یکسوئیکامیابی کی چابی

ہمارے نوجوانوں کے ساتھ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی اوائل جوانی میں کسی سمت کا تعین ہی نہیں کرتے


محمد عارف شاہ March 29, 2017

رات کا وقت تھا، چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا، گہری اور شدید تاریکی تھی، ایسے میں صرف دریا میں پانی بہنے کے علاوہ کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اچانک اس سناٹے میں ایک چیخ کی آواز ابھری اور کوئی سسکیاں لے کر رونے لگا۔ وہ مسلسل کہہ رہا تھا کہ ''میں بالکل بے کار ہوں، میری زندگی کا کوئی فائدہ نہیں، میں فضول ہوں، مجھے مر جانا چاہیے، کسی کو میری کوئی ضرورت نہیں۔'' پھر اچانک شڑاپ کی تیز آواز آئی اور یوں لگا جیسے کوئی چیز اوپر سے دریا کے پانی میں دھماکے کے ساتھ گری ہے اور پھر دوبارہ مکمل خاموشی چھا گئی۔

یہ دراصل دریا کے کنارے بند پر لگا ہوا ایک پتھر تھا جس نے خود کو بے مصرف اور بے کار سمجھا اور دریا میں کود کر خودکشی کر لی۔ اب ہوا یہ کہ بند میں سے پتھر نکلنے کی وجہ سے وہاں ایک چھوٹا سا سوراخ پیدا ہوگیا، جس سے پانی باہر رسنے لگا، کچھ دیر میں دریا کے تیز بہاؤ نے وہاں ایک بڑا شگاف بنادیا اورپانی تیزی سے بہہ کر باہر آنے لگا چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے کسی کو اس مسئلے کا علم نہ ہوسکا، پتہ اس وقت چلا جب پانی قریبی گاؤں گھروں کے اندر داخل ہوگیا، ارد گرد کی سیکڑوں ایکڑ اراضی زیر آب آگئی، لوگوں کی فصلیں تباہ ہوگئی، مویشی پانی میں بہہ گئے، کئی لوگ جاں بحق ہوگئے، ان کے گھر گرگئے، زندگی بھرکی جمع پونچی ایک ہی رات میں ڈوب گئی اور پھر ایک طویل محنت اور مشکل کے بعد اس شگاف کو بھرا جاسکا اور لوگوں کو مصیبت سے نجات ملی۔

یہ حادثہ کیوں ہوا؟ کیا چیز اس کی وجہ بنی؟ وہ کیا سوچ تھی جس نے ہزاروں انسانوں کو ایک بڑی مصیبت اور مشکل میں ڈال دیا؟ آپ کیا کہتے ہیں؟

جی آپ ٹھیک سمجھے وہ پتھر خود کو بے مصرف اور بے کار سمجھ رہا تھا حالانکہ وہ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا ضامن تھا، اس نے انسانوں کو نقصان سے بچا رکھا تھا۔

اب ذرا اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ خود ہم اور ہمارے نزدیک موجود اکثر لوگ بھی خود کو اس پتھرکی طرح بے کار اور ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً ڈپریشن اور ناکامی کے احساس کا شکار ہوکر خود کو ضایع کر بیٹھتے ہیں،اگر غور کریں تو ایک حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ کسی بھی چیز کو بے کار اور بے مصرف سمجھنا قدرت پر الزام عائد کرنا ہے کہ اس نے ایک بے کار چیز پیدا کر دی حالانکہ ایسا نہیں تھا، ہم میں سے ہر شخص قیمتی ہے، اہم ہے، ضروری ہے، اس کا ایک کام اور میدان ہے۔

یہ دراصل معاشرہ اور نظام تعلیم ہے جو ہمیں ہماری اہمیت بتاتا ہی نہیں بلکہ ہمیں ڈپریشن میں مبتلا کرتا ہے۔ تو مائی ڈیئر، آپ بھی اہم ہیں، ناگزیر ہیں اور بڑے کام کے ہیں، آپ بے کار نہیں ہے، آپ ناکام نہیں ہے، آپ منزل تک پہنچ سکتے ہیں، آپ وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو توجہ اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔ توجہ اور یکسوئی اس دنیا کے دروازے کی چابی ہے، خواب دیکھنے والی آنکھیں کیا کیا سپنے بُنتی ہیں۔ کیا کیا آرزوئیں پاؤں کی زنجیر بنتی ہیں۔ خواہشوں کی مہمیز سے رفتار بڑھتی تو ہے مگر منزل کے تالے یکسوئی کے اسم اعظم سے ہی کھلتے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کے ساتھ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی اوائل جوانی میں کسی سمت کا تعین ہی نہیں کرتے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے کی یہ عام کہانی ہے کہ ہم میں سے کتنوں کو ماں باپ ڈاکٹر، انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔ کلاس میں اسی فیصد نمبر لینے والوں میں سے کچھ ڈاکٹرز بن جاتے ہیں کچھ انجینئرز بن جاتے ہیں اور باقی اچھے طالبعلم زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں چلے جاتے ہیں۔ اب کہنے کو تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ کو منزل ملتی ہے اور کچھ کو نہیں۔ اگر ہم انھی شعبہ جات کو زندگی کے راستے کی ایک کامیابی سمجھ لیں تو ہمیں کامیابی کے نظام کو سمجھنے میں تھوڑی مدد ملے گی۔

میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے یکسو ہوکر محنت کی انھوں نے جوکرنا چاہا وہ کر گئے اور اکثریت جو خوابوں کے پیچھے تھی اور یکسو نہ ہوئی وہ آج تک سوچوں میں گم ہے، جیسے مجذوب پر کوئی حالت رک جاتی ہے۔ کوئی سوچ آ کر ٹھہر جاتی ہے ایسے ہی بے چارے ابھی تک بس کسی ان دیکھی دیوار سے بندھے ہیں۔ ان سے بات کی جائے تو بے شمار خواہشوں کے خیالوں میں گم ہیں۔ لیکن آج بھی یکسو نہیں۔ فیضؔ نے کہا تھا کہ:

''یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم

وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں''

ایسے ہی آرزوں سے بڑھ کر منزل کی جانب یکسو قدم بڑھانا ہی آپ کو منزل سے قریب کرتا چلا جاتا ہے اور اگر آپ اس ہنر سے بے بہرہ ہیں تو ہزاروں گرداب آپ کے منتظر ہیں۔ پھر ہاتھ جیسے الجھے ہوئے ریشم میں دھنستا چلا جاتا ہے اور پاؤں کسی ان دیکھی کھونٹی سے زنجیر ہونے لگتے ہیں۔ ماضی کے لوگ جب زندگی کی سمت متعین کرتے تھے تو اس وقت معلومات اس آسانی اور فروانی سے دستیاب ہی نہ تھیں۔ آج دنیا آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ اس سے ہاتھ ملائے اور جو پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیے۔ ان گنت معلوماتی ویب سائٹس اور لامحدود معلومات، جہاں آپ جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں اس کا راستہ کھوج سکتے ہیں۔ نشانِ منزل کی رہنمائی لے سکتے ہیں لیکن صرف ایک صفت آپ کو اپنانا ہو گی اور وہ ہے یکسوئی۔ ایک سمت، ایک راستہ، زیادہ کشتیوں کے سوار کا جو حال ہو سکتا ہے اس کی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں۔

اس مختصر زندگی میں آپ نے وہ فیصلہ کرنا ہے کہ آخر اس زندگی سے آپ کیا کام لینا چاہتے ہیں۔ اپنے نام کو تنہائی میں پکار کر پوچھیے کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں اور اگر اس کا جواب پا لیں تو پھر یکسو ہو جائیں۔ آپ کسی نہ کسی کام کے ماہر ہو جائیں گے۔ آپ اس پیشے کے سردار ہوں گے۔ وہ شہرت جو آپ اپنی سوچوں میں اپنے لیے سوچتے ہیں آپ کو ایسے ہی حاصل ہوں گی۔ لکھنے والوں نے لکھا کہ اگر آپ کا راستہ دشوار ہوا چلا جاتا ہے تو اس امرکی نشانی ہے کہ آپ چڑھائی کے سفر پر گامزن ہیں، بس اگر آپ کو زندگی مشکل دکھائی دیتی ہے،کسی منزل کے حصول میں سانس اکھڑنے لگی ہے اور بہت زیادہ گہرا گرنے کا خوف ہے تو آپ چڑھائی کے سفر پر ہیں۔ کہتے ہیں یکسوئی روزانہ نہانے کے مترادف ہے۔ اس سوچ سے خود کو تازہ دم کر کے اپنے دن کا آغاز کیجیے۔ آج نہیں، تو کل،کل نہیں تو پرسوں آپ جسے منزل سمجھتے تھے وہ آپ کو نشان منزل لگنے لگے گی کیونکہ اس راہ میں مقام بے محل ہے۔ چلنے والے نکل گئے ہیں اور جو ٹھہرے ذرا وہ کچلے گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں