ہوئے تم دوست جس کے …
بھارتی میڈیا بھی نئے پاکستانی آرمی چیف کی بہادری کے قصے بیان کرتا دکھائی دیا
سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دور اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے انتہائی جرأت مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کیے گئے جن سے نہ صرف قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کی کمر توڑنے میں مدد ملی بلکہ انھوں نے کراچی اور بلوچستان میں مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ قوم ان اقدامات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل درآمد میں جنرل راحیل شریف کا کردار نیز بھارت کی بلا اشتعال جارحانہ کارروائیوں کا بھرپوراور موثر جواب بھی ان کی نیک نامی اور عوام کے دلوں میں ان کے لیے عزت و احترام کی جگہ بنانے کا باعث بنا۔ نئے آرمی چیف کو ان کے چھوڑے ہوئے اس ورثے کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ اس وقت جب دہشتگردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، عوام نئے آرمی چیف سے بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا قلع قمع کر کے دائمی اور دیرپا امن کے قیام کا دیرینہ خواب سچ ثابت کر دکھائیں گے اور اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو سی پیک کے خلاف بھارت کے برے عزائم اور لائن آف کنٹرول، ورکنگ باؤنڈری کی بلا اشتعال خلاف ورزیوں جیسے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ اس حوالے سے ان کے وسیع تجربے کی بنیاد پر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نئی فوجی قیادت عوام کی مسلسل اور بھرپور حمایت سے ان تمام مسائل سے بطریق احسن عہدہ برآ ہو سکے گی، جن کا ملک کو سلامتی کے حوالے سے سامنا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے شہری ادارے بھی امن و امان قائم رکھنے کی اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور وفاقی خواہ صوبائی حکومتیں انھیں تربیت و ساز و سامان کی فراہمی کے حوالے سے تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کریں تا کہ وہ اپنے فرائض پیشہ ورانہ طریقے سے ادا کر سکیں۔ نئے آرمی چیف جنرل قمرباجوہ کے تعارف کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی تقرری سے بھارت میں گویا ہلچل مچ گئی ہے اور وہاں کے عسکری و دفاعی ماہرین نے اپنی حکومت کو ان سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا بھی نئے پاکستانی آرمی چیف کی بہادری کے قصے بیان کرتا دکھائی دیا، اس کے ساتھ ہی بھارت کے ایک سابق آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار کو متنبہ کیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو آزمانے کی غلطی ہرگز نہ کریں ورنہ زندگی بھر پچھتائیں گے۔ جنرل بکرم نے کہا کہ جہاں تک وہ جنرل باجوہ کو جانتے ہیں وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ دریں اثنا پاک فوج کے سابق سینئر افسران نے جو جنرل باجوہ کو قریب سے جانتے ہیں، بتایا ہے کہ وہ دفاعی امور میں اعلیٰ مہارت رکھنے کے ساتھ جمہوریت کی بالادستی پر بھی پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ادھر برطانوی اخبارات نے پاکستان آرمی میں کمان کی تبدیلی پر جو تبصرے کیے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ عسکریت پسندوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کریں گے۔ ان کے مطابق پاکستان کے نئے آرمی چیف خاموش طبع آدمی ہیں اور ان کے دور میں حکومت سے ہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملے گی۔
ملکی ذرایع ابلاغ میں نئے آرمی چیف سے متعلق گرم خبروں کے مطابق جنرل باجوہ فوری فیصلہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افسرکے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ اور ان کے پیشرو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ ورانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں میں جنرل راحیل ہی کی طرح 'کھلے ڈلے' افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انھی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہش مند رہتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں ان کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے بعض افسروں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر بے تکلف گفتگو کی جا سکتی ہے۔
ان کی یہ خوبی انھیں اپنے ساتھیوں میں مقبول و ممتاز بناتی ہے۔ خبروں کے مطابق پاکستانی فوج کے سینئر افسر عام طور پر اپنے آپ کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رکھنے کی جستجو میں سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے عموماً اپنے قریبی دوستوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی پرہیز ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن جنرل قمرباجوہ اس معاملے میں مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے پرانے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف سیاسی معاملات پر پختہ رائے رکھتے ہیں بلکہ اس کا اظہارکرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ یوں وہ ایک کھلے ڈلے بے تکلف شخص کے طور پر اپنے ملنے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جنرل راحیل کی طرح جنرل باجوہ بھی فوری فیصلہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت کے مالک ہیں جو دونوں میں قدر مشترک ہے۔ جنرل راحیل نے شمالی وزیرستان میں کئی برس سے التوا میں پڑے فوجی آپریشن کو شروع کر کے اور 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے موقعے پر فیصلہ کن کردار ادا کر کے اپنی اس صلاحیت کو منوایا تھا جب کہ جنرل باجوہ کو بھی آگے چل کر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے بہت مواقعے ملیں گے۔
امریکی تھنک ٹینکس کا بھی یہی خیال ہے کہ جنرل باجوہ کی پاک فوج کی کمان سنبھالنے سے سول ملٹری تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کو خوش آیند قرار دیا اور کہا ہے کہ امریکا حسب معمول پاکستان کی منتخب اور عسکری قیادت کے ساتھ مل کرکام کرتا رہے گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود جنرل قمر باجوہ کو بطور نیا آرمی چیف منتخب کرنے والے وزیراعظم نواز شریف کی، جنھیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی سربراہ مقرر کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ارد گرد موجود قریبی ساتھیوں میں سے کچھ لوگ عین اس وقت جان بوجھ کر ٹھیک چلتے ہوئے معاملات بگاڑ دیتے ہیں جب انھیں نہ چھیڑنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔
اب یہی دیکھ لیجیے کہ کمان کی تبدیلی سے محض دو روز پہلے وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ انکشاف کرنا ضروری سمجھا کہ سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف، جنرل راحیل شریف کی مدد سے ملک سے فرار ہوئے تھے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹھے بٹھائے انھیں یہ کیا سوجھتی ہے کہ وہ اپنے لیڈرکو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں۔ اس نازک موڑ پہ ہے، ہم نظام کے ڈی ریل ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ رہے میاں صاحب کے نادان دوست تو ان سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو