دہشتگردی کے خاتمہ کی ناگزیر ضرورت
’’ججمنٹ ایٹ نیو ریمبرگ ‘‘ جنگی جرائم کی سزا دینے والا ٹریبونل تھا جس نے نازی فوجی افسروں کو سزائیں سنائیں
QUETTA:
فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال توسیع کے لیے آئین میں اٹھائیسویں ترمیم کے بل کی سینیٹ نے بھی دو تہائی اکثریت سے منظوری دیدی۔ بل کی حمایت میں کل 78ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں3 ووٹ ڈالے گئے، تینوں مخالف ووٹ محمود اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کے تھے۔ رائے شماری کے وقت جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) گروپ کے ارکان موجود نہیں تھے۔ وفاقی وزیر کامران مائیکل اور مشاہد اللہ خان سمیت کل تئیس ارکان اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ سینیٹ کا اجلاس چیئرمین رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا۔
بل کی منظوری بلاشبہ جمہوریت میں موجود لچک اور اختلاف رائے کے اندر سے مسئلہ کا قابل قبول حل نکالنے کی وہ معاملہ فہمی ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹرز نے بلاشبہ سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا ،ان کے اختلافات اور تحفظات اپنی جگہ، مگر صبر آزما ملکی صورتحال کے پیش نظر بل کی سینیٹ سے منظوری ایک صائب فیصلہ ہے، اس اتفاق رائے کی اپنی ایک قومی اہمیت ہے۔
ایوان بالا کے قانون سازوں نے بل پر ووٹنگ کے لیے تیاری اور اس کی مکمل حمایت سے گریز، بل کے ذریعے جمہوری جماعتوں کی طرف سے آمریت کو ملنے والی ممکنہ تقویت کا گلہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر پارلیمان مضبوط ہوتی تو فوجی عدالتوں کی ضرورت پیش نہ آتی اور جب سینیٹ کے اجلاس میں کسی رکن کی یہ آواز گونجی کہ آج کا دن پارلیمان کے لیے سیاہ اور شکست کا دن ہے، اس پر رضا ربانی نے کہا پارلیمنٹ کو کبھی شکست نہیں ہو سکتی البتہ پارلیمنٹ سمجھوتہ کر سکتی ہے، مزید برآں اس جمہوری لچک کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ نے حقیقت پسندی کا خود بھی مظاہرہ کیا جسے ملکی صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں کسی سمجھوتہ سے تعبیر کیا بھی جائے تو اسے جمہوری اصطلاح میں شکست نہیں کہا جا سکتا، واضح رہے گزشتہ منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں حکومت و اپوزیشن کے دو بلوں کی پیشی کے موقع پر سینیٹ نے آرمی ایکٹ کی منظوری دے دی تھی تاہم فوجی عدالتوں میں توسیع کی منظوری کو موخر کردیا تھا ۔
چیئرمین سینیٹ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آیندہ اجلاس میں ایوان میں موجود نہیں ہونگے۔ وزیر خزانہ نے رضا ربانی کے اجلاس میں شرکت کے نظر ثانی شدہ فیصلہ کو بڑا پن اور مستحسن فیصلہ قراردیا جب کہ رضا ربانی نے ذاتی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے قواعد کا بغور مطالعہ کیا ہے، جو بھی بل پاس ہوتا ہے وہ چیئرمین سینیٹ کو دستخط کر کے صدر کو بھیجنا ہوتا ہے، اس لیے میں نے ایوان میں نہ آنے کے بجائے اپنا آئینی کردار ادا کرنا مناسب سمجھا، کیونکہ ہر صورت میں مجھے بل پر دستخط کرنے تھے، لہٰذا چیمبر کی تنہائی اور تاریکی میں بل پر دستخط کرنے کے بجائے ایوان کی کارروائی میں شرکت کرنا ہی مناسب سمجھا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر خزانہ نہایت خوش گفتار اور شیریں زبان ہیں لیکن وزیر خزانہ نے شیریں زبانی کے ساتھ کئی چیزوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، ان کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر سوائے فوجی عدالتوں کے قیام کے کسی اور نکتے پر کوئی کام نہیں ہوا ۔
بل پر بحث کے دوران یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کے لیے بل کی منظوری گڈ گورننس اور ہمارے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اتفاق رائے پر اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 28 واںترمیمی بل سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد لایا گیا ہے، ان کا موقف تھا کہ فوجی عدالتوں کا قانون ختم ہونے کا وقت قریب آتے ہی دہشتگردی کی ایک نئی لہر آئی، بیرونی دنیا نے بھی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے خصوصی قوانین بنائے ہیں، ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ فوجی عدالتیں پاکستان کی ضرورت ہیں۔ سینیٹ میں وزیر خزانہ نے جس زمینی حقیقت کو پاکستان کی ضرورت کہا ہے وہ پاکستان کی سالمیت، استحکام اور دہشتگردی سے نمٹنے کے عزم کی آئینہ دار ہے، فوجی عدالتیں جمہوری شوق کا سامان نہیں بلکہ ملکی مفاد اور دہشتگردوں کے مکمل خاتمہ کی ناگیزیت سے منسلک ہیں، اسے سول عدلیہ کے متوازی نظام کی سیاسی خواہش کا نام نہیں دینا چاہیے۔
''ججمنٹ ایٹ نیو ریمبرگ '' جنگی جرائم کی سزا دینے والا ٹریبونل تھا جس نے نازی فوجی افسروں کو سزائیں سنائیں، آج جرمنی کے سیاسی دامن پر اس ٹریبونل کا کوئی بدنما داغ موجود نہیں جب کہ اپنے مفاد میں تو بڑی طاقتیں سب کچھ کر گزرتی ہیں، مثلاً روس، برطانیہ، فرانس اور امریکا سمیت40ممالک نے جوہری ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق اقوام متحدہ کے اجلاس کا ہی بائیکاٹ کردیا جب کہ 120 سے زائد ممالک نے جوہری پابندی کو قانونی شکل دینے کے منصوبے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ خبر کے مطابق اس موقع پر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں پر عالمی سطح پر پابندی حقیقت پسندانہ نہیں ہے کیونکہ قومی سلامتی کو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور ''برے عناصر'' پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔اس تناظر میں پھر پاکستان کیسے اپنے قومی مفاد اور اپنی قومی ضروریات سے چشم پوشی کرسکتا ہے۔