مشاہدات
ماشاء اللہ پچھلے دنوں کافی سیاسی ومذہبی رہنما رہائی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور باعزت قرار دیے گئے
ISLAMABAD:
ماشاء اللہ پچھلے دنوں کافی سیاسی ومذہبی رہنما رہائی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور باعزت قرار دیے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں مرد حضرات بھی ہیں خواتین بھی، بوڑھے بھی ہیں جوان بھی انھیں اِنتہائی معزز عدالت نے بری کیا۔ پورا کیس باقاعدہ سنا گیا گواہیاں ہوئیں، لیکن کچھ ثابت نہ ہونے پر یہ خواتین وحضرات چھوٹ گئے۔البتہ پانامہ لیکس کے کیس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔وہ بھی آجائے گا مسئلہ نہیں، ملک چل رہا ہے سب چلے گا، انصاف مہیا ہورہا ہے، چرچل نے دوسری جنگِ عظیم میں یہی توکہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں درست کام کررہی ہیں توہم جنگ نہیں ہاریں گے، بلکہ یہاں تو انصاف کی بھی حد ہوگئی، شرجیل میمن کو باہر سے بلواکر بیل دی گئی جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت سے ہاتھ اٹھا لیا تھا، لیکن انھیں انصاف فراہم کرنا تھا، لہذا انھیں اسلام آباد بلایا گیا اور ضمانت دے دی گئی۔ اُمید ہے کچھ دن بعد وہ باعزت رہا بھی ہوجائیں گے۔اسی طرح یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا اور ملک ترقی کی شاہراہ پرگامزن۔
مجھے انصاف کے معانی شاید کبھی سمجھ نہ آئیں، اس لیے کہ میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔کچھ لوگ نعرہ زن ہیں کہ انصاف ہوگا ورنہ جنازہ نکل جائے گاکچھ طعنہ زن ہیں انصاف ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ہمارے حق میں ہوگا۔اس پر ان دنوں میڈیا اکھاڑا بنا ہوا ہے، روز کشتی ہوتی ہے ریفری میدان میں موجود، پہلوان اترتے ہیں، پھر اپنے اپنے داؤ پیچ جوجیتا وہی سکندر، یہ کاروبارِزندگی ہے، لیکن مجھے خان کی اُمید پوری ہوتی نظرنہیں آتی،کچھ ڈانٹ ضرور پڑے گی اس سے زیادہ ان کی خام خیالی ہوسکتی ہے۔
البتہ یہ بھی کچھ کم اہم نہیں کہ ایک برسرِاقتدار وزیرِاعظم پرعدالت میں کیس دائر کیا گیا،اس کی سنوائی ہورہی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ دو چار روز قبل حامدسعیدکاظمی،راؤ شکیل،ایان علی، شرجیل میمن رہا ہوگئے،اُن پر بھی کھربوں روپے کے کیسز تھے۔یہ قسمت ہے جس پرکسی کا زور نہیں۔اپنے یہاںقسمت سب سے بڑا stake holder ہے۔ غلطی ڈاکٹرکی ہو یا غذائی ملاوٹ کی،قاتل ہوکہ مقتول، راہزن ہو یا لٹنے والا سب مقدر ہے۔ بھٹو پھانسی پر چڑھ گئے ان کی قسمت تھی، ماشل لاء آگیا،جمہوریت آگئی پھر چلی گئی،کل امریکا دوست تھا آج چین ہے، طالبان کبھی عزیز بھی رہے اب نہیں ہیں،کل کیا ہوگا؟ کون جانے سب قسمت ہے اورقسمت کو کوئی الزام کیسے دے سکتا ہے۔
میں کافی عرصے سے ٹی وی نہیں دیکھتا کیونکہ مجھے کم وبیش حالات کا علم ہے، پاکستان میں پیش بینی کچھ بھی مشکل نہیں،آپ چاہیں تو یہی کوئی 50 برسوں کی پیشن گوئی بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں،کیونکہ حا لات میں اس قدر تسلسل ہے، واقعات میں اس قدر تواتر ہے،جن کی بنیاد پر آپ چاہیں تو علمِ نجوم کے شعبے سے باآسانی وابستہ ہوسکتے ہیں۔ یعنی سن2018 ًء کے الیکشن میں کیا ہو گا؟ عمران خان کا اگلا ایکشن، اگر فیصلہ اُن کے حق میں نا آیا تو،MQM میں فاروق بھائی کا مستقبل ،psp، سندھ میں الیکشن کا نتیجہ کیا نہیں بتایا جاسکتا،بہرحال کوئی متفق نا ہو میںاپنی رائے میں راسخ ہوں۔
اُدھر آصف علی زرداری کے لیے ماننا ہوگا کہ وہ ملکی سیاست کے صحیح ڈاکٹر ہیں،جیسے ہی وہ تشریف لائے فتح کرتے چلے گئے۔میاں صاحب بڑے صوبے کی کھارہے ہیں ورنہ وہ زرداری کے پائے کی سیاست نہیں جانتے ۔بلکہ اُن کے سامنے طفلِ مکتب ہیں۔سب سے بڑا خلا سندھ کے شہری علاقوں میں قائدِتحریک کی متنازعہ تقاریر سے پیدا ہوا ،جہاں اب کوئی موثر قیادت دکھائی نہیںدیتی ،ہونے کو تو ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی ہے لیکن ووٹر آج بھی قائد کے گُن گاتا ہے۔ نعرہ قائد کا لگاتا ہے، لیکن قائد ہیں کہ ہوش گم حواس گم،خرد کے آس پاس گم، نجانے کیا کہتے ہیں، بلکہ کیا کیا کہتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں کسی اور تک اُس کا مفہوم نہیں پہنچ پاتا۔اگرچہ اُنکی فلم سینیما سے اترے مدت ہوئی، انھیں بہرحال اس کا ادراک نہیں۔
ظاہر ہے ملک وقوم کو برا کہنا،دفاع کے لیے انتہائی غلط زبان کا استعمال،گویا وہ تو اپنے گھرگئے اپنے چاہنے والوں کو بھی بے گھر کرگئے۔یہاں آیندہ الیکشن بڑی محرومی کو جنم دے گا اور مقتدر حلقوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔اس معاملے کو نظراندازکرنا ہمارے اچھے مستقبل کو برباد کردے گا۔کیونکہ پھر ایک احساسِ محرومی پھر ایک مطالبہ، نیا جھگڑا، بہتر ہوگا کہ کسی ایک کو ان کا متبادل بننے دیں۔آپ خواہ اپنی پسند کا مرغا لڑائیںکوئی اعتراض نہیں، لیکن قیادت بہرحال بننے ضروری ہے، دیکھیے سبھی را کے ایجنٹ نہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی قربانیوں کی وجہ سے یہ ملک معرض وجود میں آیا، تب یہی لٹے تھے تب انھی کے گھر جلے تھے یہی کٹے تھے، اب کچھ عناصر کی وجہ سے ایک پوری قوم کو بہت پیچھے دھکیل دینا کہاں کا انصاف ہے؟ جس شہر سے ملک چلتا ہو وہاں کے مزدوروں،محنت کشوں پر روز ڈنڈے برسانا کہاں کی حکومت ہے؟ آپ مجرم کو مت چھوڑیں، لیکن سب مجرم نہیں ہیں میرے بھائی اور سب محبِ وطن بھی نہیں اورآپ جانتے بھی ہیں۔
مجھے آج پتہ نہیں کیوں موضوع بدلنا ٹھیک نہیں لگ رہا اور نجانے کونسی قوت مجھے اپنی بات کے اصرار کرنے پر اکسا رہی ہے، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کچھ ایسے حقائق جو آپ کو معلوم ضرور ہوں گے، لیکن شاید ہمیں بار بار ان پر بات کرنی چاہیے۔ قوموں کی زندگی میں رہنماء کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی سے بھی زیادہ ہوتی ہے، یہاں الطاف حسین اردو بولنے والوں کے واحد لیڈر تھے۔35 سال وہ اپنی فلاسفی بیان فرماتے رہے، جسے بدقسمتی سے وہ خود بھی کبھی نہیں سمجھ سکے،لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا اسپیس تھا، لوگ نا سمجھتے ہوئے بھی ساتھ لگ لیے ۔انھیں کچھ نہیں ملا،کبھی نہیں ملا، وعدے وعدے اور وعدے۔ لیکن قوم برباد ہوگئی اور ابھی ان کا پیٹ نہیں بھرا،ارے بھائی آزادی کیا ہوتی ہے تم کیا جانو؟ گھرکی چار دیواری کیا چیز ہے؟
تمہیں کیا معلوم،یہ پاکستان ہمارا وجود ہے، ہمارا دل،ہمارا سب کچھ، ہم اس سے ہیں یہ ہم سے، ہمیں یہاں کچھ ملے نا ملے ہم خوش ہیں،کوئی اور ہمیں جنت بنادے ہمیں منظور نہیں،کیوں اس قوم کی بربادی پر تلے ہو،کیوں نہیں لوگوں کو جینے دیتے۔ ہم ایک کلمہ پڑھنے والے ،ایک نبیﷺ کو ماننے والے،تم ہمیں کس راہ پر لیے جارہے ہو؟ ایک پڑھی لکھی، مہذب قوم،جس کے شاعر،ادیب،خطیب،دانشور،تم نے انھیں کس راہ پر لگا دیا؟ لیکن میں تمہیں بتادوں کہ ہم اس ملک کے رکھوالے ہیں۔ یہ ہمارے سینے میں دھڑکتا ہے۔اس کی بنیادوں میں ہمارے اجداد کا لہو ہے، ہم اسے رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔انشاء اللہ
پچھلے دنوں محترم عمران خان نے ملک میں آئے ہوئے مہمانوں کے لیے جو الفاظ اداکیے ایک تو وہ انھیں چھوڑیے کسی کو بھی زیب نہیں دیتے، لیکن اگر وہ کھلاڑی عالمی معیارکے نہیں بھی تھے تب بھی کیا کسی مہمان کے ساتھ اس طرح کا رویہ مناسب ہے،جب کہ آپ ہر دوسرے جملے میں آپﷺکی حدیثِ مبارکہ بیان فرماتے ہیں، توکیا آپ حضورﷺ کی احادیث مہمانوں سے سلوک کے بارے میں کیا ہیں بھول گئے یانوازشریف کی دشمنی نے اس قدرعاجزکردیا کہ
ہوش گم حواس گم، خردکے آس پاس گم
ماشاء اللہ پچھلے دنوں کافی سیاسی ومذہبی رہنما رہائی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور باعزت قرار دیے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں مرد حضرات بھی ہیں خواتین بھی، بوڑھے بھی ہیں جوان بھی انھیں اِنتہائی معزز عدالت نے بری کیا۔ پورا کیس باقاعدہ سنا گیا گواہیاں ہوئیں، لیکن کچھ ثابت نہ ہونے پر یہ خواتین وحضرات چھوٹ گئے۔البتہ پانامہ لیکس کے کیس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔وہ بھی آجائے گا مسئلہ نہیں، ملک چل رہا ہے سب چلے گا، انصاف مہیا ہورہا ہے، چرچل نے دوسری جنگِ عظیم میں یہی توکہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں درست کام کررہی ہیں توہم جنگ نہیں ہاریں گے، بلکہ یہاں تو انصاف کی بھی حد ہوگئی، شرجیل میمن کو باہر سے بلواکر بیل دی گئی جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت سے ہاتھ اٹھا لیا تھا، لیکن انھیں انصاف فراہم کرنا تھا، لہذا انھیں اسلام آباد بلایا گیا اور ضمانت دے دی گئی۔ اُمید ہے کچھ دن بعد وہ باعزت رہا بھی ہوجائیں گے۔اسی طرح یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا اور ملک ترقی کی شاہراہ پرگامزن۔
مجھے انصاف کے معانی شاید کبھی سمجھ نہ آئیں، اس لیے کہ میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔کچھ لوگ نعرہ زن ہیں کہ انصاف ہوگا ورنہ جنازہ نکل جائے گاکچھ طعنہ زن ہیں انصاف ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ہمارے حق میں ہوگا۔اس پر ان دنوں میڈیا اکھاڑا بنا ہوا ہے، روز کشتی ہوتی ہے ریفری میدان میں موجود، پہلوان اترتے ہیں، پھر اپنے اپنے داؤ پیچ جوجیتا وہی سکندر، یہ کاروبارِزندگی ہے، لیکن مجھے خان کی اُمید پوری ہوتی نظرنہیں آتی،کچھ ڈانٹ ضرور پڑے گی اس سے زیادہ ان کی خام خیالی ہوسکتی ہے۔
البتہ یہ بھی کچھ کم اہم نہیں کہ ایک برسرِاقتدار وزیرِاعظم پرعدالت میں کیس دائر کیا گیا،اس کی سنوائی ہورہی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ دو چار روز قبل حامدسعیدکاظمی،راؤ شکیل،ایان علی، شرجیل میمن رہا ہوگئے،اُن پر بھی کھربوں روپے کے کیسز تھے۔یہ قسمت ہے جس پرکسی کا زور نہیں۔اپنے یہاںقسمت سب سے بڑا stake holder ہے۔ غلطی ڈاکٹرکی ہو یا غذائی ملاوٹ کی،قاتل ہوکہ مقتول، راہزن ہو یا لٹنے والا سب مقدر ہے۔ بھٹو پھانسی پر چڑھ گئے ان کی قسمت تھی، ماشل لاء آگیا،جمہوریت آگئی پھر چلی گئی،کل امریکا دوست تھا آج چین ہے، طالبان کبھی عزیز بھی رہے اب نہیں ہیں،کل کیا ہوگا؟ کون جانے سب قسمت ہے اورقسمت کو کوئی الزام کیسے دے سکتا ہے۔
میں کافی عرصے سے ٹی وی نہیں دیکھتا کیونکہ مجھے کم وبیش حالات کا علم ہے، پاکستان میں پیش بینی کچھ بھی مشکل نہیں،آپ چاہیں تو یہی کوئی 50 برسوں کی پیشن گوئی بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں،کیونکہ حا لات میں اس قدر تسلسل ہے، واقعات میں اس قدر تواتر ہے،جن کی بنیاد پر آپ چاہیں تو علمِ نجوم کے شعبے سے باآسانی وابستہ ہوسکتے ہیں۔ یعنی سن2018 ًء کے الیکشن میں کیا ہو گا؟ عمران خان کا اگلا ایکشن، اگر فیصلہ اُن کے حق میں نا آیا تو،MQM میں فاروق بھائی کا مستقبل ،psp، سندھ میں الیکشن کا نتیجہ کیا نہیں بتایا جاسکتا،بہرحال کوئی متفق نا ہو میںاپنی رائے میں راسخ ہوں۔
اُدھر آصف علی زرداری کے لیے ماننا ہوگا کہ وہ ملکی سیاست کے صحیح ڈاکٹر ہیں،جیسے ہی وہ تشریف لائے فتح کرتے چلے گئے۔میاں صاحب بڑے صوبے کی کھارہے ہیں ورنہ وہ زرداری کے پائے کی سیاست نہیں جانتے ۔بلکہ اُن کے سامنے طفلِ مکتب ہیں۔سب سے بڑا خلا سندھ کے شہری علاقوں میں قائدِتحریک کی متنازعہ تقاریر سے پیدا ہوا ،جہاں اب کوئی موثر قیادت دکھائی نہیںدیتی ،ہونے کو تو ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی ہے لیکن ووٹر آج بھی قائد کے گُن گاتا ہے۔ نعرہ قائد کا لگاتا ہے، لیکن قائد ہیں کہ ہوش گم حواس گم،خرد کے آس پاس گم، نجانے کیا کہتے ہیں، بلکہ کیا کیا کہتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں کسی اور تک اُس کا مفہوم نہیں پہنچ پاتا۔اگرچہ اُنکی فلم سینیما سے اترے مدت ہوئی، انھیں بہرحال اس کا ادراک نہیں۔
