ایم اے جناح روڈ کے مسائل
ہنگامہ آرائی کا آغاز بھی اس روڈ سے کیا جاتا ہے۔ شیلنگ، پتھراؤ اورلاٹھی چارج بھی اسی سڑک پر سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔
KARACHI:
محمد علی جناح روڈ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ 1860 میں انگریز سامراج نے کراچی میں سڑکوں کا جال بچھانے کا عمل شروع کیا تو ان ترقیاتی کاموں میں معروف ''بندرگاہ روڈ'' بھی شامل تھا۔ اس روڈ کا نام وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا، پہلے یہ ''بندر روڈ'' کے نام سے مشہور تھا اور اب ''ایم اے جناح روڈ'' کے نام سے معروف ہے۔ یہ ''مزار قائد سے بندر گاہ'' تک پھیلا ہوا ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے ایک گانا بھی تیار کیا گیا تھا۔ اس گانے کے بول تھے ''بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی ہے گھوڑا گاڑی، بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر ''ریڈیو پاکستان کراچی کے اس گیت کو احمد رشدی (مرحوم) نے گایا تھا اور یہی نغمہ احمد رشدی کی مقبولیت کا باعث بنا تھا۔ کل کی طرح آج بھی یہ شہر کی معروف ترین شاہراہ ہے۔
تاریخ کے جھروکوں سے ہمیں معلوم چلتا ہے کہ اس سڑک پر سب سے پہلے اونٹ گاڑی چلا کرتی تھی جو بار برداری کا ایک ذریعہ تھی۔ 1932 سے 1942 تک یہاں گھوڑا گاڑی چلا کرتی تھی، اسی درمیانی مدت میں ٹرام کا ذکر بھی ملتا ہے، جو صدر سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار، بولٹن مارکیٹ، کیماڑی اور چاکیواڑہ لیاری تک چلا کرتی تھی۔ واضح رہے کہ ٹرام ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح ہوتی تھی جو سڑک میں دھنسی باریک پٹری پر چلا کرتی تھی۔ ابتدائی دنوں میں ٹرام کو گھوڑے کھینچا کرتے تھے بعدازاں یہ موٹر انجن کے ذریعے چلنا شروع ہوئی۔
1975 میں ٹرام کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سڑک پر سائیکل رکشہ کا بھی رواج عام تھا جسے آدمی کھینچا کرتا تھا، یہ سلسلہ 1970 میں بند کردیا گیا ۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سڑک پر اسٹریٹ لائٹس کا انتظام لیمپ پوسٹ (لال ٹین) کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ میونسپلٹی کا عملہ ان چراغوں کو روشن کرنے کا سامان لیے ہر روز شام ڈھلے ان چراغوں کو جلانے آتا تھا اور صبح صادق کے وقت ان چراغوں کو بجھا دیتا۔ یہ سلسلہ 1960 تک جاری رہا۔تاریخی دستاویزات کے مطابق شہر کی سڑکوں کی دھلائی کی جاتی تھی اور جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے میونسپلٹی کا محکمہ سرگرم عمل رہتا۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی۔ انسانوں اور جانوروں کی جگہ موٹر گاڑیوں نے لے لی۔ کل کی بندرگاہ روڈ آج کی محمد علی جناح روڈ کی اہمیت تاریخ میں امر ہوتی چلی گئی۔
شاید ہی کوئی شہری ایسا ہو جس کا گزر اس سڑک سے نہ ہو۔ کیوںکہ یہ سڑک ٹاور، بولٹن مارکیٹ، موتن داس مارکیٹ، ڈینسو ہال، سٹی کورٹ، لنڈا بازار المعروف لائٹ ہاؤس، سول و سروسز اسپتالوں، جامع کلاتھ، ریڈیو اسٹیشن کی عمارت، اردو بازار، سعید منزل، تبت سینٹر، سابقہ پلازہ سیمنا، گل پلازہ (ماضی میں ٹرام گودی)، رمپا پلازہ، تاج کمپلیکس، سی بریز، نشاط سینما، پرنس سینما، کیپری سینما، بندو خان ریسٹورنٹ، طائی جوڈو کراٹے سینٹر، پلے گراؤنڈ (پرانی نمائش)، مزار قائد اور اس کے دائیں بائیں اہم سڑکوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ سولجر بازار، صدر بازار، ایمپریس مارکیٹ، پریڈی اسٹریٹ، گارڈن روڈ، ریگل چوک، جمیلہ اسٹریٹ، رنچھوڑ لائن، برنس روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ، کوآپریٹو مارکیٹ، الیکٹرانک مارکیٹ صدر، میرٹ روڈ، نیوچالی، جونا مارکیٹ اور لی مارکیٹ وہ اہم تجارتی مراکز ہیں جو ایم اے جناح روڈ سے جا ملتے ہیں۔ محمد علی جناح روڈ کے دونوں جانب بے شمار دکانیں، ان گنت فلیٹ، لاتعداد مکانات، اسپتال، اسکولز، کالجز، مساجد، امام بارگاہیں، مدارس، مرکزی سینما ہالز، شورومز، پٹرول پمپ، پولیس اسٹیشنز، ٹریفک پولیس چوکیاں، مطب مارکیٹیں، دفاتر، سو سے زائد پرانی عمارتیں اور بے شمار پتھارے موجود ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایم اے جناح روڈ پر بسوں کے 125 سے زائد روٹس ہیں۔ جب کہ مجموعی طور پر پانچ لاکھ مختلف گاڑیاں 24 گھنٹے کے دوران اس روڈ سے ہوکر گزرتی ہیں۔ علاوہ ازیں دوسرے شہروں سے آنے والی ٹرانسپورٹ جوکہ کراچی میں رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ بھی ایم اے جناح روڈ سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گزرتی ہیں۔ ذرا غور کریں! جس سڑک پر روزانہ پانچ لاکھ سے زائد گاڑیاں گزرتی ہوں، وہاں ٹریفک کی روانی اور ماحول کی صورت حال کیا ہوگی؟
بدترین ٹریفک جام کے معمول نے شہریوں کو بے شمار جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اگر کسی شخص کو کیماڑی سے نیوکراچی جانا ہو تو اسے تین گھنٹے سے کم وقت نہیں لگتا۔ شہریوں کو اس مسئلے سے کون نجات دلائے گا؟ دینی، مذہبی اور سیاسی روایتوں کے لحاظ سے بھی ایم اے جناح روڈ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ عید میلاد النبیؐ کے موقعے پر اس سڑک پر چراغاں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ 12 ربیع الاول والے دن شہر کے تمام چھوٹے بڑے جلوس اسی سڑک پر پہنچ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
محرم الحرام کے خاص دنوں 8، 9 اور 10 محرم کو تعزیوںاور علم وذوالجناح کے مرکزی جلوس بھی اسی سڑک پر نکالے جاتے ہیں۔ شہدائے کربلا کے چہلم اور ایّام خلفائے راشدین کی عقیدت کے جلوس بھی اسی سڑک پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں اس سڑک میں ٹریفک کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور رات کے وقت تراویح کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایم اے جناح روڈ سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی معروف ہے۔ جلسے، جلوس اور اجتماعات اسی سڑک پر کیے جاتے ہیں۔
شہر میں ہنگامہ آرائی کا آغاز بھی اس روڈ سے کیا جاتا ہے۔آنسو گیس، شیلنگ، پتھراؤ اورلاٹھی چارج بھی اسی سڑک پر سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ اب اس شاہراہ پر بم دھماکوں، ٹریفک کے حادثات اور آتشزدگی کے واقعات نے بھی اپنے ڈیرے جمالیے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایم اے جناح روڈ اپنی حیات کے ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ مستقبل میں تاریخ دان اس سڑک کے بارے میں کیا رائے دیں گے؟ یہ قبل ازوقت بات ہوگی، سردست یہ کہنا ممکن ہے کہ ایم اے جناح روڈ اپنی خاصیت کے باوجود حکومتوں کے نظر کرم سے محروم سڑک ہے، جہاں روپیہ پیسہ کمایا تو جاسکتا ہے مگر اس سڑک کو ''فری مسائل زون'' قرار نہیں دیا جاسکتا، آخر کیوں؟