سیاسی کارکن اور سیاسی ہاری
جب تک اس ملک میں فیوڈل جمہوریت اور خاندانی حکومتوں کا دور رہے گا، سیاسی کارکن کی حیثیت سیاسی ہاری ہی کی رہے گی
کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی کامیابی،عوام میں اس کی مقبولیت اور اسے انتخابات میں کامیابی دلانے کا سہرا اس کے کارکنوں کے سر ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں جن ملکوں میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کا حق کارکردگی اور قربانیوں کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے اور پارٹیوں میں جمہوری کلچر مستحکم ہوتا ہے وہاں سیاسی کارکنوں کو پارٹی کی سربراہی تک رسائی کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔
مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پارٹی کی قیادت کا انتخاب ایک طویل جمہوری پراسس اور سیاسی خدمات کے پس منظر میں ہوتا ہے، امریکا کے موجودہ صدر بارک اوباما کا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس خاندان سے ہے اور نسلی اعتبار سے بھی اس کا تعلق نیگرو کمیونٹی سے ہے جسے صدیوں تک امریکی معاشرے میں نچلی اور ذلت جیسی کمیونٹی سمجھا جاتا تھا اور صدیوں تک افریقہ سے کالوں کو جہازوں میں بھر کر امریکا لایا جاتا تھا اور انسانوں کی منڈیوں میں جانوروں کی طرح بیچا جاتا تھا لیکن امریکا میں سماجی ارتقاء کے تسلسل نے آج اسی منڈیوں میں بیچی جانے والی کمیونٹی کے ایک فرد کا امریکا کا دوسری بار صدر بنادیا۔
یہی صورت حال مغربی دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہے کہ یہاں سیاسی کارکنوں کے لیے اپنی سیاسی خدمات کے ذریعے پارٹی اور ملک کی صدارت اور وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ خود ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں سیاسی کارکن وزارت عظمیٰ اور صدارت کے عہدوں پر فائز رہے ہیں جن میں ٹریڈ یونین کے کارکن بھی شامل ہیں ان ملکوں میں کسی پارٹی کی صدارت ملک کی صدارت یا وزارت عظمیٰ کے عہدوں تک پہنچنے کے لیے جاگیردار ہونا صنعتکار ہونا یا اشرافیہ کا فرد ہونا ضروری نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں جاگیرداری کا زہریلا پیڑ روز اول ہی کاٹ دیا گیا تھا۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ 65 سال گزرنے کے بعد بھی ہماری سیاسی پارٹیوں میں سیاسی کارکنوں کی حیثیت ہاریوں اور بھٹہ مزدوروں سے زیادہ نہیں ہے۔ محنت کش اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی دن رات کی محنت اور قربانیوں سے اپنی سیاسی جماعتوں کے ناخداؤں کو خدا بنادیتے ہیں، انھیں انتخابات میں اپنی کاوشوں، قربانیوں سے جتوا کر صدارت اور وزارت عظمیٰ تک پہنچاتے ہیں، پھر ان کے لیے ایوان صدر، پرائم منسٹر ہاؤس، سی ایم ہاؤس نوگو ایریا بن جاتے ہیں، ان ایوانوں تک رسائی خواب بن جاتی ہے
سیاسی کارکن اگر باشعور ہوں اور ان میں نظریاتی سیاست کا شعور ہو تو ان کی وفاداری پارٹی کے منشور سے ہوتی ہے جس کی تشکیل میں ان کی امنگوں اور خواہشوں کا دخل ہوتا ہے۔ ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کارکنوں کی وفاداریاں پارٹی منشور سے نہیں ہوتیں بلکہ پارٹی پر مسلط ان جاگیرداروں بڑے صنعتکاروں اور اشرافیہ کے اوتاروں سے ہوتی ہے جو وراثتی سیاست کے ذریعے نسل در نسل پارٹیوں کی قیادت پر مسلط رہتے ہیں اور ان کا رتبہ پارٹیوں میں بھگوان جیسا ہوتا ہے جس کے آگے پارٹی کا کارکن صرف جھک سکتا ہے سجدے کرسکتا ہے آرتی اتار سکتا ہے، پوجا پاٹ کرسکتا ہے لیکن ان کا مقابلہ کرنے ان کی جگہ لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اس کلچر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی کارکنوں کو آگے آنے اور پارٹی کی قیادت تک پہنچنے کا راستہ روکنے کے لیے باضابطہ ولی عہدی نظام رائج اور مستحکم کیا جارہا ہے۔ مجھے حیرت ہے اور میں حیرت سے ان سیاسی باشعور تعلیم یافتہ سیاسی کارکنوں کو دیکھتا رہتا ہوں جو وزارت عظمیٰ اور صدارت کے عہدوں کے مکمل طور پر اہل ہونے کے باوجود اور اپنی پارٹی کے لیے کام کرتے ہوئے اپنے بال سفید کرنے کے باوجود آج بھی سیاسی ہاریوں کی طرح اپنے خاندانی رہنماؤں کی آرتی اتارنے ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ عام سیاسی کارکن کی اس غلامانہ ذہنیت کا تو یہ جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارے فیوڈل کلچر کا اسیر ہے لیکن ان اعلیٰ تعلیم یافتہ پارٹی کی خدمت میں بال سفید کرنے والے سیاسی کارکنوں کا اپنی اشرافیائی قیادت کی پوجا کرنا ان کی آرتی اتارنا اور ان کے تیار کردہ چوزوں کی ولی عہدی کے واری صدقے ہونے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟
حیرت کی بات ہے کہ آج ملک بھر میں ان خاندانی اوتاروں کی بددیانتیوں ان کی اربوں کی کرپشن ان کے شرمناک اور قابل نفرت ولی عہدی نظام کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں جو تحریکیں بن رہی ہیں، اس کے خلاف ہمارے محترم سیاسی کارکن سینہ سپر نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کے دماغوں میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ جمہوریت ہے تو ملک ہے جمہوریت ہے تو پارٹی ہے جمہوریت ہے تو عوام کا مستقبل ہے ورنہ سب تباہ ہوجائے گا۔
بلاشبہ جمہوریت سیاست کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے اس کا برقرار رہنا ملک و قوم کے مفاد میں ہے لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت ہے کہاں؟ ہماری جمہوریت تو اشرافیہ کا ایسا قلعہ ہے جس میں بیٹھ کر وہ بادشاہت کے مزے لوٹ رہا ہے۔ سادہ لوح سیاسی کارکنوں سے اس کی حفاظت کا کام لے رہا ہے۔
ہماری اشرافیائی سیاست کا ماخذ و منبع جاگیردارانہ نظام ہے، جب تک جاگیردارانہ نظام باقی ہے ہماری سیاست آقا اور غلام کی سیاست رہے گی جو لوگ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں وہ عشروں سے بلکہ قیام پاکستان کے روز اول ہی سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، سیکڑوں سیاسی کارکن اس نظام کے خلاف لڑتے ہوئے بوڑھے ہوگئے، مرگئے ۔
آج جاگیردارانہ نظام کے خلاف ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جو آواز اٹھ رہی ہے جو بے چینی پیدا ہورہی ہے اس کا کریڈٹ ان لوگوں کو بھی ملنا چاہیے جنہوں نے اس عفریت کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے بال سفید کرلیے لیکن المیہ یہ ہے کہ آج خاندانی سیاست کے اسیر سیاسی کارکن جاگیردارانہ جمہوریت کے حق میں کھڑے ہورہے ہیں اس بدبخت عوام دشمن نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک سانپ ہے جس کا سر کچلنے کے لیے کوئی کالاچور بھی آگے آتا ہے تو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیاسی جدوجہد میں سیاسی کارکن برسوں جیلوں کی اذیت برداشت کرتا ہے، کوڑے کھاتا ہے اپنے بال بچوں کا مستقبل تباہ کردیتا ہے حتیٰ کہ اپنا خون بھی بہادیتا ہے لیکن اس کی حیثیت سیاست کے گمنام سپاہی کی سی ہی رہتی ہے۔ اگر کوئی سیاسی اوتار دو دن کے لیے جیل جاتا ہے۔ یا کسی اتفاقی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کا یہ کارنامہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے نام پر سڑکوں شہروں ہوائی اڈوں، بڑے بڑے پروجیکٹوں کے نام رکھے جاتے ہیں اور جو سیاسی کارکن اپنی پارٹیوں کے لیے جان دے دیتے ہیں ان کی قبر بھی ان کی زندگی کی طرح گمنام رہتی ہے کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔
ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کے بڑے بڑے خوبصورت مقبرے بنے ہوئے ہیں، تاج محل، رنگین محل جیسے عجوبے بنے ہوئے ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں، بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے نام تاریخ کے صفحات پر جلی حروف میں موجود ہیں لیکن بابر کو بابر اکبر کو اکبر بنانے کے لیے جان دینے والے ان ہزاروں لوگوں کا نہ تاریخ میں کوئی نشان ملتا ہے نہ ان کا نام لیوا کوئی موجود ہے، ایسا اس لیے ہے کہ تاریخ بادشاہوں کی تاریخ ہے رعایا کی تاریخ نہیں جو بادشاہ تخلیق کرنے والے ہوتے ہیں، بادشاہی نظام تو مدتوں پہلے ختم ہوا لیکن ہم ابھی تک اسی بادشاہی نظام میں زندہ ہیں۔
جو کام 65 سال پہلے ہونا تھا، وہ اب ہونے جارہا ہے، اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے تمام حلقے آج اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ کم ازکم 65 سال بعد ہی سہی اب تو اس جاگیردارانہ سرداری قبائلی نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جانا چاہیے لیکن اسے جمہوریت کے پردے میں چھپاکر اس کی حفاظت اس کی بقا کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے جس میں سیاسی کارکنوں کا کردار بڑا اہمیت کا حامل ہے۔ انھیں جمہوریت کو جاگیردارانہ نظام سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔
زمینی، صنعتی اشرافیہ جمہوریت کے نام پر جاگیردارانہ نظام کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کوشش میں سیاسی کارکنوں ہی کو استعمال کر رہی ہے۔ سیاسی کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک اس ملک میں فیوڈل جمہوریت اور خاندانی حکومتوں کا دور رہے گا، سیاسی کارکن کی حیثیت سیاسی ہاری ہی کی رہے گی، وہ اپنی جماعتوں کے سیاسی بھگوانوں کو ایوان صدر، پرائم منسٹر ہاؤس تک تو پہنچاتا رہے گا لیکن ان ہاؤسوں کے دروازے اس کے لیے بند ہی رہیں گے اور وہ صرف معمولی سی نوکری ایک چھوٹے سے پلاٹ کے پیچھے بھاگتا رہے گا، ایوان صدر پی ایم اور سی ایم ہاؤس تک پہنچنا، اس کا حق ہے اور یہ حق اسے اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اس کرپٹ بادشاہ نظام کو توڑ نہیں دیتا۔