افغان محنت کش کہاں جائیں
جنرل ضیاالحق کے دور میں پاک افغان سرحد پہ ایک سو پانچ دہشتگردی کی تربیت گاہیں قائم کی گئیں
افغان اور پختون برصغیر، وسطی ایشیا اور روس میں کثیر تعداد میں رہتے ہیں، یہ اسرائیل سے ہجرت کرکے موجودہ خطے میں آگئے ہیں۔ پاکستان میں سرائیکی بولنے والے چاروں صوبوں میں پائے جاتے ہیں لیکن کہیں بلوچی، کہیں سندھی، کہیں پنجابی اور زیادہ تر سرائیکی زبان بولتے ہوئے ملیں گے۔ اسی طرح افغان، کہیں فارسی،کہیں، بلوچی،کہیں پشتو اور کہیں اردو بولتے ہیں۔ ہندوستان میں رام پور، شاہ جہاں پور اور غازی پور سمیت بے شمار علا قوں میں پشتون صدیوں سے آباد ہو گئے ہیں جو اب ہندی یا اردو بولتے ہیں، انھیں پشتو نہیں آتی۔ لہٰذا زبان، نسل اور تہذیب کی بنیاد پر کسی انسان کو ذلت یا اذیت کا ہدف بنانا انتہائی غیر انسانی اور غیراخلا قی عمل ہے۔
یہ عمل آج سے نہیں، ہمارے حکمران طبقات صدیوں سے عالمی سامراج کی پشت پناہی سے کرتے آ رہے ہیں۔ جب افغانستان میں امان اللہ خان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو بنگال کے سوشلسٹ رہنما سبھاش چندربوس، مولانا عبیداللہ سندھی اور جنگ آزادی کے دیگر معروف رہنماؤں نے آزاد ہندکی عبوری حکومت کابل میں قائم کی تھی لیکن امان اللہ خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس آ زاد ہندکی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ جب افغانستان میں شاہ داؤد کی بدترین بادشاہت کا انقلابی عوام نے خاتمہ کر دیا اور نور محمد ترکئی کو صدر بنایا تو سامرا جی سازشیں شروع ہو گئیں اور یہ سازشیں ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور تک جاری رہیں۔ کمیونسٹ نظریات کے حامل نور محمد ترکئی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ''ولور'' بردہ فروشی، سود (عرف عام میں کابلی پٹھا نوں کا سود) جاگیرداری کاخاتمہ کر کے تیس جریپ سے زیادہ زمین بے زمین کسا نوں میں بانٹ دی، اس وقت شرح تعلیم دس فیصد سے بڑھ کر چالیس فیصد ہو گئی تھی، ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تیار ہو گیا تھا۔
ہیروئن کی کاشت پانچ ہزار سے سات ہزار ایکڑ زمین پر ہوتی تھی اور جب سے امریکی افواج افغانستان میں آئی ہیں، دو لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین پر ہیروئن کی کاشت ہو رہی ہے۔ اس انقلابی اور حقیقی سامراج مخالف حکومت کے خاتمے کے لیے عالمی سامراج ( امریکا، یورپ اور نیٹو) سرگرم عمل ہوگئے تھے۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں پاک افغان سرحد پہ ایک سو پانچ دہشتگردی کی تربیت گاہیں قائم کی گئیں جن میں ہالینڈ، بیلجم، اسرائیل، امریکا، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ کے انسٹرکٹرز نام نہاد افغان مجاہدین کو تربیت دینے لگے۔ تربیت حاصل کرنے والے طالبان کا جے یو آئی کے مدارس سے تعلق تھا جب کہ مالیاتی امداد کا انچارج جے آئی کو بنایا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں تیس لاکھ افغان ہمارے مہمان بنے۔ طالبان کی افغانستان میں مسلح ہو کر داخل ہونے اور پاکستان میں افغان مہاجرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے پی ٹی وی پر مسلسل بڑے فخرکے ساتھ دکھایا جاتا تھا۔
اب ہو سکتا ہے کہ کچھ عسکریت پسند افغانوں نے پاکستان میں داخل ہو کر دہشتگردی کی ہو جیسا کہ پا کستان کے عسکریت پسند افغانستان میں جا کر دہشتگردی کرتے ہیں، تو ان افغان دہشتگردوں کو روکنا پاکستان کی حکو مت کی ذمے داری بنتی ہے۔ اس لیے بھی کہ انھوں نے ہی انھیں مہمان بھی بنایا تھا مگر اس وقت قطعی اکثریت افغان با شندے دہشتگرد نہیں ہیں۔
اگر ہزار میں دو چار ہیں تو اس کی سزا کے مستحق سب نہیں جب کہ ہما ری حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ملک بھر میں خاص کر پنجاب میں افغانوں اور پختونوں کی بلا امتیاز گرفتاریوں کے بہانے ان سے رشوت خوری کر رہی ہے اور کراچی میں بھی افغان پختون اور بنگالیوں کے ساتھ یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ بلوچ کالونی کا ایک ہوٹل والا جو کہ کوئٹہ کا پٹھان ہے، پولیس اسے اٹھا کر لے گئی اور دس ہزار رو پے وصول کر کے چھوڑ دیا ، اب وہ غریب ہو ٹل والا اپنا نام بتانے اور شکایت کر نے سے گھبرا رہا ہے۔ اسی طرح سے کورنگی سے ایک بنگا لی زین العابدین نے راقم کو فون کیا کہ یہاں پا کستانی بنگالیوں کو بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر گرفتارکر کے رقم وصول کی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ڈینسوہال کراچی میں ایک پختون رکشے والے کو پانچ پولیس والوں نے گھیر لیا اور اس کی بلا وجہ تلاشی شروع کر دی۔ جب میں نے پوچھا اور تعارف کروایا تو شاید میرے سامنے پیسوں کا مطالبہ نہ کر پائے۔ یہ بھی بہت بری بات ہے کہ بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو قتل کیا جاتا ہے اور پنجاب میں پشتون اور افغان مزدوروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ درحقیقت ایسا لگتا ہے کہ حکمراں آیندہ ہونے والے انتخابات میں نسلی بنیادوں پر جیتنا چاہتے ہیں نہ کہ طبقاتی بنیادوں پہ۔
یہ ویسا ہی عمل ہے جیسا کہ امریکا میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی سرکارکر رہی ہے، مگر سرمایہ دارعوام کو تھو ڑے عرصے کے لیے تقسیم توکر سکتے ہیں،لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ پاکستان میں جگہ جگہ مسائل کی بنیاد پر بلا رنگ ونسل، مذہب، محنت کش متحدہو کر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور مودی کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن دور نہیں جب دنیا ایک ہو جائے گی۔ تمام انسان برابری کی بنیاد پر دنیا کے تمام وسائل کے مالک ہوںگے۔