دل کوروئوں یا پیٹوں جگرکو میں
دو برسوں سے جاری پاناما لیکس کا غلغلہ اس لیے دھیما ہوا ہے، کیونکہ کسی بھی وقت عدالتی فیصلہ منظر عام پر آسکتا ہے
غالب نے کہا تھا کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اس شعرکے یاد آنے کا سبب یہ ہے کہ وطن عزیز میں جوکچھ ہوتا رہا ہے اور جوکچھ ہو رہا ہے، اس پرنوحہ گری کے سوا کچھ اور ممکن نہیں۔ ہمیں الجھنیں پالنے کا شوق ہے۔ جب کوئی مسئلہ نہ ہوتو خود ہی پیدا کرلیتے ہیں۔ پیدا ہونے والے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے مزید الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسائل پیچیدہ ہوتے ہوئے بحرانی شکل اختیارکرتے چلے گئے۔ پھر بھی ٹھوس اور دیرپا حل نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ گویا ہر معاملے پر عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کیے اور ان کاخمیازہ بھگتا۔
دو برسوں سے جاری پاناما لیکس کا غلغلہ اس لیے دھیما ہوا ہے، کیونکہ کسی بھی وقت عدالتی فیصلہ منظر عام پر آسکتا ہے۔ اب اس کی جگہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کا واشنگٹن پوسٹ میں تحریرکردہ مضمون اورسابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی 39مسلم ممالک کی مشترکہ افواج کی کمان سنبھالنے کا معاملہ موضوع سخن بنے ہوئے ہیں۔یہ دونوں موضوعات انتہائی اہم اور حساس ہیں۔ اس لیے الگ الگ اظہاریے کے متقاضی ہیں۔ آج کے اظہاریے میں حسین حقانی کے اس مضمون کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات پر کچھ گفتگو کیے لیتے ہیں۔
حسین حقانی نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا، وہ اچھنبے کی بات اس لیے نہیں۔ جو کچھ لکھا شاید وہ کم ہے، کیونکہ ہماری حکمران اشرافیہ تو اس سے بھی بڑھ کر خدمت گذاری کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے۔ جس کی مثال آج پاک چین دوستی کے حوالے سے الاپا جانے والا راگ ہے کہ یہ دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے۔ یہ مضحکہ خیز بیانات ہیں ، کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں اس قسم کی مبالغہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں امریکا کے لیے اس سے بڑھ کر جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، جب کہ ان اہل دانش پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کیے جاتے تھے، جو امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہی کچھ آج ہورہا ہے یعنی جو لوگ چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی بات کررہے ہیں، ان پر ملک دشمنی کا الزام عائد کر کے انھیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے کہ امریکا کو1947میں ہم سے زیادہ بھارت میں دلچسپی تھی۔ جس کے دستاویزی ثبوت موجودہیں جب کہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے سرخیل چوہدری محمد علی کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو امریکا کے قریب کر دیا جائے۔ چنانچہ لیاقت علی خان مرحوم کے دورہ سوویت یونین کو منسوخ کرا کے امریکا یاترا کی راہ ہموار کی گئی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 1957میں امریکی سفیر جیمز لینگ لے نے ایک تقریب میں میاں افتخارالدین مرحوم کا نام لے کر ان پر تنقید کی تو سرکاری عہدیدار وں کو تو چھوڑیے ،اپوزیشن جماعتوں تک نے سفارتی آداب کی اس خلاف ورزی پر آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ صحافیوں کی بڑی تعداد نے الٹا میاں صاحب مرحوم ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہم امریکا نواز نہ کل تھے اور نہ آج ہیں ۔ اسے کل بھی ایک استعماری قوت سمجھتے تھے اور آج بھی اس کے کردار سے اچھائی کی توقع نہیں رکھتے، مگر منافقت اور دہرے معیار سے خون کھولتاہے، جو صاحبان بصیرت آج امریکا پرکڑی تنقید کر کے اپنی دانشوری کی دھاک بٹھانے کی کوششیں کررہے ہیں، ذرا سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کی شقوں کا بھی مطالعہ کرلیں، معلوم ہوجائے گا کہ ان شقوں کی خلاف ورزی امریکا نے کی یا ہماری محب وطن حکمران اشرافیہ نے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ چند برس قبل انھی حسین حقانی کی ایک کتاب کی مہورت کے موقعے پر صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پاکستان میں سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے کہا تھاکہ'' عالمی تعلقات میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ مفادات ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہمیں آپ کی ضرورت تھی،آپ کوہماری۔ ہم نے آپ سے کام لیا اور ہرکام کا بہتر معاوضہ بروقت ادا کیا، مگر آپ نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے کم ہی ایفا کیے۔''
