بھیانک جرم
پاکستان میں ہونے والی ہر چھ میں سے ایک زچگی غیر محفوظ طریقے پر انجام پاتی ہے۔ اِسقاط کا حال اِس سے بھی برا ہے.
دنیا میں آنے والا ہر بچہ بہ زبانِ حال پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدا انسانوں سے ابھی مایوس نہیں ہوا۔ یہ یاسیت کی انتہا ہے کہ انسان آنے والے انسانوں کے قتل پر آمادہ ہوجائے۔''رو وی ویڈ'' Roe v Wade (1973) امریکی سپریم کورٹ کا ایک ایسا ہی فیصلہ نظر آتا ہے ۔40 برس گزرنے کے بعداِس فیصلے کے اثرات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
دنیا بھر میں آج بھی ایک بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جوہر برس لاکھوں بچوں کے ''نامولود'' سے نو مولود کے سفر کو ابتدا ہی میں ختم کر دیتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں چارکروڑ چالیس لاکھ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں۔دو کروڑ کے قریب اسقاط غیر محفوظ طریقے پر انجام دیے جاتے ہیں۔نتیجے کے طور پر قریباً 68 ہزار خواتین موت کا شکار ہوتی ہیں۔یہ زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا 13فی صد ہیں۔اندازہ ہے کہ دنیا بھر میںہر برس 2ارب50لاکھ زچگیاں ہوتی ہیں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ حقوقِ نسواں کی تحریک اپنی ابتدا ہی سے صرف نوجوان خواتین کی تحریک رہی۔ خاص کر ملازمت پیشہ نوجوان خواتین کی۔اِس تحریک نے خواتین کو گھروں سے نکال کر ملٹی نیشنلز کے سپرد کرنے میں تو بڑا زور صرف کیا لیکن حاملہ اور عمر رسیدہ خواتین کے مصائب ہمیشہ توجہ طلب ہی رہے۔اسقاطِ حمل کی بلواسطہ یا بلا واسطہ ترغیب تو بہت نظر آئی لیکن اِس سے عورت کی جو دُرگت بنی اُس پر کام نہ ہو سکا۔نہ ہی حقوقِ انسانی کے دعوے داروں کو کبھی اِس کا خیال آیاکہ ہر برس ساڑھے چارکروڑسے زائداسقاط دراصل ساڑھے چارکروڑ نفوس کا قتل ہے۔
ہر برس اِن کروڑوں معصوم نامولود بچوں کا قتل ایک قبیح اور بھیانک جرم ہے۔یہ زمین اِن نامولودوں کے خون سے بوجھل ہوئی جا رہی ہے۔یہ فضا ان معصوم روحوں کی آہوں ، سسکیوں اور ہچکیوں سے لبریز ہے۔ہر حساس دِل یہ بوجھ خود اپنی روح اور قلب پر محسوس کر سکتا ہے۔''پال''(1923،مساوات کے حقوق کی شق کا خالق) کہتا ہے کہ ''اِسقاط عورت کا شدید تر استحصال ہے۔''سوال یہ کہ اِس ظلم و استحصال پر ، اِس قتلِ عام پر کب بات ہوگی ؟کون بات کرے گا؟جنھیں اِس دنیا میں کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا اُن کے قتل کا مقدمہ کون اور کِس عدالت میں لڑے گا؟
پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں، کسی بھی لیڈی ڈاکٹر سے بات کریں ۔یقیناً اُس کے پاس کم از کم ایک ایسی مریضہ ضرور لائی گئی ہوگی جوغیر محفوظ اِسقاط کا شکار ہو کر انتہائی نازک حال میں اسپتال پہنچی ہو۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر برس ایسی کم ازکم 30 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر چھ میں سے ایک زچگی غیر محفوظ طریقے پر انجام پاتی ہے۔ اِسقاط کا حال اِس سے بھی برا ہے۔ایک رپورٹ (گٹ میچر انسٹی ٹیوٹ ) کے مطابق ہر برس پاکستان میں 9لاکھ اسقاطِ حمل ہوتے ہیں۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسقاطِ حمل کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں سے قریباً دو لاکھ پاکستانی خواتین متاثر ہوتی ہیں۔1990سے قبل تک پاکستان میں اِس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی تھی۔نو آبادیاتی دور کا پینل کوڈ ہی واحد قانون تھا۔
ہمسایہ ملک بھارت میں حالات اور بھی دِگرگوں ہیں۔بھارت میں 1972میں 24300اسقاط ریکارڈ کیے گئے تھے ، جب کہ 2012میں ریکارڈ ہونے والے اِسقاط 2,529,979ہیں۔اِسقاط کی یہ شرح یقیناً زیادہ ہے۔کوئی کچھ بھی کہے لیکن انتھونی کے الفاظ میںہر اِسقاط بہرحال ایک قتل ہے۔
امریکا میں تمام تر ترقی اور آزادی کے باوجود حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔اعداد و شمارکے مطابق 1973سے 2009 تک وہاں50,000,000اسقاطِ حمل ہوئے۔یعنی ہر 24 سیکنڈ میں ایک اِسقاط اور 3600اسقاط روزانہ۔ 45برس سے کم عمر کی ہر 3میں سے 1امریکی عورت اسقاطِ حمل کروا چکی ہوتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق امریکا میں ہر 5میں سے ایک حمل کا اختتام اِسقاط پر ہوتا ہے۔ سینٹ لوئس میں واشنگٹن یونی ورسٹی کے ڈاکٹر جیفری پیپرٹ نے بعد از تحقیق کہا کہ مفت مانع حمل اسقاطَ حمل میں ڈرامائی کمی کاسبب بن سکتے ہیں۔ممکن ہے ایسا ہو، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ علمی سطح پر رجحانات میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔گزشتہ صدی کے اختتام سے کچھ دہائیاں قبل اِسقاطِ حمل کے حق میں ہو جانے والی رائے عامہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔گیلپ کے ایک سروے کے مطابق اسقاط کے حامی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ آج امریکا کی 13ریاستیں زچگی کے لیے براہ راست وسائل مہیا کر رہی ہیں۔27ریاستیں ''انتخابِ حیات'' کی لائسنس پلیٹیں جاری کر رہی ہیں۔ 2011میں زچگی کے مراکز کو خاندانی منصوبہ بندی کی مد میں سے کٹوتی کر کے رقم مہیا کی گئی۔آسٹن، بالٹی موراور نیویارک کے بعض مراکز پر کوشش کی گئی کہ اُنہیں ایسے سائن بورڈ نصب کرنے کی اجازت دی جائے جس پر وہ یہ لکھ سکیں کہ ''یہاںمانع حمل ادویات دست یاب نہیں۔'' یا یہ کہ ''یہاں اِسقاطِ حمل کا کوئی انتظام نہیں۔''وغیرہ۔
بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اِسقاطِ حمل کے بعض حامی تشدد پر اُتر آئے۔یہاں تک کہ 1993سے 2012 تک اسقاطِ حمل کرنیوالے4 ڈاکٹرز کو قتل کر دیا گیا۔2پیرا میڈک اور ایک سیکیورٹی گارڈ بھی ہلاک کیے گئے۔امریکا اور کینیڈا میں اسقاطِ حمل کرنیوالے 17اداروں اور ڈاکٹرز پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ 383کو قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔ 153کو زدوکوب کیا گیا ہے۔ 3افراد کو اغوا کیا گیا۔کچھ لکھنے والے اِسے عیسائی دہشتگردی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ''امریکن ابارشن فیڈریشن ''کے اعدادوشمار کے مطابق اسقاطِ حمل کے اداروں اور املاک شدید نشانے کی زد پر رہے۔ 41بم حملے کیے گئے۔91بم دھماکوں کی کوششیں ہوئیں۔ 173 املاک کو آگ لگائی گئی۔619بم دھماکوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ 1630کلینکس پر بیجا مداخلت کا ارتکاب کیا گیا، 1264کلینکس میں زبردستی داخل ہو کر لُوٹ مار کی گئی۔ تیزاب پھینکنے کے100واقعات ہوئے۔نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ایسے 100سے زائد کلینکس ہیں جہاں بم مارے گئے یا جنھیں آگ لگائی گئی۔اِس طرز کے واقعات صرف امریکا تک محدود نہیںآسٹریلیا ،نیوزی لینڈ اور کینیڈا وغیرہ بھی اِس کی لپیٹ میں ہیں۔
دوسری جانب بہت سے ادارے بڑے ہی مثبت اور بڑے ہی موثر انداز میں حاملائوں اورنامولودوںکی خدمت کیے جا رہے ہیں۔مثال کے طور پر ''امریکن یونائیٹڈ فار لائف'' اور ''ہارٹ بیٹ انٹرنیشنل'' وغیرہ۔ ''کنزرویٹیو کرسچینز''ایک مطالعے کے بعد ثابت کرتے ہیں ''اگر سہولیات میسر ہوں تو خواتین اِسقاط کے بجائے زچگی کوترجیح دیتی ہیں۔''شاید یہ ہی وجہ ہو کہ آج امریکا میں اِسقاط کے مراکزصرف1800رہ گئے ہیں جب کہ زچگی کے تیزی سے بڑھتے مراکز 2500کی تعداد تک پہنچ گئے ہیں۔''امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن'' کا کہنا ہے کہ اِسقاط سے عورتوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسقاط سے وقتی سکون تو مل جاتا ہے لیکن بعد میں شدید ڈپریشن ہوتا ہے۔کچھ نفسیات دان اِسے ''پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈِس آرڈر'' سے تعبیر کرتے ہیں۔
اِسقاط ِحمل عورتوں کے لیے ایک کرب ،ایک دکھ ہے جسے وہ تا زندگی بھگتی رہتی ہیں۔ مائوں کا کہنا ہے کہ خدا نے دنیا میں اولاد سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں رکھی۔اسقاطِ حمل اپنی اولاد کا خود اپنے ہی ہاتھوں قتل ہے۔اور اولاد کا قتل اصل میں خود اپنا قتل ہے، انسانیت کا قتل ہے۔یاد رکھیے خواتین کے حقوق کی عمارت کبھی بھی معصوم نامولودوں کے لاشوں پر تعمیر نہیں ہو سکتی۔