شیخ سعدی سے نواب رئیسانی تک
اگر بادشاہ رعیت کے باغ میں سے ایک سیب توڑے تو اس کے ملازم درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیں گے.
شیخ سعدی ہماری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں، ویسے صدر زرداری بھی کم محبوب نہیں اور اسلم رئیسانی کی تو کیا ہی بات ہے جب بولتے ہیں کمال بولتے ہیں! آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ یہ یک دم ساتویں صدی ہجری کے شیخ سے پندرہویں صدی ہجری کے نواب تک کا فاصلہ چند لفظوں میں کیونکر طے کرلیا؟ ہماری جلد بازی کا سبب تو ادارتی صفحے کی تنگ دامنی ہے، مگر آپ جلدی نہ کریں اس لیے کہ شیراز کے سعدی کہہ گئے ہیں ''بہت سے کام صبر سے نکلتے ہیں اور جلد باز منہ کے بل گرتا ہے۔'' دراصل، ایک زمانہ تھا جب دانائے مشرق کی کتابیں گلستان و بوستان گھرگھر پڑھائی جاتیں، جو بچے اپنے والدین سے یہ کتب نہ پڑھ پاتے تو مکتب میں اساتذہ ان کی یہ ضرورت پوری کردیتے۔ اس کتاب میں شامل سبق آموز حکایتیں زندگی بھر پڑھنے والوں کا تعاقب کرتیں، اس کے مثبت اثرات ان کی شخصیات پر رونما ہوتے۔
شیخ سعدی نے دنیا گھوم رکھی تھی، مدرسہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہوئے، امام ابن جوزی اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی جیسے بزرگوں سے استفادہ کیا تھا، لہٰذا مختصر الفاظ میںحکمت کی باتیں کہنے پر جو ملکہ آپ کو حاصل تھا وہ کم ہی کے حصے میں آیا۔ قوموں کی خصوصیات سے بادشاہوں کے عروج وزوال کی علامات تک، صوفیاء کی کمزوریوں سے علما کی بے اعتدالیوں تک، آداب حکومت سے آدابِ زندگی تک، ظاہری گناہوں سے پوشیدہ بیماریوں تک، غرض علم و حکمت کے ایسے موتی بکھیرے کہ صدیاں گزرگئیں مگر گلستان و بوستان کی تازگی ختم نہ ہوئی۔
آپ حاسد کی بدبختی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں ''میں نے ایک خشک دماغ آدمی کو دیکھا جو ایک صاحب رتبہ کی عیب جوئی کررہا تھا، میں نے کہا، اے جناب اگر آپ بدبخت ہیں تو نیک بخت انسان کا کیا قصور؟'' اسی طرح فرمایا ''اگر روزی کا انحصار عقل پر ہوتا تو نادان سے بڑھ کر کوئی مفلس اور قلاش نہ ہوتا'' یا ''جو نصیحت نہیں سنتا اس کا ارادہ ملامت سننے کا ہے۔'' غرض، آپ حکایات و اقوالِ سعدی پڑھتے جائیں اورعلم و حکمت کے موتی چنتے جائیں۔
ایسا نہیں ہے کہ دانائی صرف سعدی کی میراث تھی، دراصل ہر زمانے میں کم و بیش ہر قوم میں ایسے افراد موجود رہے ہیں جو معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں، جو خطرات کی قبل از وقت نشاندہی کردیتے ہیں، جن کے اقوال ملک و ملت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ اقوال یا بیانات دراصل اس شخصیت کی علمیت اور ذہنیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ظاہر ہے دانا شخص دانائی کی بات کرے گا اور نادان شخص نادانی کی۔ اب یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ نئی نسل شیخ سعدی کے اقوال اور حکایتوں سے تو درکنار شاید نام سے بھی واقف نہ ہو، استعمار کی غلامی نے یہی چند احسانات تو ہم پر کیے ہیں۔
چلیں شیخ سعدی نہ سہی مگر نپولین کا نام تو ضرورکچھ نہ کچھ لوگوں نے سن رکھا ہے۔ اس فرانسیسی جرنیل نے مصرکے مسلمانوں کو جو گہرے زخم لگائے اس کے کچھ اثرات تو آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ نپولین تھا تو میدانِ جنگ کا شہسوار مگر بات بڑی پتے کی کہہ گیا ''تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔'' غالباً نپولین کی یہ بات حکمران طبقے نے اپنی گرہ سے باندھ لی، نہ ماؤں کے پاس وقت ہوگا اور نہ بچوںکی تربیت ہوگی، تو جیسی قوم تیار ہوگی وہ آج آپ کے سامنے ہے۔
والیٔ میسور حیدر علی کا بیٹا شیر میسور کہلایا اور نظام حیدرآباد بے ہمت ۔ ٹیپوسلطان نے کہا تھا ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔'' کہنے کو تو یہ معمولی نکتہ ہے مگر اسے اصول مان لیا جائے تو پھر فیصلہ سازی کے وقت انسانی رویہ ہی بدل جاتا ہے اور شاید ملکوں اور اقوام کی تاریخ بھی۔ زمانہ حال میں ہم اس کی مثال امریکا، پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ شخصیات کے طرز عمل سے سمجھ سکتے۔ امریکا سے ٹیلیفون آیا، صدر مشرف نے نظام حیدرآباد کی''عملیت پسندی'' اختیار کی تو ملاعمر نے شیر میسور کی مثالیت پسندی۔ ایک عشرے بعد نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ایک پر مذاکرات کے لیے ڈورے ڈالے جا رہے ہیں اور دوسرے کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے؟ شخص کا نہیں بلکہ پوری قوم کا!
چلیے! ذرا تیز چلتے ہیں، کشمیریوں کے نیلسن منڈیلا سید علی گیلانی کی بے قراری ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ بقول شخصے گیلانی صاحب پاکستانیوں سے بڑ ے پاکستانی ہیں۔ ان کی بے چینی کا ایک سبب جہاں کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ہے وہیں قائد کا یہ فرمان بھی ہے: ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔'' اب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ شہ رگ کا انسانی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ مگر یہ تعلق مقبوضہ وادی میں بیٹھے سیدزادے کی سمجھ تو آرہا ہے مگر اسلام آباد کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ارباب اختیار سمجھنے سے قاصر ہیں۔
لیاقت علی خان صرف نام کے نہیں بلکہ عملاً نواب تھے۔ ہندوستان میں اور بھی بہت سے نواب اور نواب زادے تھے مگر قائد اعظم کی نیابت کا شرف آپ ہی کو ملا۔ وجہ صاف ظاہر ہے، پڑوسی نے آنکھ دکھائی تو لیاقت علی نے مُکا اور صیہونیوں نے مراعات و رعایات کے بدلے اسرائیل تسلیم کرنے کی پیشکش کی تو صاف کہہ دیا: Gentlemen our souls are not for sale۔
جناح اور لیاقت کے پاکستان کا حکمران طبقہ آج کس ذہنیت کا حامل ہے اِس کا اندازہ ہم خود انھی کے اقوال و فرمودات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ چونکہ جمہوری دور ہے، اظہار رائے کی آزادی ہے اور یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے توکیوں نہ صدرِ محترم اور وزرائے کرام کے اقوال زریں دہرائے جائیں اور آنکھوں سے لگائے جائیں۔
دور حکومت کے آغاز میں ہی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک ایسا بیان دیا جسے سننے اور پڑھنے کے بعد ہی قوم کو اندازہ ہوگیا کہ ہمارے ساتھ آیندہ 5 سال میں کیا ہونے جارہا ہے؟ آج 5 سال بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے اور حکمراں جماعت کے منشور میں قوم سے کیا وعدے کیے گئے تھے، آپ خود ہی موازنہ کرلیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے امریکی ٹی وی کی صحافی نے پوچھا کہ ملکی صورتحال سے تنگ آکر ایک تہائی پاکستان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں تو گیلانی صاحب نے جواب دیا ''تو پھر وہ جاتے کیوں نہیں، انھیں کون روک رہا ہے؟'' گیلانی صاحب کا جواب سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور دیکھنے کی چیز جواب سننے کے بعد امریکی صحافی کا چہرہ ہے۔
حکومت وقت کرپشن سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انکشافات اور نیب سربراہ کے بیانات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر اسی حکومت کے ایک وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار عبدالقیوم جتوئی نے کرپشن سے متعلق فرمایا ''کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہیے، سب کو حصہ ملنا چاہیے۔'' چلیے قصہ ہی ختم ہوا۔
کراچی میں قتل و غارت گری تو گزشتہ 3 عشروں سے جاری ہے مگر آخری 5 سال میں سابقہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ جب وجہ پوچھی گئی تو وزیر داخلہ رحمان ملک نے جواب دیا ''کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے 70 فیصد واقعات کا تعلق گرل فرینڈز اور بیویوں سے ہے۔'' سبحان اﷲ، کیا دور کی کوڑی لائے ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو ملک صاحب خواہ مخواہ ڈبل سواری اور موبائل فون پر پابندی عائد کرتے ہیں، سیدھا سیدھا نکاح پر ہی پابندی عائدکردیں، شادیاں ہوں گی نہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ۔
ملک میں جعلی ڈگری کا شور مچا اور معزز ارکانِ اسمبلی کے ارکان کی معطلی کا سلسلہ شروع ہوا تو اصلی ڈگر ی ہولڈر مگر اب اچانک سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سے یار دوستوں کی بے بسی دیکھی نہ گئی اور فرمایا ''اصلی ہو یا نقلی، ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔'' بلوچستان داخلی انتشار کا شکار کیوں ہوا، اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں ۔
غرض، گزشتہ 5 سال میں ملک و ملت کی قیادت کے منصب پر فائز شخصیات نے جو علم و حکمت کی باتیں ارشاد فرمائی ہیں وہ نہ صرف سنہری حرف سے لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ اب شاید رہنما اصول کا درجہ بھی حاصل کرتی جارہی ہیں، بالخصوص صدرِ محترم اور نواب رئیسانی کے ارشادات نے تو کئی ایک کی مشکل آسان کردی ہے اور نئے راستے کھول دیے ہیں۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے ''اگر بادشاہ رعیت کے باغ میں سے ایک سیب توڑے تو اس کے ملازم درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیں گے۔'' ملک میں آج لوٹ مار اور کرپشن کا جو بازار گرم ہے، اس کی وجہ آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے۔
