’’بیانیے‘‘ کی تبدیلی یا حقوق کا تحفظ
دہشتگردی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’بیانیے‘‘کو تبدیل کردیں
وزیرِاعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنے ایک بیان میں ملاؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ''بیانیے''کو تبدیل کردیں۔ یعنی جو 'بیانیہ' پہلے سے رائج تھا اس میں دہشتگردی کو ابھارنے والے عوامل موجود تھے۔ اس لیے اب ایسا بیانیہ متعارف کرایا جائے جودہشتگردی پر نہ اکساتا ہو۔ مطلب یہ کہ دہشتگردی کا تعلق صرف 'بیانیے' کے ساتھ ہے اور اگر ''بیانیے'' کو تبدیل کرلیا جائے تو دہشتگردی کا قضیہ حل ہوجائے گا۔ جب طبیعت اس جانب مائل ہو تو 'بیانیہ' بدل کر دہشتگردی ختم کی جا سکتی ہے اور جب کبھی دوبارہ ضرورت پڑے تو بیانیہ ایک بار پھر بدل دیا جائے، تاکہ پھر نئے حالات سے ہم آہنگ ہوا جا سکے۔
پہلی ہی نظر میں تو یہ بات بالکل سادہ سی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کو سمجھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اصل نکتہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مضمرہے کہ بیانیے کی تبدیلی کا زمینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ دہشتگردی کہیں خلا میں جنم نہیں لیتی، نہ ہی ایک بیانیے کے انہدام کی خواہش اورکسی دوسرے بیانیے کے احیا کی احتیاج کہیں خلا میں جنم لیتی ہے۔ ان کا گہرا تعلق انھی حالات کے ساتھ ہوتا ہے جن کے تحت نئے بیانیے کے حصول اورپرانے بیانیے سے نجات کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ پرانا بیانیہ جوکسی وقت عزیز تھا،اس کو قائم رکھنے اوراس کو ترقی دینے کے عوامل بھی زمینی ہی تھے۔ان حالات کا تقاضا یہی تھا کہ خطے کے حالات کے پیشِ نظر ان بیانیوں کا احیا کیا جائے جن کے اپنے اندر دہشت سے ہم آہنگ ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ نظریات کے اندردہشت وبربریت سے ہم آہنگ ہونے والے عوامل موجود ہوتے ہیں، لیکن ان عوامل کا خارجی سطح پر ابھار اسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب خارجی سطح پر رائج ریاستی ''بیانیوں'' کے نتیجے میں جنم لینے والے حالات اور ریاستی ظلم ودہشت ان کے لیے جگہ ہموارکردیتے ہیں۔موجودہ دہشت پسندی کی لہرکو فقط بیانیے کی تبدیلی سے ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ حقیقی سماجی، طبقاتی تضادات کی تحلیل بذات خود بیانیے کی تبدیلی کی لازمی شرط بن جائے گی۔
مختصر یہ کہ پہلے ان حالات کو ختم کریں جو نظریاتی، نسلی، قومی، صوبائی شناختوں کے انہدام کے احساس تلے مذہبی یا دیگر ''دہشتگردی'' کی جانب مائل کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات کی تبدیلی بذاتِ خود بیانیے کی تبدیلی کا باعث ہوتی ہے، لیکن اگر ریاستی ظلم و تشدد، ریاستی دہشت وبربریت، ریاستی غنڈہ گردی، ریاستی جبرواستحصال برقرار رہے، تو محض ملاؤں کے تجریدی بیانیوں کی وہی حیثیت ہوگی، جو پاکستان کے آئین کی ان شقوں کی ہے، جن میں انسانی حقوق کی نگہبانی کو ریاست کی ذمے داری قراردیا گیا ہے، مگر ان کا التوا آئینی بیانیے کے التوا کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ریاست کا کوئی نہ کوئی بیانیہ ہوتا ہے لیکن مسئلہ کسی ایک بیانیے کے ''مہابیانیہ'' بن جانے سے جنم لیتا ہے۔ بڑے بیانیے کی دو سطحیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ریاست کسی بڑے بیانیے کو لوگوں کے علاقائی، قومی، مذہبی اورثقافتی ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زبردستی مسلط کرے۔ دوسرا بیانیہ بھی ریاست کے اسی تصور سے جنم لیتا ہے،اس وقت جب ریاستی ظلم وتشدد اورجبرواستحصال کی سطح کچھ ایسی بلند ہوجاتی ہے کہ ہر سطح پرظلم وجبرکے شکارلوگ اپنی 'مائیکرو' شناختوں سے محرومی کے خوف سے اس بڑے ریاستی بیانیے سے ٹکراجاتے ہیں۔اس مرحلے پر دونوں میں بڑا بیانیہ بننے کی استعداد ایک ہی سطح پر پیدا ہوجاتی ہے۔
ریاست جس قدرظالم ہوتی ہے اورجس حد تک اس نے اپنے ہی باشندوں کو ان کی بنیادی سہولیات سے محروم کر رکھا ہوتا ہے،اسی حد تک اس ریاست کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست اس قسم کی مزاحمت کو طاقت کے ذریعے دباتی ہے،کیونکہ دیگرنظریاتی ہتھیار تو بیکار ہوچکے ہوتے ہیں، لیکن بذریعہ طاقت لوگوں سے متعلقہ ان اہم ترین عوامل کو دبانے سے وقتی طور پر تو 'امن' قائم ہوسکتا ہے، تاہم یہ مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں۔
حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی بھی ریاست محض چند بالائی طبقات کی جاگیر نہیں ہوتی، نہ ہی ریاست چندخاندانوں ہی کی ملکیت ہوتی ہے جس پر وہی نسل در نسل حکومت کرتے ہیں۔کوئی بھی ملک صرف ان افراد کی ملکیت نہیں ہوتا جواقتدار میں ہوں اورجن کے پاس اختیارات ہوں،اس پر مستزاد یہ کہ یہ اختیارات بھی عوامی ووٹ سے حاصل کیے گئے ہوں۔ ریاست ان لوگوں کی بھی ملکیت ہوتی ہے، جو سیاست دانوں کو بااختیارکرنے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ریاست پر ان لوگوں کا بھی حق ہوتا ہے جن کو روٹی،کپڑا، مکان، بجلی،گیس، پانی وغیرہ کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں بلکہ ان تمام سہولیات سے اسی ریاست پر براجمان طبقات نے ہی لوگوں کو محروم کر رکھا ہوتا ہے۔
ان بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حق کو ریاست کا آئین بھی تسلیم کرتا ہے۔ فقط کسی ملک کے پاسپورٹ کا رنگ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص فلاں ملک کا باشندہ ہے۔نہ ہی کسی ملک کا پاسپورٹ لینے سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں ملک اس کا ہے۔''ملکیت'' کے لیے ضروری ہے ہرباشندہ اس ملک کے وسائل پر یکساں حق اوراختیار رکھتا ہو۔ ووٹ دینے کے بعد جس شخص کو پارلیمان کو صرف دور سے دیکھنے کی اجازت ہو اسے اس بات کا کیسے یقین آجائے کہ اس پارلیمان پراس کا بھی کوئی حق ہے یا اس پارلیمان میں اس شخص کے حقوق کی بھی حفاظت کی جائے گی؟ جہاں ہرقسم کی بنیادی سہولیات سے محروم اورجھونپڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ریاستی طاقت سے ماربھگایا جائے، ان کوکیسے یقین آجائے کہ وہ واقعی اس ملک کے باشندے ہیں؟ نکتہ یہ نہیں کہ بیانیہ تبدیل کردیا جائے، اصل نکتہ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ لوگ آج تک انھی بیانیوں پر قائم کیوں ہیں جن کی تشکیل وارتقا اوران کی مائل رہنے کا رجحان خود ریاستی پالیسی کا لازمی نتیجہ ہے؟
''نظریاتی بیانیے'' اپنی سرشت میں مہا بیانیے ہی ہوتے ہیں۔وزیراعظم جس نئے بیانیے کے پیش کیے جانے کی توقع کررہے ہیں وہ پہلے سے موجود بیانیے کو اپنے موجود اوربظاہر''لبرل'' بیانیے کے تحت لاکر اپنے بڑے بیانیے کی اہمیت ہی کو واضح کررہے ہیں۔ جس کا واحد پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اب تمام مسائل کا حل اسی بیانیے کے پاس ہے، لیکن جس مذہبی بیانیے کی تبدیلی کی خواہش کی جارہی ہے، اس کے اپنے اندر مہابیانیے بننے کی اتنی ہی استعداد اورشدت موجود ہے، جتنی کہ اس لبرل بیانیے کے اندر موجود تھی،جواٹھارویں صدی کے مغرب میں''روشن خیالی'' کے نام سے متعارف ہوا تھا اوربعد ازاں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی خود سے اس بنا پر تضاد میں آگیا کہ اس کے اندر بیسویں صدی کے سماجی، سیاسی اورمعاشی تضادات سے نمٹنے کی سکت موجود نہیں تھی۔ وزیرِ اعظم نے محض بیانیے کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔اس بیانیے میں کس قسم کی تبدیلی درکار ہے،اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
مغرب میں صورتحال بہت واضح تھی۔وہاں عقلیت پسندی ایک کلیت پسند فلسفے کی شکل میں ایک مہا بیانیے کی تشکیل کرچکی تھی۔ ہر مسیحی تشریح پر لازم تھا کہ وہ عقلیت کے سامنے سرنگوں ہوجائے،لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کی نظریاتی اساس اتنی کمزور ہے کہ جو خود بیانیوں کی تشریح وتوضیح اور ان کی کوئی بھی واضح تشکیل کرنے سے عاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انھی لوگوں سے اپنے بیانیے کو تبدیل کرنے کا کہا گیا ہے جو موجود سیاسی، سماجی اورمعاشی عمل کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ یہاں پہلے سے موجود نظریاتی ٹکراؤ اورکشمکش کو بذریعہ معاہدہ حل کرنے کی کوشش ہے،اگر یہ کوشش کامیاب ہو بھی جائے تو نظریات کے تصادم کی یہ تحلیل مسائل کا کوئی دیرپا حل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ضروری یہ ہے کہ اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ صرف مذہبی بنیاد پرستوں کو ہی بیانیے بدلنے کا مشورہ نہ دیا جائے، بلکہ پاکستان کے پسے ہوئے، استحصال زدہ طبقات کو رنگ ونسل، زبان اور قومیت کی تفریق کیے ان کے بنیادی حقوق تفویض کیے جائیں۔ورنہ کسی ایک بیانیے سے سمجھوتہ کسی دوسرے مائیکروبیانیے کو مہابیانیہ بننے سے روک نہیں سکتا۔
پہلی ہی نظر میں تو یہ بات بالکل سادہ سی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کو سمجھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اصل نکتہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مضمرہے کہ بیانیے کی تبدیلی کا زمینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ دہشتگردی کہیں خلا میں جنم نہیں لیتی، نہ ہی ایک بیانیے کے انہدام کی خواہش اورکسی دوسرے بیانیے کے احیا کی احتیاج کہیں خلا میں جنم لیتی ہے۔ ان کا گہرا تعلق انھی حالات کے ساتھ ہوتا ہے جن کے تحت نئے بیانیے کے حصول اورپرانے بیانیے سے نجات کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ پرانا بیانیہ جوکسی وقت عزیز تھا،اس کو قائم رکھنے اوراس کو ترقی دینے کے عوامل بھی زمینی ہی تھے۔ان حالات کا تقاضا یہی تھا کہ خطے کے حالات کے پیشِ نظر ان بیانیوں کا احیا کیا جائے جن کے اپنے اندر دہشت سے ہم آہنگ ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ نظریات کے اندردہشت وبربریت سے ہم آہنگ ہونے والے عوامل موجود ہوتے ہیں، لیکن ان عوامل کا خارجی سطح پر ابھار اسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب خارجی سطح پر رائج ریاستی ''بیانیوں'' کے نتیجے میں جنم لینے والے حالات اور ریاستی ظلم ودہشت ان کے لیے جگہ ہموارکردیتے ہیں۔موجودہ دہشت پسندی کی لہرکو فقط بیانیے کی تبدیلی سے ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ حقیقی سماجی، طبقاتی تضادات کی تحلیل بذات خود بیانیے کی تبدیلی کی لازمی شرط بن جائے گی۔
مختصر یہ کہ پہلے ان حالات کو ختم کریں جو نظریاتی، نسلی، قومی، صوبائی شناختوں کے انہدام کے احساس تلے مذہبی یا دیگر ''دہشتگردی'' کی جانب مائل کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات کی تبدیلی بذاتِ خود بیانیے کی تبدیلی کا باعث ہوتی ہے، لیکن اگر ریاستی ظلم و تشدد، ریاستی دہشت وبربریت، ریاستی غنڈہ گردی، ریاستی جبرواستحصال برقرار رہے، تو محض ملاؤں کے تجریدی بیانیوں کی وہی حیثیت ہوگی، جو پاکستان کے آئین کی ان شقوں کی ہے، جن میں انسانی حقوق کی نگہبانی کو ریاست کی ذمے داری قراردیا گیا ہے، مگر ان کا التوا آئینی بیانیے کے التوا کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ریاست کا کوئی نہ کوئی بیانیہ ہوتا ہے لیکن مسئلہ کسی ایک بیانیے کے ''مہابیانیہ'' بن جانے سے جنم لیتا ہے۔ بڑے بیانیے کی دو سطحیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ریاست کسی بڑے بیانیے کو لوگوں کے علاقائی، قومی، مذہبی اورثقافتی ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زبردستی مسلط کرے۔ دوسرا بیانیہ بھی ریاست کے اسی تصور سے جنم لیتا ہے،اس وقت جب ریاستی ظلم وتشدد اورجبرواستحصال کی سطح کچھ ایسی بلند ہوجاتی ہے کہ ہر سطح پرظلم وجبرکے شکارلوگ اپنی 'مائیکرو' شناختوں سے محرومی کے خوف سے اس بڑے ریاستی بیانیے سے ٹکراجاتے ہیں۔اس مرحلے پر دونوں میں بڑا بیانیہ بننے کی استعداد ایک ہی سطح پر پیدا ہوجاتی ہے۔
ریاست جس قدرظالم ہوتی ہے اورجس حد تک اس نے اپنے ہی باشندوں کو ان کی بنیادی سہولیات سے محروم کر رکھا ہوتا ہے،اسی حد تک اس ریاست کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست اس قسم کی مزاحمت کو طاقت کے ذریعے دباتی ہے،کیونکہ دیگرنظریاتی ہتھیار تو بیکار ہوچکے ہوتے ہیں، لیکن بذریعہ طاقت لوگوں سے متعلقہ ان اہم ترین عوامل کو دبانے سے وقتی طور پر تو 'امن' قائم ہوسکتا ہے، تاہم یہ مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں۔
حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی بھی ریاست محض چند بالائی طبقات کی جاگیر نہیں ہوتی، نہ ہی ریاست چندخاندانوں ہی کی ملکیت ہوتی ہے جس پر وہی نسل در نسل حکومت کرتے ہیں۔کوئی بھی ملک صرف ان افراد کی ملکیت نہیں ہوتا جواقتدار میں ہوں اورجن کے پاس اختیارات ہوں،اس پر مستزاد یہ کہ یہ اختیارات بھی عوامی ووٹ سے حاصل کیے گئے ہوں۔ ریاست ان لوگوں کی بھی ملکیت ہوتی ہے، جو سیاست دانوں کو بااختیارکرنے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ریاست پر ان لوگوں کا بھی حق ہوتا ہے جن کو روٹی،کپڑا، مکان، بجلی،گیس، پانی وغیرہ کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں بلکہ ان تمام سہولیات سے اسی ریاست پر براجمان طبقات نے ہی لوگوں کو محروم کر رکھا ہوتا ہے۔
ان بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حق کو ریاست کا آئین بھی تسلیم کرتا ہے۔ فقط کسی ملک کے پاسپورٹ کا رنگ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص فلاں ملک کا باشندہ ہے۔نہ ہی کسی ملک کا پاسپورٹ لینے سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں ملک اس کا ہے۔''ملکیت'' کے لیے ضروری ہے ہرباشندہ اس ملک کے وسائل پر یکساں حق اوراختیار رکھتا ہو۔ ووٹ دینے کے بعد جس شخص کو پارلیمان کو صرف دور سے دیکھنے کی اجازت ہو اسے اس بات کا کیسے یقین آجائے کہ اس پارلیمان پراس کا بھی کوئی حق ہے یا اس پارلیمان میں اس شخص کے حقوق کی بھی حفاظت کی جائے گی؟ جہاں ہرقسم کی بنیادی سہولیات سے محروم اورجھونپڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ریاستی طاقت سے ماربھگایا جائے، ان کوکیسے یقین آجائے کہ وہ واقعی اس ملک کے باشندے ہیں؟ نکتہ یہ نہیں کہ بیانیہ تبدیل کردیا جائے، اصل نکتہ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ لوگ آج تک انھی بیانیوں پر قائم کیوں ہیں جن کی تشکیل وارتقا اوران کی مائل رہنے کا رجحان خود ریاستی پالیسی کا لازمی نتیجہ ہے؟
''نظریاتی بیانیے'' اپنی سرشت میں مہا بیانیے ہی ہوتے ہیں۔وزیراعظم جس نئے بیانیے کے پیش کیے جانے کی توقع کررہے ہیں وہ پہلے سے موجود بیانیے کو اپنے موجود اوربظاہر''لبرل'' بیانیے کے تحت لاکر اپنے بڑے بیانیے کی اہمیت ہی کو واضح کررہے ہیں۔ جس کا واحد پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اب تمام مسائل کا حل اسی بیانیے کے پاس ہے، لیکن جس مذہبی بیانیے کی تبدیلی کی خواہش کی جارہی ہے، اس کے اپنے اندر مہابیانیے بننے کی اتنی ہی استعداد اورشدت موجود ہے، جتنی کہ اس لبرل بیانیے کے اندر موجود تھی،جواٹھارویں صدی کے مغرب میں''روشن خیالی'' کے نام سے متعارف ہوا تھا اوربعد ازاں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی خود سے اس بنا پر تضاد میں آگیا کہ اس کے اندر بیسویں صدی کے سماجی، سیاسی اورمعاشی تضادات سے نمٹنے کی سکت موجود نہیں تھی۔ وزیرِ اعظم نے محض بیانیے کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔اس بیانیے میں کس قسم کی تبدیلی درکار ہے،اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
مغرب میں صورتحال بہت واضح تھی۔وہاں عقلیت پسندی ایک کلیت پسند فلسفے کی شکل میں ایک مہا بیانیے کی تشکیل کرچکی تھی۔ ہر مسیحی تشریح پر لازم تھا کہ وہ عقلیت کے سامنے سرنگوں ہوجائے،لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کی نظریاتی اساس اتنی کمزور ہے کہ جو خود بیانیوں کی تشریح وتوضیح اور ان کی کوئی بھی واضح تشکیل کرنے سے عاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انھی لوگوں سے اپنے بیانیے کو تبدیل کرنے کا کہا گیا ہے جو موجود سیاسی، سماجی اورمعاشی عمل کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ یہاں پہلے سے موجود نظریاتی ٹکراؤ اورکشمکش کو بذریعہ معاہدہ حل کرنے کی کوشش ہے،اگر یہ کوشش کامیاب ہو بھی جائے تو نظریات کے تصادم کی یہ تحلیل مسائل کا کوئی دیرپا حل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ضروری یہ ہے کہ اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ صرف مذہبی بنیاد پرستوں کو ہی بیانیے بدلنے کا مشورہ نہ دیا جائے، بلکہ پاکستان کے پسے ہوئے، استحصال زدہ طبقات کو رنگ ونسل، زبان اور قومیت کی تفریق کیے ان کے بنیادی حقوق تفویض کیے جائیں۔ورنہ کسی ایک بیانیے سے سمجھوتہ کسی دوسرے مائیکروبیانیے کو مہابیانیہ بننے سے روک نہیں سکتا۔