ظاہر ہے ملک وقوم کو برا کہنا،دفاع کے لیے انتہائی غلط زبان کا استعمال،گویا وہ تو اپنے گھرگئے اپنے چاہنے والوں کو بھی بے گھر کرگئے۔یہاں آیندہ الیکشن بڑی محرومی کو جنم دے گا اور مقتدر حلقوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔اس معاملے کو نظراندازکرنا ہمارے اچھے مستقبل کو برباد کردے گا۔کیونکہ پھر ایک احساسِ محرومی پھر ایک مطالبہ، نیا جھگڑا، بہتر ہوگا کہ کسی ایک کو ان کا متبادل بننے دیں۔آپ خواہ اپنی پسند کا مرغا لڑائیںکوئی اعتراض نہیں، لیکن قیادت بہرحال بننے ضروری ہے، دیکھیے سبھی را کے ایجنٹ نہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی قربانیوں کی وجہ سے یہ ملک معرض وجود میں آیا، تب یہی لٹے تھے تب انھی کے گھر جلے تھے یہی کٹے تھے، اب کچھ عناصر کی وجہ سے ایک پوری قوم کو بہت پیچھے دھکیل دینا کہاں کا انصاف ہے؟ جس شہر سے ملک چلتا ہو وہاں کے مزدوروں،محنت کشوں پر روز ڈنڈے برسانا کہاں کی حکومت ہے؟ آپ مجرم کو مت چھوڑیں، لیکن سب مجرم نہیں ہیں میرے بھائی اور سب محبِ وطن بھی نہیں اورآپ جانتے بھی ہیں۔
مجھے آج پتہ نہیں کیوں موضوع بدلنا ٹھیک نہیں لگ رہا اور نجانے کونسی قوت مجھے اپنی بات کے اصرار کرنے پر اکسا رہی ہے، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کچھ ایسے حقائق جو آپ کو معلوم ضرور ہوں گے، لیکن شاید ہمیں بار بار ان پر بات کرنی چاہیے۔ قوموں کی زندگی میں رہنماء کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی سے بھی زیادہ ہوتی ہے، یہاں الطاف حسین اردو بولنے والوں کے واحد لیڈر تھے۔35 سال وہ اپنی فلاسفی بیان فرماتے رہے، جسے بدقسمتی سے وہ خود بھی کبھی نہیں سمجھ سکے،لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا اسپیس تھا، لوگ نا سمجھتے ہوئے بھی ساتھ لگ لیے ۔انھیں کچھ نہیں ملا،کبھی نہیں ملا، وعدے وعدے اور وعدے۔ لیکن قوم برباد ہوگئی اور ابھی ان کا پیٹ نہیں بھرا،ارے بھائی آزادی کیا ہوتی ہے تم کیا جانو؟ گھرکی چار دیواری کیا چیز ہے؟
تمہیں کیا معلوم،یہ پاکستان ہمارا وجود ہے، ہمارا دل،ہمارا سب کچھ، ہم اس سے ہیں یہ ہم سے، ہمیں یہاں کچھ ملے نا ملے ہم خوش ہیں،کوئی اور ہمیں جنت بنادے ہمیں منظور نہیں،کیوں اس قوم کی بربادی پر تلے ہو،کیوں نہیں لوگوں کو جینے دیتے۔ ہم ایک کلمہ پڑھنے والے ،ایک نبیﷺ کو ماننے والے،تم ہمیں کس راہ پر لیے جارہے ہو؟ ایک پڑھی لکھی، مہذب قوم،جس کے شاعر،ادیب،خطیب،دانشور،تم نے انھیں کس راہ پر لگا دیا؟ لیکن میں تمہیں بتادوں کہ ہم اس ملک کے رکھوالے ہیں۔ یہ ہمارے سینے میں دھڑکتا ہے۔اس کی بنیادوں میں ہمارے اجداد کا لہو ہے، ہم اسے رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔انشاء اللہ
پچھلے دنوں محترم عمران خان نے ملک میں آئے ہوئے مہمانوں کے لیے جو الفاظ اداکیے ایک تو وہ انھیں چھوڑیے کسی کو بھی زیب نہیں دیتے، لیکن اگر وہ کھلاڑی عالمی معیارکے نہیں بھی تھے تب بھی کیا کسی مہمان کے ساتھ اس طرح کا رویہ مناسب ہے،جب کہ آپ ہر دوسرے جملے میں آپﷺکی حدیثِ مبارکہ بیان فرماتے ہیں، توکیا آپ حضورﷺ کی احادیث مہمانوں سے سلوک کے بارے میں کیا ہیں بھول گئے یانوازشریف کی دشمنی نے اس قدرعاجزکردیا کہ
ہوش گم حواس گم، خردکے آس پاس گم