آج خان عبدالولی خان مرحوم ، میرغوث بخش بزنجو مرحوم اور اجمل خٹک مرحوم اس دنیا میں نہیں، لیکن ائیرمارشل اصغرخان حیات ہیں،ان سے توثیق کی جاسکتی ہے کہ ان اکابرین نے افغان قضیہ میں الجھنے سے کتنی بار روکا تھا اور کس انجام کی نشاندہی کی تھی، مگر اس وقت ضیاالحق اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی چاندنی ہورہی تھی، وہ بھلا کیونکراس عمل سے باز رہتیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے 1948میں قبائل کی جانب سے کشمیر میں لڑائی کو اس بنیاد پر جہاد تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ جہاد کا اعلان صرف اسلامی ریاست کرسکتی ہے، مگر ان کی آنکھ بند ہوتے ہی جنرل ضیا نے ان ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دیدیا۔ کوئی اہل دانش اس سوال کا جواب بھی تودے کہ منشیات کی اسمگلنگ، امریکی اسلحہ اور نقل حمل کے لیے اسرائیلی خچروں کے ذریعے کیا جہاد ممکن ہے؟
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف متعدد بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ جنیوا معاہدے کے بعد اس وقت کی حکومت نے افغانستان سے فارغ ہونے والے جنگجو جتھوں کو کشمیر میں برسرپیکار کردیا۔ کیا اس میں امریکا کی رضامندی شامل تھی؟ کیا بار بار مطالبے کے باوجود ہمارے منصوبہ ساز ان رقوم کا آڈٹ کرانے سے نہیں ہچکچاتے رہے جو امریکا نے افغان جنگ کے موقعے پر دی تھیں؟ کیا کسی نے اوجھڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ اوراس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں کی تفتیشی رپورٹ شایع کرنے کا مطالبہ کیا ؟ کیا جس روز یہ سانحہ ہوا ، اس سے گزشتہ روز امریکا کی ٹیم افغانستان کے لیے دیے جانے والے اسلحے کی اسمگلنگ کی شکایات کا جائزہ لینے پاکستان نہیں آنے والی تھی؟
1993میں سرد جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچی، سوویت یونین پارہ پارہ ہوگیا۔عالمی سیاست کے رجحانات تبدیل ہوگئے،مگر ہم '' زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد'' کے مصداق سرد جنگ کی نفسیات پر ہی اڑے رہے۔ ہمارے بیشتر اہل دانش نے یہ سمجھ لیا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت میں شاید ہمارے تربیت کردہ جنگجوؤں کا کوئی کردار تھا۔ یہ احمقانہ سوچ پیدا ہوگئی کہ اسی طرح مغرب کی صنعتی معاشرت کو بھی ملیامیٹ کردیں گے، حالانکہ سوویت یونین افغان جنگ کے نتیجے میں تحلیل نہیں ہوا۔اس کے ٹوٹنے کی بنیاد بہت پہلے رکھی جاچکی تھی۔ خروشچیف کی معزولی اور بنیاد پرست برژنیف کا اقتدار میں آنا اس عمل کی شروعات تھی۔ روس کے بارے میں 1980کے عشرے میں جرمنی کے فرینکفرٹ اسکول کے نیو مارکسی فلاسفہ نے جو جائزے پیش کیے تھے، وہ کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
عقل مندی اور دانشمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگر وقتی مفادات کی خاطر80کے عشرے میں مجبوراً جنگجویانہ طرز عمل اختیارکرلیا تھا، تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس سے چھٹکارا پا لیتے، مگر ایسے جرأت مندانہ فیصلے وہ رہنماکرتے ہیں، جن میں فیصلہ سازی کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ لوگ جن کےGenes میں صدیوں سے حملہ آوروں کی خوشامد شامل ہو، عقل وخرد کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرسکتے۔بلکہ آقا بدلتے رہتے ہیں۔ سوجب ہم نے دیکھا کہ امریکا سے ماضی کی طرح مفادات کا حصول ممکن نہیں رہا تو ہم نے خود کچھ کرنے اورا پنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے آقا تبدیل کرلیا۔ خدا جانے یہ نیا ہنی مون کب تک چلے گا؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ مدوجزرکی ایک ایسی داستان ہے، جو عالمی سیاست کے طالب علموں کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اورسیکھنے کامواد فراہم کرتی ہے، اگر غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس پورے دور میں ہمارے حصے کی غلطیاں اور کوتاہیاں زیادہ نظر آئیں گی۔اس کے باوجود معصومانہ اصرار ہے کہ سارا قصور امریکا بہادر کا ہے۔کیونکہ حکمران اشرافیہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ نااہلی کی سب سے بڑی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ اپنی غلطیاں دوسروں کے سر تھوپ دی جائیں۔ ایسی صورتحال میں غالب کا متذکرہ بالا شعر یاد نہ آئے تو اورکیا ہو۔
حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اس شعرکے یاد آنے کا سبب یہ ہے کہ وطن عزیز میں جوکچھ ہوتا رہا ہے اور جوکچھ ہو رہا ہے، اس پرنوحہ گری کے سوا کچھ اور ممکن نہیں۔ ہمیں الجھنیں پالنے کا شوق ہے۔ جب کوئی مسئلہ نہ ہوتو خود ہی پیدا کرلیتے ہیں۔ پیدا ہونے والے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے مزید الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسائل پیچیدہ ہوتے ہوئے بحرانی شکل اختیارکرتے چلے گئے۔ پھر بھی ٹھوس اور دیرپا حل نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ گویا ہر معاملے پر عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کیے اور ان کاخمیازہ بھگتا۔
دو برسوں سے جاری پاناما لیکس کا غلغلہ اس لیے دھیما ہوا ہے، کیونکہ کسی بھی وقت عدالتی فیصلہ منظر عام پر آسکتا ہے۔ اب اس کی جگہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کا واشنگٹن پوسٹ میں تحریرکردہ مضمون اورسابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی 39مسلم ممالک کی مشترکہ افواج کی کمان سنبھالنے کا معاملہ موضوع سخن بنے ہوئے ہیں۔یہ دونوں موضوعات انتہائی اہم اور حساس ہیں۔ اس لیے الگ الگ اظہاریے کے متقاضی ہیں۔ آج کے اظہاریے میں حسین حقانی کے اس مضمون کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات پر کچھ گفتگو کیے لیتے ہیں۔
حسین حقانی نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا، وہ اچھنبے کی بات اس لیے نہیں۔ جو کچھ لکھا شاید وہ کم ہے، کیونکہ ہماری حکمران اشرافیہ تو اس سے بھی بڑھ کر خدمت گذاری کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے۔ جس کی مثال آج پاک چین دوستی کے حوالے سے الاپا جانے والا راگ ہے کہ یہ دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے۔ یہ مضحکہ خیز بیانات ہیں ، کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں اس قسم کی مبالغہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں امریکا کے لیے اس سے بڑھ کر جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، جب کہ ان اہل دانش پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کیے جاتے تھے، جو امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہی کچھ آج ہورہا ہے یعنی جو لوگ چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی بات کررہے ہیں، ان پر ملک دشمنی کا الزام عائد کر کے انھیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے کہ امریکا کو1947میں ہم سے زیادہ بھارت میں دلچسپی تھی۔ جس کے دستاویزی ثبوت موجودہیں جب کہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے سرخیل چوہدری محمد علی کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو امریکا کے قریب کر دیا جائے۔ چنانچہ لیاقت علی خان مرحوم کے دورہ سوویت یونین کو منسوخ کرا کے امریکا یاترا کی راہ ہموار کی گئی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 1957میں امریکی سفیر جیمز لینگ لے نے ایک تقریب میں میاں افتخارالدین مرحوم کا نام لے کر ان پر تنقید کی تو سرکاری عہدیدار وں کو تو چھوڑیے ،اپوزیشن جماعتوں تک نے سفارتی آداب کی اس خلاف ورزی پر آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ صحافیوں کی بڑی تعداد نے الٹا میاں صاحب مرحوم ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہم امریکا نواز نہ کل تھے اور نہ آج ہیں ۔ اسے کل بھی ایک استعماری قوت سمجھتے تھے اور آج بھی اس کے کردار سے اچھائی کی توقع نہیں رکھتے، مگر منافقت اور دہرے معیار سے خون کھولتاہے، جو صاحبان بصیرت آج امریکا پرکڑی تنقید کر کے اپنی دانشوری کی دھاک بٹھانے کی کوششیں کررہے ہیں، ذرا سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کی شقوں کا بھی مطالعہ کرلیں، معلوم ہوجائے گا کہ ان شقوں کی خلاف ورزی امریکا نے کی یا ہماری محب وطن حکمران اشرافیہ نے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ چند برس قبل انھی حسین حقانی کی ایک کتاب کی مہورت کے موقعے پر صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پاکستان میں سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے کہا تھاکہ'' عالمی تعلقات میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ مفادات ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہمیں آپ کی ضرورت تھی،آپ کوہماری۔ ہم نے آپ سے کام لیا اور ہرکام کا بہتر معاوضہ بروقت ادا کیا، مگر آپ نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے کم ہی ایفا کیے۔''
آج خان عبدالولی خان مرحوم ، میرغوث بخش بزنجو مرحوم اور اجمل خٹک مرحوم اس دنیا میں نہیں، لیکن ائیرمارشل اصغرخان حیات ہیں،ان سے توثیق کی جاسکتی ہے کہ ان اکابرین نے افغان قضیہ میں الجھنے سے کتنی بار روکا تھا اور کس انجام کی نشاندہی کی تھی، مگر اس وقت ضیاالحق اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی چاندنی ہورہی تھی، وہ بھلا کیونکراس عمل سے باز رہتیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے 1948میں قبائل کی جانب سے کشمیر میں لڑائی کو اس بنیاد پر جہاد تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ جہاد کا اعلان صرف اسلامی ریاست کرسکتی ہے، مگر ان کی آنکھ بند ہوتے ہی جنرل ضیا نے ان ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دیدیا۔ کوئی اہل دانش اس سوال کا جواب بھی تودے کہ منشیات کی اسمگلنگ، امریکی اسلحہ اور نقل حمل کے لیے اسرائیلی خچروں کے ذریعے کیا جہاد ممکن ہے؟
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف متعدد بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ جنیوا معاہدے کے بعد اس وقت کی حکومت نے افغانستان سے فارغ ہونے والے جنگجو جتھوں کو کشمیر میں برسرپیکار کردیا۔ کیا اس میں امریکا کی رضامندی شامل تھی؟ کیا بار بار مطالبے کے باوجود ہمارے منصوبہ ساز ان رقوم کا آڈٹ کرانے سے نہیں ہچکچاتے رہے جو امریکا نے افغان جنگ کے موقعے پر دی تھیں؟ کیا کسی نے اوجھڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ اوراس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں کی تفتیشی رپورٹ شایع کرنے کا مطالبہ کیا ؟ کیا جس روز یہ سانحہ ہوا ، اس سے گزشتہ روز امریکا کی ٹیم افغانستان کے لیے دیے جانے والے اسلحے کی اسمگلنگ کی شکایات کا جائزہ لینے پاکستان نہیں آنے والی تھی؟
1993میں سرد جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچی، سوویت یونین پارہ پارہ ہوگیا۔عالمی سیاست کے رجحانات تبدیل ہوگئے،مگر ہم '' زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد'' کے مصداق سرد جنگ کی نفسیات پر ہی اڑے رہے۔ ہمارے بیشتر اہل دانش نے یہ سمجھ لیا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت میں شاید ہمارے تربیت کردہ جنگجوؤں کا کوئی کردار تھا۔ یہ احمقانہ سوچ پیدا ہوگئی کہ اسی طرح مغرب کی صنعتی معاشرت کو بھی ملیامیٹ کردیں گے، حالانکہ سوویت یونین افغان جنگ کے نتیجے میں تحلیل نہیں ہوا۔اس کے ٹوٹنے کی بنیاد بہت پہلے رکھی جاچکی تھی۔ خروشچیف کی معزولی اور بنیاد پرست برژنیف کا اقتدار میں آنا اس عمل کی شروعات تھی۔ روس کے بارے میں 1980کے عشرے میں جرمنی کے فرینکفرٹ اسکول کے نیو مارکسی فلاسفہ نے جو جائزے پیش کیے تھے، وہ کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
عقل مندی اور دانشمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگر وقتی مفادات کی خاطر80کے عشرے میں مجبوراً جنگجویانہ طرز عمل اختیارکرلیا تھا، تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس سے چھٹکارا پا لیتے، مگر ایسے جرأت مندانہ فیصلے وہ رہنماکرتے ہیں، جن میں فیصلہ سازی کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ لوگ جن کےGenes میں صدیوں سے حملہ آوروں کی خوشامد شامل ہو، عقل وخرد کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرسکتے۔بلکہ آقا بدلتے رہتے ہیں۔ سوجب ہم نے دیکھا کہ امریکا سے ماضی کی طرح مفادات کا حصول ممکن نہیں رہا تو ہم نے خود کچھ کرنے اورا پنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے آقا تبدیل کرلیا۔ خدا جانے یہ نیا ہنی مون کب تک چلے گا؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ مدوجزرکی ایک ایسی داستان ہے، جو عالمی سیاست کے طالب علموں کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اورسیکھنے کامواد فراہم کرتی ہے، اگر غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس پورے دور میں ہمارے حصے کی غلطیاں اور کوتاہیاں زیادہ نظر آئیں گی۔اس کے باوجود معصومانہ اصرار ہے کہ سارا قصور امریکا بہادر کا ہے۔کیونکہ حکمران اشرافیہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ نااہلی کی سب سے بڑی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ اپنی غلطیاں دوسروں کے سر تھوپ دی جائیں۔ ایسی صورتحال میں غالب کا متذکرہ بالا شعر یاد نہ آئے تو اورکیا ہو۔