شیخ سعدی نے دنیا گھوم رکھی تھی، مدرسہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہوئے، امام ابن جوزی اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی جیسے بزرگوں سے استفادہ کیا تھا، لہٰذا مختصر الفاظ میںحکمت کی باتیں کہنے پر جو ملکہ آپ کو حاصل تھا وہ کم ہی کے حصے میں آیا۔ قوموں کی خصوصیات سے بادشاہوں کے عروج وزوال کی علامات تک، صوفیاء کی کمزوریوں سے علما کی بے اعتدالیوں تک، آداب حکومت سے آدابِ زندگی تک، ظاہری گناہوں سے پوشیدہ بیماریوں تک، غرض علم و حکمت کے ایسے موتی بکھیرے کہ صدیاں گزرگئیں مگر گلستان و بوستان کی تازگی ختم نہ ہوئی۔
آپ حاسد کی بدبختی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں ''میں نے ایک خشک دماغ آدمی کو دیکھا جو ایک صاحب رتبہ کی عیب جوئی کررہا تھا، میں نے کہا، اے جناب اگر آپ بدبخت ہیں تو نیک بخت انسان کا کیا قصور؟'' اسی طرح فرمایا ''اگر روزی کا انحصار عقل پر ہوتا تو نادان سے بڑھ کر کوئی مفلس اور قلاش نہ ہوتا'' یا ''جو نصیحت نہیں سنتا اس کا ارادہ ملامت سننے کا ہے۔'' غرض، آپ حکایات و اقوالِ سعدی پڑھتے جائیں اورعلم و حکمت کے موتی چنتے جائیں۔
ایسا نہیں ہے کہ دانائی صرف سعدی کی میراث تھی، دراصل ہر زمانے میں کم و بیش ہر قوم میں ایسے افراد موجود رہے ہیں جو معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں، جو خطرات کی قبل از وقت نشاندہی کردیتے ہیں، جن کے اقوال ملک و ملت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ اقوال یا بیانات دراصل اس شخصیت کی علمیت اور ذہنیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ظاہر ہے دانا شخص دانائی کی بات کرے گا اور نادان شخص نادانی کی۔ اب یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ نئی نسل شیخ سعدی کے اقوال اور حکایتوں سے تو درکنار شاید نام سے بھی واقف نہ ہو، استعمار کی غلامی نے یہی چند احسانات تو ہم پر کیے ہیں۔
چلیں شیخ سعدی نہ سہی مگر نپولین کا نام تو ضرورکچھ نہ کچھ لوگوں نے سن رکھا ہے۔ اس فرانسیسی جرنیل نے مصرکے مسلمانوں کو جو گہرے زخم لگائے اس کے کچھ اثرات تو آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ نپولین تھا تو میدانِ جنگ کا شہسوار مگر بات بڑی پتے کی کہہ گیا ''تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔'' غالباً نپولین کی یہ بات حکمران طبقے نے اپنی گرہ سے باندھ لی، نہ ماؤں کے پاس وقت ہوگا اور نہ بچوںکی تربیت ہوگی، تو جیسی قوم تیار ہوگی وہ آج آپ کے سامنے ہے۔
والیٔ میسور حیدر علی کا بیٹا شیر میسور کہلایا اور نظام حیدرآباد بے ہمت ۔ ٹیپوسلطان نے کہا تھا ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔'' کہنے کو تو یہ معمولی نکتہ ہے مگر اسے اصول مان لیا جائے تو پھر فیصلہ سازی کے وقت انسانی رویہ ہی بدل جاتا ہے اور شاید ملکوں اور اقوام کی تاریخ بھی۔ زمانہ حال میں ہم اس کی مثال امریکا، پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ شخصیات کے طرز عمل سے سمجھ سکتے۔ امریکا سے ٹیلیفون آیا، صدر مشرف نے نظام حیدرآباد کی''عملیت پسندی'' اختیار کی تو ملاعمر نے شیر میسور کی مثالیت پسندی۔ ایک عشرے بعد نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ایک پر مذاکرات کے لیے ڈورے ڈالے جا رہے ہیں اور دوسرے کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے؟ شخص کا نہیں بلکہ پوری قوم کا!
چلیے! ذرا تیز چلتے ہیں، کشمیریوں کے نیلسن منڈیلا سید علی گیلانی کی بے قراری ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ بقول شخصے گیلانی صاحب پاکستانیوں سے بڑ ے پاکستانی ہیں۔ ان کی بے چینی کا ایک سبب جہاں کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ہے وہیں قائد کا یہ فرمان بھی ہے: ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔'' اب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ شہ رگ کا انسانی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ مگر یہ تعلق مقبوضہ وادی میں بیٹھے سیدزادے کی سمجھ تو آرہا ہے مگر اسلام آباد کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ارباب اختیار سمجھنے سے قاصر ہیں۔
لیاقت علی خان صرف نام کے نہیں بلکہ عملاً نواب تھے۔ ہندوستان میں اور بھی بہت سے نواب اور نواب زادے تھے مگر قائد اعظم کی نیابت کا شرف آپ ہی کو ملا۔ وجہ صاف ظاہر ہے، پڑوسی نے آنکھ دکھائی تو لیاقت علی نے مُکا اور صیہونیوں نے مراعات و رعایات کے بدلے اسرائیل تسلیم کرنے کی پیشکش کی تو صاف کہہ دیا: Gentlemen our souls are not for sale۔
جناح اور لیاقت کے پاکستان کا حکمران طبقہ آج کس ذہنیت کا حامل ہے اِس کا اندازہ ہم خود انھی کے اقوال و فرمودات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ چونکہ جمہوری دور ہے، اظہار رائے کی آزادی ہے اور یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے توکیوں نہ صدرِ محترم اور وزرائے کرام کے اقوال زریں دہرائے جائیں اور آنکھوں سے لگائے جائیں۔
دور حکومت کے آغاز میں ہی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک ایسا بیان دیا جسے سننے اور پڑھنے کے بعد ہی قوم کو اندازہ ہوگیا کہ ہمارے ساتھ آیندہ 5 سال میں کیا ہونے جارہا ہے؟ آج 5 سال بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے اور حکمراں جماعت کے منشور میں قوم سے کیا وعدے کیے گئے تھے، آپ خود ہی موازنہ کرلیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے امریکی ٹی وی کی صحافی نے پوچھا کہ ملکی صورتحال سے تنگ آکر ایک تہائی پاکستان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں تو گیلانی صاحب نے جواب دیا ''تو پھر وہ جاتے کیوں نہیں، انھیں کون روک رہا ہے؟'' گیلانی صاحب کا جواب سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور دیکھنے کی چیز جواب سننے کے بعد امریکی صحافی کا چہرہ ہے۔
حکومت وقت کرپشن سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انکشافات اور نیب سربراہ کے بیانات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر اسی حکومت کے ایک وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار عبدالقیوم جتوئی نے کرپشن سے متعلق فرمایا ''کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہیے، سب کو حصہ ملنا چاہیے۔'' چلیے قصہ ہی ختم ہوا۔
کراچی میں قتل و غارت گری تو گزشتہ 3 عشروں سے جاری ہے مگر آخری 5 سال میں سابقہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ جب وجہ پوچھی گئی تو وزیر داخلہ رحمان ملک نے جواب دیا ''کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے 70 فیصد واقعات کا تعلق گرل فرینڈز اور بیویوں سے ہے۔'' سبحان اﷲ، کیا دور کی کوڑی لائے ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو ملک صاحب خواہ مخواہ ڈبل سواری اور موبائل فون پر پابندی عائد کرتے ہیں، سیدھا سیدھا نکاح پر ہی پابندی عائدکردیں، شادیاں ہوں گی نہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ۔
ملک میں جعلی ڈگری کا شور مچا اور معزز ارکانِ اسمبلی کے ارکان کی معطلی کا سلسلہ شروع ہوا تو اصلی ڈگر ی ہولڈر مگر اب اچانک سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سے یار دوستوں کی بے بسی دیکھی نہ گئی اور فرمایا ''اصلی ہو یا نقلی، ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔'' بلوچستان داخلی انتشار کا شکار کیوں ہوا، اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں ۔
غرض، گزشتہ 5 سال میں ملک و ملت کی قیادت کے منصب پر فائز شخصیات نے جو علم و حکمت کی باتیں ارشاد فرمائی ہیں وہ نہ صرف سنہری حرف سے لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ اب شاید رہنما اصول کا درجہ بھی حاصل کرتی جارہی ہیں، بالخصوص صدرِ محترم اور نواب رئیسانی کے ارشادات نے تو کئی ایک کی مشکل آسان کردی ہے اور نئے راستے کھول دیے ہیں۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے ''اگر بادشاہ رعیت کے باغ میں سے ایک سیب توڑے تو اس کے ملازم درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیں گے۔'' ملک میں آج لوٹ مار اور کرپشن کا جو بازار گرم ہے، اس کی وجہ آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے۔