 2008ء کی ''آپ بیتی'' سناتا چلوں، جب مجھے بھی چند احباب کے ہمراہ حج کی سعادت نصیب ہوئی، اُس وقت سیکریٹری مذہبی امور نجیب اللہ ملک تھے ، فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچے تو ''وی آئی پی'' ہونے کے باوجود نہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ملی، نہ بہتر رہائش اور نہ ہی کھانے کا صحیح انتظام نصیب ہوا۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہم اُن وی آئی پیز میں شامل تھے جوسرکار کے خرچے سے نہیں بلکہ 'سیلف فنانس' کوٹے سے حج کرنے گئے تھے۔ میرے ساتھ چند ایک دوستوں میں صحافی محسن گورائیہ، شاکربشیر اعوان(ایم این اے)، بلال یاسین(فوڈ منسٹر)، رانا فاروق اور چند دیگر احباب شامل تھے۔ ہمارا یہ حال تھا کہ منیٰ سے عرفات جانا تھا تو ہم نے انڈین حجاج کی بس میں سفر کیا اور جب عرفات سے مزدلفہ جانا تھا تو ہم نے بنگلہ دیشی بس میں سفر کیا یعنی ہمارے لیے بسوں کا انتظام بھی نہیں کیا گیا تھا ، میں نے سوچا کہ جب ہماری یہ حالت کردی گئی ہے تو عام حاجیوں کی حالت کیا ہوگی ؟ ہمیں چونکہ سرکار نے اسپیشل کوٹے میں بھیجا تھا اس لیے ہم قدرے ''سپرئیر '' تھے۔ حالات یہ تھے کہ ان دنوں ہم نے فی کس 2لاکھ 36ہزار روپے ادا کیے تھے جب کہ بھارتی مسلمانوں نے حج کے لیے ڈیڑھ لاکھ اور بنگلہ دیشیوں نے بھی کم و بیش اتنے ہی پیسے خرچ کیے تھے۔

آج بھی پاکستان اور دیگر ممالک کے سرکاری حج اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے رمضان المبار ک میں اشیائے و خورونوش کی قیمتیں آسمان کو پہنچ جاتی ہیں، اسی طرح ہمارے کاروباری حکمران بھی حج سیزن سے اچھا خاصا ریونیو کما لیتے ہیں۔ خیر دوبارہ آپ بیتی پر آتا ہوں ، اُس وقت یہ بات ہمارے لیے باعث شرم تھی اور عام تھی کہ جو شخص خوار ہو رہا ہوتا ہے وہ پاکستانی ہوتا ہے ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جب کوئی ''پاکستان ہاؤس'' سے رابطہ کرتا کہ اُن کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے تو یقین مانیں آگے سے یہ سننے کو ملتا کہ ''آپ یہاں شکایات لگانے آئے ہیں؟ چلیں جا کر اللہ اللہ کریں... '' اب اللہ اللہ کرنے سے تو کوئی ''منکر'' ہی انکاری ہو سکتا تھالہٰذاحجاج کرام سب اللہ پر چھوڑ کر کھلے آسمان کے نیچے سخت گرمی میں عبادت میں مصروف ہو جاتے تھے۔

کچھ کمزور حاجی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے اور اس کے لواحقین ''اللہ کی مرضی '' سمجھ کر صبر شکر کرکے خاموش ہو جاتے۔ 'پاکستان ہاؤس' کا تو یہ حال تھا کہ وہاں صفائی تک کا نظام ناقص، مہنگا کھانا، مہنگی چائے اور اگر کسی سے کہا جاتا کہ اتنی مہنگی چائے وغیرہ تو آگے سے یہی جواب ملتا کہ کیا آپ یہاں لڑنے آئے ہیں؟ چلیں جا کر اللہ اللہ کریں ... اگر کسی سے صاف تولیہ مانگ لیا جاتا تو وہ بھی یہی کہتا کہ چلیں اللہ اللہ کریں، ڈیمانڈیں نہ کریں حتیٰ کہ کسی بات پر بھی انگلی کھڑی کی جاتی تو یہی کہا جا تا، ان حالات کا میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا تھا اور واقعی ''اللہ اللہ ''کر رہا تھا، اسی دوران ہم منیٰ چلے گئے، وہاں دیکھا تو راستے میں جگہ جگہ بے یار و مددگار پاکستانی بیٹھے تھے۔

میں نے ان سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ''سرکار ''کی جانب سے ان کی رہائش کا مناسب بندوبست نہیں کیا گیا، ہم ان حاجیوں کو لے کر پاکستان ہائوس چلے آئے وہاں ہلکے پھلکے احتجاج کے بعد پاکستانی حجاج کرام کے لیے اُن کا '' حق'' دلانے میں کامیاب ہوئے تو یقین مانیں اُن حاجیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر ہماری خوشی دیدنی تھی، کیونکہ انسانیت کا رشتہ ہی انمول ہوتا ہے۔ کاش یہ ہمارے حکمران بھی سمجھ لیں، بقول اقبالؒ

سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے

آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی

پھر اگلے ہی سال 2009ء میں جب حج اسکینڈل منظر عام پر آیا تو دل خوش ہو گیا کہ چلیں اب ان حاجیوں کی سنی جائے گی ، اس اسکینڈل کی کہانی یوں ہے کہ ان دنوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لیا ۔ 2009ء میں پاکستان سے ایک لاکھ 59ہزارافراد حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچے' حجاج کو مکہ مکرمہ کے مختلف علاقوں کی مختلف عمارتوں میں رکھا گیا' 35ہزار حاجیوں کو حرم سے ساڑھے تین سے پانچ کلو میٹر دور 87زیر تعمیر عمارتوں میں ٹھہریا گیا۔ یہ عمارتیں زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے خراب بھی تھیں' ناقابل رہائش بھی تھیں اوربنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھیں' حاجیوں کو دقت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پوری دنیا میں پاکستان کے حوالے سے جگ ہنسائی ہوئی۔اس وقت کسی سعودی شہزادے نے عدالت کو خط لکھ دیا کہ اُس کے پاس جو رہائشیں تھیں وہ بہتر اور سستی تھیں لیکن پاکستانی حکام نے کمیشن کی خاطر حرم سے دور اور مہنگی رہائشیں کرایہ پر حاصل کرکے حجاج کرام کو خوار کیا۔

تحقیقات شروع ہوئیں ، اعظم سواتی جو اس وقت کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تھے نے حامد سعید کاظمی جن کے پاس وزارت مذہبی امور تھی الزامات کی بارش کر دی، اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی ، جوائنٹ سیکریٹری مذہبی امور راجہ آفتاب الاسلام اور ڈی جی حج راؤ شکیل کے نام سامنے آگئے۔ اسی دوران وزیر داخلہ رحمن ملک نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ ''حج انتظامات میں 16 لاکھ ریال کی کرپشن ہوئی تھی' حکومت بدعنوانی کے ذمے داروں کو سخت سزا دے گی'' ملزمان نے اس دوران ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی' یہ ضمانت 15 مارچ 2011ء کو ختم ہوگئی، جسکی وجہ سے حامد سعید کاظمی گرفتار ہوگئے۔

17مارچ 2011ء کو راؤ شکیل کوبھی گرفتار کر لیا گیا ' یہ لوگ اس کے بعد عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ' اور اسپیشل جج سینٹرل ملک نذیر احمد نے 3 جون 2016ء کو حامد سعید کاظمی اور جوائنٹ سیکریٹری آفتاب الاسلام کو سولہ سولہ سال اور ڈائریکٹر جنرل حج کو 40 سال قید کی سزا سنا دی' پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ تینوں جیل بھجوا دیے گئے' حامد سعید کاظمی نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ یہ اپیل 9 ماہ زیر سماعت رہی یہاں تک کہ 20 مارچ 2017ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں کو باعزت بری کر دیا' عدالت کا کہنا تھا ''ملزمان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا''۔

میں عدالتی فیصلے پر کچھ نہیںکہوں گا اور نہ ہی کسی کو مجرم سمجھتا ہوں لیکن چند سوال ہر قانون پسندی شہری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً جو اُس وقت ہم نے دیکھا کیا وہ سب فلمایا گیا تھا؟ اگر ان 20ہزار حاجیوں کی مشکلات کا کوئی باعث بنا تھا تو اُس کی نشاندہی کیوں نہیں کی جارہی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کیس میں جو انکوائری ہوئی کیا وہ بھی غلط تھی۔

تیسرا سوال یہ کہ 16 لاکھ ریال کی کرپشن کی کوئی حقیقت تھی یا نہیں؟... کیا عدالت میں پیش کردہ ساری دستاویزات بھی جھوٹی تھیں' کیا حکومتی وکیلوں کی جانب سے جو اس کیس میں کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے اُس کا بھی کوئی حساب دے گا یا نہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ اگر کوئی قصور وار نہیں ہے تو پھر کیا ریاست سعید کاظمی اور دیگر افراد سے معافی مانگے گی جس نے ان کی زندگی کے اہم ترین سال ضایع کر دیے اور کیا ان کو ہرجانہ بھی ملے گا کہ ان کی شہرت خراب کی گئی ۔ پاکستان کی تاریخ کے دیگر اسکینڈلز کی طرح اب اس پر بھی گرد پڑ جائے گی اور فائل مستقل طور پر بند کر دی جائے گی مگر اصل مجرم تک کبھی نہیں پہنچا جا سکے گا۔ ہمیں ہمارے حکمران یہی کہتے رہیں گے کہ آپ کے لیے یہ شرف کی بات ہے کہ آپ ایک عظیم اسلامی ملک میں رہتے ہیں ، کیا آپ کو اس پر ناز نہیں؟ چلیں جائیں یہاں سے اور ''اللہ اللہ کریں'' ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں