پاکستان کامیاب دشمنوں کے حصار میں

بھٹو صاحب نے اپنے دوست سیاستدان سے فرمائش کی کہ ان کے جلسے پر لاٹھی چارج کیا جائے اور وہ بھی ذرا سختی کے ساتھ۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
ہمارے حکمران یا تو لانگ مارچ والے طاہر القادری صاحب سے اندر خانے ملے ہوئے ہیں یا پھر وہ پرلے درجے کے احمق سیاستدان اور منتظم ہیں جن کو یہ تک پتہ نہیں کہ اگر ایک معمولی سے جلسے یا جلوس کو روکا جائے، اس پر سختی کی جائے تو وہ چھوٹا ہونے کے باوجود کتنا بڑا بن جاتا ہے اور جب کوئی جلوس یا لانگ مارچ وغیرہ پہلے سے ہی بڑا ہو اور اس کے پاس وسائل بھی کسی سیاسی جماعت کے تصور سے بھی بالاتر ہوں تو پھر وہ کسی حکومتی سختی سے صرف بڑا نہیں بلکہ دیو بن جاتا ہے۔

یہ میں کوئی انکشاف نہیں کر رہا، میں نے زندگی میں کئی معمولی جلسے جلوس بڑے بنتے دیکھے ہیں اور وجہ حکمرانوں کی گھبراہٹ، حکومت کی کمزوری یا پھر اقتدار والوں کی کوئی اپنی سازش۔ ان دنوں حکمرانی پیپلز پارٹی والوں کے پاس ہے، میں انھی کے بانی کی مثال دیتا ہوں جو میں کبھی پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ بھٹو صاحب کی احتجاجی سیاست کا آغاز تھا، ابھی سیاست چلی نہیں تھی، اس دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں پیپلز پارٹی کا ایک جلسہ ہونے والا تھا جس سے بھٹو صاحب نے خطاب کرنا تھا، اس ذہین سیاستدان کو یاد آیا کہ اس علاقے کا کمشنر تو ان کے دوست ملک غلام جیلانی کا برادر نسبتی وجیہہ الدین احمد ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے اس دوست سیاستدان سے فرمائش کی کہ ان کے جلسے پر لاٹھی چارج کیا جائے اور وہ بھی ذرا سختی کے ساتھ کیا جائے۔

ملک صاحب نے وجیہہ الدین سے کہا اور مولانا صلاح الدین احمد کے اس بیٹے نے جلسے والوں کا حلیہ بگاڑ دیا۔ جب میں امروز کا چیف ایڈیٹر تھا تو وجیہہ صاحب پریس ٹرسٹ کے چیئرمین اور ہمارے باس تھے، انھوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی تھی۔ عرض یہ ہے کہ خوفزدہ حکمرانوں کی نادانیاں بہت کچھ کر دیتی ہیں۔ ہمارے ایک دوست مجسٹریٹ کہا کرتے تھے کہ کسی جلسی کو جلسہ اور کسی گروہ کے مظاہرے کو جلوس ہم بناتے ہیں۔ پھر وہ اپنی ان شوقیہ کارروائیوں کی مثالیں بھی دیا کرتے تھے۔ اس وقت کی خبروں کے مطابق لگتا ہے کہ حکمران کسی بھی وجہ سے قادری صاحب کے جلوس کو ان کی توقعات سے بھی بڑا بنا رہے ہیں۔ مسلح دستے لانگ مارچ کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کے کسی خطرے سے بچنے کے لیے اسلام آباد کو آہنی رکاوٹوں سے ایک بند شہر بنا دیا گیا ہے۔


علاوہ ازیں قادری صاحب کو منانے کے لیے حکومت اپنے بااثر ایلچی بھجوا رہی ہے۔ حکومت کا خوف اور سراسمیگی دیکھ کر شیر بن جانے والے قادری صاحب حکومتی نمایندوں کی بے عزتی کر رہے ہیں۔ ملک ریاض صاحب کو تو وہ دیکھتے ہی بھڑک اٹھے کیونکہ ان کی ذات گرامی ''لین دین'' کا دوسرا نام ہے۔ انھوں نے اپنی بے پایاں دولت سے بڑے بڑے نامور لوگوں کو بھی اپنا بنا لیا ہے' اس قدر کہ وہ خود سب کچھ رکھتے ہوئے بھی ان کی پناہ میں امن محسوس کرتے ہیں۔ قادری صاحب کی دولت پاکستان بھر میں نعرے لگا رہی ہے جن کا آغاز مینار پاکستان سے ہوا تھا۔

میڈیا کی حیرت انگیز آزادی اور وسائل یہ سب کچھ لفظ بہ لفظ اور حرکت بہ حرکت قوم کو دکھا رہی ہے، اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ قادری صاحب کا لہجہ اور الفاظ سخت سے سخت ہوتے جا رہے ہیں، دوسرا نتیجہ غالباً یہ کہ اس اچانک ہنگامے کے پس منظر میں جو عناصر ہیں، وہ بہت مطمئن ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اندازے نہیں کہ بم سے ہزاروں گنا زیادہ طاقت ور حکومتیں ہمیں مٹانے کے لیے دانت پیس رہی ہیں۔ ان کے تھنک ٹینک منصوبوں کا ایک ڈھیر لگا رہے ہیں جن کا ایک منظر ہم شیعہ سنی چپقلش کی صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ کتنی زیادہ میتیں ،کتنے وقت سے تدفین کی منتظر ہیں۔

ایسا پاکستان تو کجا کہیں بھی مدتوں سے نہیں دیکھا گیا۔ میں نے ایک برطانوی مورخ اور دانشور پروفیسر برنارڈ کی ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ مسلمانوں کی قومی کمزوری اور انتشار کے لیے شیعہ سنی تنازعہ کافی ہے جو صدیوں سے آ رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ امریکا نے پہلے عراق میں اور اب پاکستان میں یہی تنازعہ زندہ کر دیا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں اس کشیدگی اور حد سے زیادہ پریشانی کی ایک بنیادی وجہ خود یہاں کی نام نہاد حکومت تھی، حیرت ہے کہ صوبے میں پوری اسمبلی وزیر یا مشیر ہے اور اس کا وزیراعلیٰ معلوم نہیں کون سی مخلوق ہے کہ ان حالات میں بھی وہ غیر حاضر تھا۔ امریکا 2014ء میں افغانستان سے نکلنے والا ہے لیکن وہ وہاں سے نکلنے سے پہلے افغانستان کے لیے اہم ترین ملک پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر جائے گا۔ اس امریکی سازش کی تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ یا اس سازش کی کارروائیوں کے ساتھ بیان کی جاتی رہیں گی۔ اس امریکی سازش کی طرف اشارے بہت پہلے کر دیے تھے مگر ہمارے حکمرانوں کی مصروفیات پاکستان کے سوا ہیں۔

جناب طاہر القادری جو اپنے لیے پاکستان کے وزیراعظم کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ ہمارے جو حالات ہیں اور معاملے کی جو نوعیت ہے اس میں ان کا کوئی بھی نعرہ بلند آہنگ ثابت ہو سکتا ہے۔ فی الوقت اتنا ہی کیونکہ یہ سلسلہ لمبا چلے گا مگر ہم اس کے ساتھ چلیں گے یا نہیں واللہ عالم۔
Load Next Story