نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ…
لوگ آمروں سے ڈرتے ہیں اور آمر حبیب جالب سے ڈرتے تھے.
یہ 1991 کی بات ہے کہ جب میں پہلی بار پروفیسر غفور احمد سے ملا تھا۔ پروفیسر صاحب اپنے مزاج اور کردار کے حوالے سے مجھے بہت اچھے لگتے تھے، ان کا دھیما لہجہ، سوچ کی پختگی اور ثابت قدمی،ان کی شخصیت کے اعلیٰ اوصاف تھے، ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا کہ جنھیں ان کے نظریاتی مخالفین بھی عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
پروفیسر صاحب ان دنوں کراچی کے ایک معروف کاروباری ادارے سے منسلک تھے، جہاں وہ اکاؤنٹس کے شعبے کو دیکھتے تھے۔ (اس وقت شہر کے اہم تجارتی مراکز صدر اور طارق روڈ ہوتے تھے، مگر آج ڈیفنس اور حیدری بھی شہر کے اہم تجارتی مراکز میں شامل ہوچکے ہیں)۔ میں ان کے دفتر واقع عبداللہ ہارون روڈ پہنچا، تو پروفیسر صاحب نے میری عادت کے مطابق مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ میں نے اپنے افسانوں کی کتاب ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' انھیں پیش کی، وہ خود لکھنے پڑھنے والے آدمی تھے، اہم موضوعات پر مبنی بہت سی کتابیں انھوں نے لکھیں، لہٰذا میرے افسانوی مجموعے کو بھی انھوں نے خصوصی توجہ سے نوازا اور بولے ''یہ کتاب کا نام آپ نے جالب صاحب کے شعر سے لیا ہے'' اور پھر انھوں نے وہ شعر بھی پڑھا۔
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے' نہ اپنے دن بدلتے ہیں
یہ میری پروفیسر غفور سے بالمشافہ پہلی ملاقات تھی، 1992 میں ہمارے بڑے بھائی حبیب جالب شدید علیل تھے اور شیخ زید اسپتال لاہور میں داخل تھے۔ انھی دنوں پروفیسر غفور احمد ان کی عیادت کے لیے اسپتال گئے، اخباری فوٹو گرافرز نے اس واقعے کو محفوظ کرلیا اور میں نے بھی اخبار ہی میں یہ تصویر دیکھی تھی۔ جالب صاحب بستر سے اٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے کا احترام کے ساتھ استقبال کرسکیں اور عیادت کو آنے والے پروفیسر غفور احمد خود جھک کر جالب صاحب سے گلے مل رہے ہیں۔
یہ تھے پروفیسر غفور احمد کہ جن کے میل ملاپ تعلقات میں نظریات حائل نہیں ہوتے تھے۔ پروفیسر صاحب سے پہلے بھی اعلیٰ ظرف والے لوگ ہوتے تھے، خطیب العصر حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کی دوستی شاعر ساحر لدھیانوی سے تھی، مولانا مودودی بھی بہت فراخ دل انسان تھے اور مفتی محمود کو تو خود میں نے دیکھا ہے کہ وہ جالب صاحب سے کس درجہ پیار کرتے تھے۔ میں یہاں علامہ شاہ احمد نورانی کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ وہ بھی ایسے ہی بڑے انسان تھے۔ اب لگتا ہے کہ پروفیسر غفور کے چلے جانے پر ایسے بڑے لوگوں کا سلسلہ ختم سا ہوگیا ہے۔
پروفیسر صاحب کو یاد کرتے ہوئے میں ذاتی یادیں قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مارچ 1993 میں جالب صاحب کا انتقال ہوا۔ ان کا تعزیتی جلسہ پریس کلب کراچی میں ہورہا تھا، میں نے دیکھا پروفیسر غفور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پنڈال میں داخل ہوئے اور پچھلی نشستوں پر ہی جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔ چونکہ اس تعزیتی جلسے میں وہ بطور مقرر مدعو نہیں تھے لہٰذا انھیں اسٹیج پر نہیں بلایا گیا اور پروفیسر صاحب خود بھی صرف جالب صاحب کی عقیدت میں تشریف لائے تھے۔ وہ خاصی دیر بیٹھے اور پھر کسی اہم مصروفیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے مجھ سے مل کر چلے گئے۔ یہ پروفیسر صاحب کا بڑا پن تھا کہ وہ آئے ورنہ اسٹیج پر رونق افروز ہوئے بغیر کون آتا ہے۔
جب میری ضخیم کتاب (صفحات 1200) ''میں طلوع ہورہا ہوں'' اکتوبر 2005 میں شایع ہوئی تو مجھے شدت سے پروفیسر صاحب یاد آنے لگے، میں بے تاب تھا کہ جلدازجلد کتاب ان تک پہنچاؤں۔ میری ان سے ملاقات فیڈرل بی ایریا کراچی میں واقع مرکز نشرواشاعت جماعت اسلامی میں ہوئی، جہاں وہ مرکز کے انچارج کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ شام 5 بجے کا وقت طے ہوا تھا، میں وقت پر مرکز پہنچ گیا۔ پروفیسر صاحب حسب عادت مسکراتے ہوئے ملے۔ میں نے کتاب پیش کی۔ کتاب کی ضخامت دیکھ کر انھوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ کتاب تیار کرنے میں بارہ سال لگے اور میں اس دوران کراچی، لاہور، اسلام آباد کی لائبریریوں میں بھی بیٹھا اور اس طرح یہ کتاب تیار ہوئی۔
جس کا موضوع حبیب جالب کے انتقال پر جو فضا بنی تھی اسے سمیٹنا تھا۔ حبیب جالب کے انتقال پر مضامین لکھے گئے، کالم لکھے گئے، نظمیں لکھی گئیں، تعزیتی ٹیلی گرام آئے، تعزیتی رجسٹر تھا، اخبارات کے تراشے تھے، میں نے یہ سب کچھ جمع کیا اور کتابی شکل میں محفوظ کردیا۔ پروفیسر صاحب میری اس کاوش پر بہت خوش تھے اور رشک بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ پھر میں نے پروفیسر صاحب سے درخواست کی اور تحریری خط بھی ان کی خدمت میں پیش کیا کہ کتاب کی تقریب رونمائی میں آپ بطور مہمان خصوصی تشریف لائیں۔
میں نے خط میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ تقریب کی صدارت حضرت خالد علیگ فرمائیں گے وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے تقریب میں شرکت کا وعدہ کرلیا۔ تقریب کراچی پریس کلب میں تھی، شاعر حق نوا حضرت خالد علیگ اور پروفیسر غفور احمد کے علاوہ بطور مقررین تقریب میں جناب رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور مسلم شمیم بھی شریک ہوئے۔ میں یہاں صرف پروفیسر غفور احمد کا ہی ذکر کروں گا کہ انھوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاعر عوام حبیب جالب کے بارے میں یہ تاریخی فقرہ ادا کیا ''لوگ آمروں سے ڈرتے ہیں اور آمر حبیب جالب سے ڈرتے تھے'' اگلے روز کے اخبارات میں تقریب کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبارات نے پروفیسر صاحب کے فقرے کو بطور سرخی استعمال کیا اور اکثر اخبارات میں دو کالمی سرخی لگائی گئی ''لوگ آمروں سے ڈرتے ہیں اور آمر حبیب جالب سے ڈرتے تھے' پروفیسر غفور''
اب ایسے حق گو کہاں رہے، آج جب کہ ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے، یہ لوگ بڑی تیزی سے چلے جارہے ہیں، پچھلے چند ماہ میں انور احسن صدیقی، بیرسٹر اقبال حیدر بھی چلے گئے اور اب پروفیسر غفور احمد بھی چل دیے۔ بشیر بلورجیسا بہادر بھی بہادروں کی طرح جان دے کر چلا گیا اور ابھی ابھی میں سن رہا ہوں کہ قاضی حسین احمد بھی وفات پاگئے ہیں۔ چند ہی دنوں میں یہ دوسرا سانحہ ہوا۔ خصوصاً جماعت اسلامی کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ مرحومین کو جنت میں جگہ عطا فرمائے۔
جو بادہ کش تھے پرانے سب اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
کالم لکھ چکا تھا کہ خبر آئی ہے ''معروف نقاد، دانشور محمد علی صدیقی انتقال کرگئے'' ۔ اللہ مغفرت فرمائے۔