کرب میں لپٹی ٹھنڈی سانس

انسان ماضی کو کتنا ہی بھولنے کی کوشش کیوں نہ کرے، وہ بار بار ذہن کی دہلیز پر دستک دیتا ہے


Shabnam Gul March 29, 2017
[email protected]

KARACHI: وقت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ پیچھے چند ٹھنڈی سانسیں رہ جاتی ہیں۔ بیتا ہوا وقت یادوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ انسان ماضی کو کتنا ہی بھولنے کی کوشش کیوں نہ کرے، وہ بار بار ذہن کی دہلیز پر دستک دیتا ہے۔ بعض اوقات گزرے ہوئے خوشگوار وقت کی یادیں بھی دکھ دے جاتی ہیں۔ ہر وہ احساس جو گزرجاتا ہے، وقت کی دھند میں کہیں کھوجاتا ہے۔ ایک مدھم آہ کی صورت آپ کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔

بچپن کی خوبصورت یادیں جوانی کے دنوں کا پیچھا کرتی ہیں ۔ جب انسان زندگی کے تلخ حقائق کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ جوانی کے پل،کسک بن جاتے ہیں۔ جب بڑھاپا خزاں کا روپ دھار لیتا ہے۔ خزاں کا اپنا الگ حسن سہی مگر بہارکے گیت بھلائے نہیں بھولتے۔

بہار بھی ٹھنڈی سانسوں میں جذب ہوجاتی ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تواکثر سوچتی تھی کہ آخر نانی تھوڑی دیر کے بعد ایک لمبا سا سانس لے کر حال سے بے گانہ کیوں ہوجاتی ہے۔ نانی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ماں کی ٹھنڈی سانسوں کو گننے لگی۔ ماں کو ماضی سے بہت محبت تھی۔

وہ نوسٹلیجک تھیں۔ اپنے بہن بھائیوں کو یاد کرتیں یا پھر بچپن کے قصے سنایا کرتیں۔ ماضی، حال میں بھی ان کے ساتھ سفرکرتا۔

میں نے اکثر لوگوں کو ٹھنڈی سانسوں میں جیتے دیکھا۔ ان سانسوں کی ان کہی کہانیاں محسوس کرتے، میری سمجھ کا دائرہ وسیع ہوتا رہا۔ لفظ آپ سے وہ کچھ نہیں کہہ پاتے، جو ٹھنڈی سانس کہہ جاتی ہے۔

یہ خالی گھر جیسی ہوتی ہے، جس کے مکین لوٹ کر نہیں آئے۔

یا کسی ایسے دروازے کی طرح جس پر مانوس دستک کے آثار دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ ہر سانس کی اپنی الگ کہانی محسوس کی۔ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے شاخوں سے پتے جھڑتے ہیں۔ یا رات میں خاموشی سے پھولوں پر اوس کے قطرے گرتے ہیں یا جیسے کوئی سونا آنگن، جس میں کبھی قہقہے گونجا کرتے تھے۔ لان میں رکھی ہوئی کرسیاں جن پر اب کوئی نہیں بیٹھتا۔ ایک خالی راستہ جو کب سے سنسان پڑا ہے۔ گاؤں کی پگڈنڈی کا سونا پن۔

یہ حقیقت ہے کہ لاتعلقی میں ڈوبے ہوئے کھوکھلے معاشروں میں، جب ذات کا دکھ چھپانا پڑجاتا ہے تو یہ ٹھنڈی سانس کی صورت ہواؤں میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ یہ سانسیں کتھارسس (دکھ کی تحلیل نفسی) کی طرح ہیں۔ اندر کے حبس سے نجات دلاتی ہیں۔ کرب سے فنا ہوتے ہوئے وجود کو دوبارہ زندگی سے جوڑ دیتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان مہینوں بے ہوشی کے عالم میں رہے تو بھی سانس لیتا رہے گا۔ یہ ایک لاشعوری عمل ہے۔

گوتم بدھ کے لیے سانسیں بے خبری کی تخلیق اور احساس شعورکی تخلیق کا باعث تھیں۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ''شعوری طور پر سانسیں لیں''۔

گوتم یہ بھی کہا کرتا تھا کہ ایک گھنٹے تک سانس سے آشنائی کا مطلب بصیرت افروز ہونا ہے۔ واحد سانس بھی وجود کی آشنائی سے محروم نہ ہو۔

یہ سانس وجود کی گہرائی کو چھوکر آتی ہو۔ یہ زندگی کی مہک اور لمحے کے عرفان سے بہرہ ور ہو۔ گوتم عالم باخبری میں سانس کی حرکت کے ساتھ اپنے اندر آشنائی کا مرکز تخلیق کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ کیونکہ سانسوں کو ہم جب شعوری طور پر محسوس کرتے ہیں تو ہمارا رابطہ حال سے قائم ہوجاتا ہے۔ جب کہ سانس لینا لاشعوری عمل ہے۔

یہ ٹھنڈی، گہری اوردکھ سے بوجھل سانسیں، جسم کے تھکے ہوئے بے جان خلیوں میں، زندگی کی روح پھونک دیتی ہیں۔اس سانس کے ساتھ دکھ، پشیمانی یا کسی ندامت کا احساس بھی باہر نکل آتا ہے۔

اگر دکھ نہ ہوتے تو شاید سانسوں میں گہرائی بھی نہ ہوتی۔

سانسیں، توانائی کا سرچشمہ ہیں۔ یہ جسم کو باہر کے ماحول سے رابطے میں لے کر آتی ہیں۔ سانس کا جسم سے فعال رابطہ نہ ہو تو جسم کا تعلق، توانائی وماحول کی مثبت لہروں سے کٹ جاتا ہے۔ اور وجود میں گہرا خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ ذہن کا رابطہ، خیال کی فعالیت سے منقطع ہونے کے بعد، ادراکی خلل کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ سانس کو فعال اور ہموار کرنے کے لیے کئی مشقیں سکھائی جاتی ہیں جس میں یوگا، مراقبہ، کنڈالینی، ریکی اور شعوری طور پر سانس لینے کی مشقیں شامل ہیں۔

جسم سانس لینے کی مہارت سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ذہنی و جسمانی بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ لیکن جسمانی مشق و پیدل چلنے والے سانسوں کی توانائی سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کام کے وقفوں میں، شعوری سانس آپ کو لمحہ موجود میں واپس لے کر آئے گی۔ لہٰذا وجود کی توانائی کو ماحول کی قوت سے رابطے کا موقعہ مل سکے گا۔

ماضی سے محبت کرنے والے یا پھر ذات کے دکھ میں مبتلا ٹھنڈی سانس کے اسیر ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ وہ گم گشتہ لمحوں کا کرب اپنے اندر محسوس کرتے رہتے ہیں۔ لمحوں میں ٹوٹنے اور جڑنے کا یہ عمل، ذات کے عرفان میں بدل جاتا ہے۔ دکھ، ذہن کی زمین کو، احساس کی زرخیزی عطا کرتے ہیں۔ دکھ نہ ہوتے تو جینے کا عمل بھی سطحی اور بے معنی کہلاتا اور انسان زندگی کے جوہر کو سمجھ نہ پاتا۔ کرب میں لپٹی ہوئی یہ ٹھنڈی سانسیں اسے اپنے ہونے کا یقین دلاتی رہتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں